سلطان محمودغزنوی نے ہندوستان
پرکامیاب حملے کے بعدسومنات کے مندرمیں پڑے بت پاش پاش نے کافیصلہ کیاتویہ
اطلاع سن کرہندوپنڈت زروجواہر سے بھرے تھال اٹھائے سلطان کے پاس حاضرہوئے
اور منت سماجت کے اندازمیں سومنات کامندراور بت نہ توڑنے کی صورت میں
زروجواہرکی پیشکش کی جس پر سلطان محمودغزنوی کاچہرہ غضبناک ہوگیا اورانہوں
نے ہندوپنڈتوں کوایک تاریخی جواب دیا ''میں بت فروش نہیں بت شکن ہوں''اوراس
کے بعد سلطان محمود غزنوی نے سنت رسولؐ اداکرتے ہوئے اپنی تلوارسے سومنات
کے مندرمیں پڑے بتوں کو ریزہ ریزہ کردیا ۔فتح مکہ کے بعد رحمت دوجہاں حضرت
محمدؐ نے اپنے دست مبارک سے خانہ کعبہ میں پڑے بت توڑے تھے ۔بدقسمتی سے
ہمارے کئی پوش گھرانوں میں شوپیس یاسجاوٹ کے نام پربت سجائے جاتے ہیں۔ہمارے
ہاں سیاسی شخصیات اوران کے بچوں کوبھی پوجاجاتا ہے،لوگ اپنے مفادات کیلئے
ان سیاسی بونوں کے سامنے سجدہ ریزہوجاتے ہیں ۔ہمارے بچے ہندوکلچر اپنارہے
ہیں مگرماں باپ اپنے بچوں کوروکناتک گوارہ نہیں کرتے ۔اب توہمارے بیشتر
اردوڈرامے بھی انڈین ڈراموں کی طرزپربنائے جارہے ہیں۔خواتین کے حقوق کی
علمبردارکسی تنظیم نے اس مجرمانہ روش کیخلاف آوازنہیں اٹھائی کیونکہ بھارت
کی طرح اب پاکستان کے ڈراموں میں بھی خواتین کوانتہائی شاطر ،منافق اورمکار
دکھایا بلکہ ایک سازش کے تحت انہیں ایسابنایاجارہا ہے۔عورت کی رسوائی پرآج
کی عورت بھی خاموش ہے ۔ہمارے ہاں زیادہ تر کمرشل ادب لکھاجارہا ہے جس نے
ہمارے نوجوانوں کوبے ادب اورگستاخ بنادیاہے،جوادب بے ادب بنادے اسے ادب
نہیں کہا جاسکتا۔
اﷲ تعالیٰ کاکسی کوشریک ٹھہرانااوراس قادرمطلق کے سواکسی سے مددمانگناشرک
جبکہ بت بنانااوران کی پوجاکرنا کفر ہے ۔اﷲ تعالیٰ کے سواکسی عام انسان
تودرکنار پیغمبر یاولی کوبھی سجدہ کرناجائز نہیں مگرہم گفتگوکرتے وقت
احتیاط کادامن ہاتھ سے چھوڑدیتے ہیں۔سرورکونین حضرت محمدؐ کافرمان ذیشان
ہے''اے اﷲ میری قبرکوبت نہ بناناکہ اس کی پوجاکی جائے،سخت غضب ہواﷲ کااس
قوم پرجس نے اپنے نبیوں کی قبروں کوسجدہ گاہ بنالیا''۔قرآن مجیدفرقان حمید
میں اﷲ تعالیٰ ارشادفرماتا ہے ''پورے پورے اسلام میں داخل
ہوجاؤ''،مگرہماراحال ''آدھاتیترآدھابٹیر''کے مصداق ہے۔ہمارے ہاں ایک بچی
ملالہ ڈائری لکھنے کی پاداش میں طالبان کیلئے خطرہ بن جاتی ہے جبکہ آج ا س
ملالہ نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے اپنے ہم وطنوں
کوسرفرازکردیا ۔ہمارے ہاں امریکہ اوربرطانیہ کوپاکستان کے مفادات کادشمن
سمجھا جاتا ہے ،ہم امریکہ اوربرطانیہ پرتنقیدکرتے ہیں مگرامریکہ اوربرطانیہ
کاویز ا کروڑوں پاکستانیوں کا دیرینہ خواب ہے مگر ہم لوگ پاکستان کوامریکہ
اوربرطانیہ کی طرح ایک متمدن اورترقی یافتہ ملک بنانے کیلئے کچھ نہیں
کرتے۔اسلام کے بعض نام نہاد ٹھیکیدار اپنی دکانداری چمکانے کیلئے امریکہ
اوربرطانیہ کے ساتھ دشمنی کی سزاخودکش دھماکوں کی صورت میں پاکستان کے
معصوم شہریوں کودے رہے ہیں۔نام نہادطالبان امریکہ اوربرطانیہ کوگالیاں دینے
کی بجائے اپنی صفوں میں چھپے بیٹھے غداروں اوروطن فروشوں کوتلاش کیوں نہیں
کرتے جوقومی مفادات میں نقب لگاتے اوراسلام کاحقیقی تشخص مجروح کرتے ہیں،سچ
تویہ ہے امریکہ کی بجائے یہ طالبان پاکستان کی سا لمیت کیلئے خطرہ بنے ہوئے
ہیں ۔معذرت کے ساتھ ہم نام کے مسلمان ہیں ،ہمارے اندرہروہ برائی شدت کے
ساتھ پائی جاتی ہے جس سے ہمیں روکاگیا ہے۔ہم نے اسلام کا نظام خلافت چھوڑکر
مغرب کانظام جمہوریت اپنا لیااورپھربھی تبدیلی اورخوشحالی کے خواب دیکھتے
ہیں۔جونام نہاد طالبان ملالہ یوسف زئی کی تنقید برداشت نہیں کرسکتے وہ
مغربی میڈیا کے سوالات کاجواب کس طرح دیں گے۔دین سمیت ہرمعاملے میں
ہمارادوہرامعیار درحقیقت ہمارے زوال کا روٹ کاز ہے۔اسلام میں شراب حرام ہے
مگراسلامی ریاست میں یہ حرام مشروب پرمٹ کی آڑمیں سرعام خریدا اور فروخت
کیاجاتاہے جبکہ ہرقومی تہوارپر کئی مسلمان شراب نوشی سے مرجاتے ہیں ۔اسلام
سمیت کسی مذہب میں شراب کااستعمال جائزنہیں سمجھا جاتاتوپھرمسیحی بھائیوں
کوپرمٹ پرشراب کیوں فروخت کی جاتی ہے جو وہ مسلمانوں کوبیچتے ہیں۔نام
نہاداسلامی معاشرے میں بیچاری اورکمزورعورت کی عزت کوتارتارکرناایک معمول
بنالیا گیاہے۔جس اوباش کاجی چاہتا ہے وہ کسی کے بھی گھرمیں گھس کروہاں تنہا
عورت کی عزت پامال کرتا ہے اورپولیس کورشوت دے کرباآسانی رہاہوجاتا
ہے۔عورتوں پرگھریلوتشدد کے واقعات بڑھ رہے ہیں،کیا یہ مردانگی ہے۔معمولی
باتوں پرخواتین کی ناک اوربال کاٹنا،بری طرح مارنا ،چھیڑنے سے روکنے یارشتہ
دینے سے انکار کی صورت میں چہروں پرتیزاب پھینکنا ،بچے چھیننااورطلاق
دینا۔اگرکرکٹ پرجوالگانایاکسی جواخانے میں تاش کے پتوں سے جواکھیلناجرم ہے
توپھرپولیس کی پہرے میں گھوڑوں کی دوڑپرجوالگانا کس آئین اورقانون کے تحت
جائز ہے ۔اگراسلامی ریاست میں یہ سب کچھ ہونا ہے توپھراسلامی جمہوریہ
پاکستان کے ساتھ لفظ ''اسلامی'' ہٹادیا جائے۔
پاکستان بلاشبہ کلمہ توحیداوردوقومی نظریے کی بنیادپر معرض وجودمیں
آیامگراس کے باوجود ہم پاکستانیوں نے بت سازی اوربت پرستی نہیں چھوڑی ۔ہم
اپنے ہاتھوں سے حکمرانوں اور سیاستدانوں کی صورت میں بت بناتے ہیں اورپھران
کی پوجاکرتے ہیں۔یہ لوگ ہمارے کندھوں پرکھڑے ہوکرقدآوربن جاتے ہیں۔انہیں
ملک کی باگ ڈورسونپ کران سے اپنے حقوق کی بھیک مانگتے ہیں۔لوگ عہدحاضر کے
فرعونوں سے مدد مانگتے اورانہیں اپناان داتا سمجھتے ہیں۔ہمارے ہاں بدقسمتی
سے کامیابی اورناکامی کامعیاربدل گیا ہے ،جس کے پاس زروجواہر،بنک بیلنس ،محلات،لگژری
گاڑیاں،سرکاری یاسیاسی عہدہ اور اوپرتک تعلقات نہ ہوں وہ ہمارے نزدیک ناکام
ہے اورجولوگ لوٹ کھسوٹ ،چوربازاری ،خوشامداورچاپلوسی میں ملوث ہیں، جولوگ
اپنے ہاتھوں اپنے ضمیرکوموت کے گھاٹ اتارچکے ہیں جونمازقا ئم اورزکوٰۃ
ادانہیں کرتے ، جو طاقتور کو سلیوٹ جبکہ کمزوروں کااستحصال کرتے ہیں اوران
میں دنیا کی ہربرائی پائی جاتی ہے مگروہ صاحب اقتدارواختیار ہوں ،ہما رے
ہاں انہیں کامیاب سمجھا جاتا ہے ۔یہ نام نہاد کامیاب لوگ پارٹی وسرکاری
عہدوں اورمختلف مراعات کیلئے اپنے سے زیادہ دولتمندوں اورمقتدرشخصیات کی
خوشامداورقصیدہ گوئی کرتے ہیں۔ان کے روبروہاتھ باندھ کراوراپناسرجھکاکرکھڑے
ہوتے ہیں ،ان کی ''جے جے کار''کرتے ہیں ۔ہمارے ہاں شخصیت پرستی کاخوفناک
اورخطرناک رجحان اسلامی تعلیمات سے دوری کاشاخسانہ ہے اورمن حیث القوم
ہماری جہالت اورحماقت کاحکمران اورسیاستدان بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں۔جس دن
عوام نے ان مفادپرست اورسرمایہ دارحکمرانوں اورسیاستدانوں کے بت بنانے
بندکردیے اوران کی پوجاکرناچھوڑدی اوراپنے ووٹ کی طاقت واہمیت کوسمجھ لیا
اس دن ان کی اورپاکستان کی کایاپلٹ جائے گی۔ قیام پاکستان سے اب تک ووٹ
پرمہرلگانے والے آج بھی جھونپڑیوں میں رہ رہے ہیں جبکہ ان کے منتخب نمائندے
آج محلات میں مقیم ہیں۔ووٹ کاحق استعمال کرناکوئی کھیل یامذاق نہیں ایک
ضمانت اورشہادت ہے جوخالصتاً امیدوار کی ذاتی شخصیت اوراس کے کردارکی بنیاد
پرد ی جاتی ہے۔برادری اورپارٹی بنیادوں پرووٹ دینے سے بار بار کھمبے منتخب
ہوتے رہیں گے ۔
موروثی سیاست کی نجاست بھی بلاشبہ شخصیت پرستی کانتیجہ ہے۔ہمارے لوگ
سیاستدانوں، سرداروں، وڈیروں اورپیروں کے بعد ان کے بچوں کوبھی پوجناشروع
کردیتے ہیں ۔قیام پاکستان کے وقت ہم ایک زندہ قوم تھے مگرآج ایک ہجوم ہیں
مگرعوام کوبیوقوف بنانے،باری باری اقتدارمیں آنے،مذاق جمہوریت بنانے اوراین
آراوجیسے کالے قانون بنانے کیلئے سیاستدان متحد ہوجاتے ہیں ،جس طرح انہوں
نے راتوں رات اٹھارویں ترمیم پاس کرنے کیلئے اتحادکرلیا تھا ۔ہم پاکستانیوں
نے غلطی سے سرمایہ داروں ،وڈیروں اورسرداروں کواپنانجات دہندہ سمجھ لیا ہے
۔مال کوفتنہ کہا جاتا ہے لہٰذا کوئی مالدارسیاستدان عوام کیلئے اپنے مال کی
قربانی نہیں دیتابلکہ الٹاوہ عوام کی کھال اتارتاہے۔ہمارے زیادہ ترحکمرانوں
اورسیاستدانوں کا سرمایہ سوئس بنک سمیت مختلف بیرونی بنکوں میں پڑا ہے
لہٰذا یہ حکمران اورسیاستدان ان ملکوں کے حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں
ڈال کربات نہیں کرسکتے ۔جس طرح عدالت عظمیٰ نے دوہری شہریت کیخلاف سٹینڈ
لیا اورفیصلہ دیا اس طرح جعلی ڈگریوں کی بنیاد پراسمبلیوں میں بیٹھے ارکان
کیخلاف بھی سخت ایکشن اوران سے حلف لیا جائے۔ہمارے حکمران اورسیاستدان
غیرملکی سرمایہ کاروں کوتوپاکستان میں سرمایہ کاری کی دعوت دیتے ہیں مگران
کااپناکاروباراورسرمایہ لندن ،پیرس اورنیویارک سمیت دنیا کے مختلف ملکوں
میں ہے۔ہمارے بچوں کیلئے دانش سکول بنائے جاتے ہیں جبکہ حکمرانوں کے بچوں
کاایڈمشن آکسفورڈ سمیت دنیا کے بڑے بڑے تعلیمی اداروں میں کرایا جاتا
ہے۔ہمیں اورہمارے اہل خانہ کوگلاب دیوی اورگنگارام ہسپتال کے رحم وکرم
پرچھوڑدیاجاتا ہے جبکہ حکمرانوں اوران کے اہل خانہ کی کھانسی کاعلاج بھی
لندن ،پیرس اورنیویارک کے جدیدترین ہسپتالوں میں کیا جاتا ہے۔پاکستان کے
حکمرانوں اورسیاستدانوں کوپابندکیا جائے کہ وہ بیرون ملک سے اپنا تمام
سرمایہ اورکاروبار پاکستان میں منتقل کریں ،اس سے ہماری قومی معیشت ٹیک آف
کی پوزیشن پرآئے گی اور ہمارے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہنرمند افراد کواپنے
ملک میں روزگارملے گا۔اورجوسرمایہ دارسیاستدان ایسانہیں کرتے انہیں زندگی
بھرکیلئے قومی سیاست سے بیدخل کردیاجائے ۔پاکستان کے حکمران پیرس کاپانی
نوش کرتے ہیں جبکہ ہم اورہمارے بچے ناقص پانی پینے اوراس کے نتیجہ میں
بیمار ہوکرایڑیاں رگڑرگڑکرمرنے پرمجبورہیں۔ |