ماہِ صیام اور لوڈ شیڈنگ

رحمتوں ، برکتوں اور مغفرتوں کے ماہِ مقدس کی آ مد کا اہتمام ہم نے یوں کیا کہ اپنے میاں سے لڑ جھگڑ کرپاک چین دوستی کی علامت کے طور پر ایک ننّھا مُنّا جنریٹر خرید کر خُدا کا شکر ادا کیا کہ اب ایک تو لوڈشیڈنگ کی ایسی تیسی کی جا سکے گی اور دوسرے ہمارا شمار بھی اشرافیہ میں ہونے لگے گا لیکن جنریٹر خریدتے وقت ہم یہ بھول بیٹھے کہ جب چین سے خریدے گئے ساٹھ ریلوے انجنوں میں سے کسی ایک نے بھی ریل کی پٹری پر دَوڑنے سے انکار کر دیا تھا تو پھر بھلا ہمارا ننّھا مُنّا سا جنریٹر کیسے سٹارٹ ہو سکتا ہے ۔طویل تگ و دو اور مکینکوں کی ٹامک ٹائیوں کے باوجود بھی جب ہم جنریٹر میں روح پھونکنے میں ناکام رہے توہم اُسے جنریٹرفروش کے پاس لے گئے لیکن اُس ضمیر فروش نے بھی مُنہ ٹیڑھا کرکے کہا ’’یہ چائینہ کا مال ہے ۔اِس کی کوئی گارنٹی ہے نہ واپسی‘‘۔ بعد از خرابیٔ بسیار اب ہم نے اپنے ’’نویں نکور‘‘ اور چمکیلے بھڑکیلے جنریٹر کو گیراج میں ایسی جگہ سجا کر رکھ دیا ہے جہاں ہر کسی کی نظر پڑے اور ہر کوئی ہمارے اشرافیہ میں سے ہونے کا یقین کر لے ۔ہمارا جنریٹر تو نہیں چلا لیکن شکر ہے کہ ’’رند کے رِند رہے ، ہاتھ سے جنت نہ گئی‘‘ کے مصداق ہم اپنے روزوں میں ملاوٹ سے بچ گئے ۔اب ہم بھی قرونِ اولیٰ کے سے مسلمانوں جیسے روزے رکھ کر ثواب سمیٹیں گے۔وہ لوگ اپنے روزوں میں ایئر کنڈیشنر اور پنکھوں جیسی نامعقول چیزوں کی ملاوٹ نہیں ہونے دیتے تھے۔یہ الگ بات ہے کہ اُس زمانے میں بجلی تھی ہی نہیں ۔

اِس ماہِ مبارک کی فضیلتوں کا بیان احاطۂ تحریر میں لانا ممکنات میں سے نہیں لیکن شرط یہ ہے کہ انسان خلوصِ نیت سے روزے رکھے ۔شدید ترین گرمی اور حبس میں روزہ رکھنے کا مزہ ہی کچھ اور ہے ۔ہم شکر گزار ہیں حاکمانِ وقت کے جنہوں نے ماہِ صیام کی فضیلتوں کو بڑھانے کے لیے لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ اتنا بڑھا دیا کہ اب بجلی کسی حسینۂ دلربا کی طرح کبھی کبھار چلمن پہ آ کے نظارہ کرواتی ہے اور جونہی وہ جھلک دکھلاتی ہے پوری قوم گنگنانے لگتی ہے
کس نے چلمن سے مارا نظارہ مجھے

حکومتِ وقت خوب جانتی ہے کہ ہم پاکستانی سیاست سے ثقافت تک ہر شٔے میں ملاوٹ کرنا اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں اس لیے حاکمانِ وقت نے یہ مناسب جانا کہ جوکچھ اُن کے اختیار میں ہے کم از کم اُس میں ملاوٹ نہ ہونے دی جائے ۔اِسی لیے مہربانوں نے لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بڑھا کر قوم کو قرونِ اولیٰ کے سے خالص روزوں سے روشناس کر ایا ۔ حکومت نے تو یہ سب کچھ قوم کی بہتری ، بھلائی اور عاقبت سنوارنے کے لیے کیا لیکن کچھ بد باطن ایویں خوامخواہ قوم کو بھڑکا کے سڑکوں پہ لانے کی سعی کر رہے ہیں۔ ایسے عاقبت نا اندیش لوگوں کو کم از کم ماہِ صیام کا تو کچھ احترام کرنا چاہیے لیکن اِن لوگوں کے پاس گھڑا گھڑایا جواز یہ ہے کہ اشرافیہ کے محل تو اب بھی روشن ہیں اور وہ اپنے ٹھنڈے ٹھار کمروں میں(پتہ نہیں روزے رکھ کر یا روزوں سے ڈر کر) گھُسے رہتے ہیں،یہ لوڈ شیڈنگ تو صرف غریب غربا پہ ہی وارد ہوتی ۔اب ہم نے بھی طے کر لیا ہے کہ ’’کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیاں گے‘‘۔

ہم تو ماہِ رمضان کی برکتیں اور رحمتیں سمیٹ ہی رہے ہیں لیکن کمزوریٔ ایماں میں مبتلاء اِس قوم کو کون سمجھائے جو ہر روز سڑکوں پر نکل کر ہا ہا کار مچاتی نظر آتی ہے ۔ ہمارے پانی بجلی کے وزیر محترم خواجہ آصف سیالکوٹی ہر روز ٹی وی پر آ کر قوم کو یہ سمجھانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ قوم نے پیپلز پارٹی کی حکومت کو پانچ سال تک بھگت لیا لیکن اُنہیں تو حکومت سنبھالے صرف 45 دِن ہی ہوئے ہیں۔محترم خواجہ صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ اُن سے کہیں زیادہ عقلمندتو ’’راجہ رینٹل‘‘ نکلے جنہوں نے چھ ماہ کا جھانسا دے کر پوری قوم کو ٹرک کی بتّی کے پیچھے لگا دیا اور خود عیش سے پانچ سال پورے کر لیے جبکہ خواجہ صاحب نے پہلے دِن ہی حفظِ ما تقدم کے طور پرتین سال کے عرصے میں لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کا اعلان فرما دیاجو قوم نے رَد کر دیا کیونکہ اُس کے خیال میں تو میاں برادران کے پاس ایسا بوتل کا جِن ہے جو پلک جھپکتے ہی لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کر سکتا ہے ۔پھر خواجہ صاحب نے ماہِ رمضان میں پانچ گھنٹے لوڈ شیڈنگ کی کمی کا دل خوش کُن اعلان فرمایا جس پر تا حا ل کسی بھی جگہ عمل درآمد نہیں ہو سکا جس نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔محترم خواجہ آصف صاحب نے شاید تین سال کا وقت میاں شہباز شریف صاحب سے پوچھ کر نہیں دیاکیونکہ میاں صاحب تو انتخابات سے پہلے یہ کہہ چکے ہیں کہ اگر دو سال میں لوڈشیڈنگ کا خاتمہ نہ کر دوں تو میرا نام بدل دیں۔ ہو سکتا ہے تین سالہ مدت دیتے وقت خواجہ صاحب نے میاں صاحب کا کوئی اچھّا سا نام بھی سوچ رکھا ہو۔

اُدھر ہمارے پیارے میاں برادران ڈھیر وں ڈھیر ’’بیلٹ‘‘ حاصل کرنے کے بعد ’’ بُلٹ‘‘ کے چکر میں پڑ گئے ۔ شنید ہے کہ حکومت اپنی اولین فُرصت میں کراچی میں بُلٹ ٹرین چلانے کا منصوبہ مکمل کرنے جا رہی ہے ۔سوال مگر یہ ہے کہ اگر بُلٹ ٹرین کو چلانے کے لیے بجلی ہی میسر نہ ہو ئی تو کیا اُس ٹرین کو دھکے لگا کر ایک سٹیشن سے دوسرے سٹیشن تک لے جایا جائے گا ؟۔شاید حکومت نے پہلے سے ہی یہ منصوبہ بندی کر رکھی ہو کہ اگر بجلی میسر نہ ہوئی تو بُلٹ ٹرین کو دھکا لگانے کے لیے بیروزگار بھرتی کیے جائیں جس سے’’ ایک پنتھ دو کاج ‘‘کے مصداق ٹرین بھی چل پڑے گی اور بے روزگاری کا خاتمہ بھی ہو جائے گا۔یہی فارمولا اگر ریلوے کے وزیر خواجہ سعد رفیق صاحب بھی استعمال کرنے پر آمادہ ہو جائیں تو پاکستان میں کوئی بے روزگار ڈھونڈے سے بھی نہیں ملے گا۔

چھوٹے میاں صاحب المعروف خادمِ اعلیٰ پنجاب ،راولپنڈی ، فیصل آباد اور ملتان میں بھی ’’ریپڈ بس‘‘ چلانے کی تگ و دو میں ہیں۔اُنہوں نے ہتھیلی پہ سرسوں جماتے ہوئے محض گیارہ ماہ میں فیروز پور روڈ کو ’’بھول بھلیوں‘‘ میں بدل دیا۔ مجھے پچھلے دنوں انارکلی جانے کا اتفاق ہوا۔واپسی پر میں نے واپڈا ٹاؤن جانے کے لیے فیروز پور روڈ کا راستہ اختیار کیا ۔لیکن ہوا یہ کہ میں فیروز پور روڈ کی بھول بھلیوں میں ایسی گُم ہوئی کہ واپڈا ٹاؤن کی بجائے ’’ گجومتہ‘‘جا پہنچی۔ہمیں یقین ہے کہ ’’زمیں جنبد نہ جنبد ، گُل محمد‘‘ کے مصداق چھوٹے میاں صاحب پر ہم جیسوں کی گزارشات کا کچھ اثر نہیں ہو گا، پھر بھی کہے دیتے ہیں کہ جناب ! ریپڈ بس ضرور چلائیے لیکن اُن دیہاتوں اور قصبوں کا بھی کچھ خیال کر لیجئے جو مکمل طور پر اندھیروں میں ڈوب چکے ہیں۔یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے اِس آس پر نواز لیگ کو ووٹ دیئے تھے کہ وہ اقتدار میں آ کر اُنہیں لوڈ شیڈنگ کے عذاب سے نجات دلائے گی۔ مانا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت اور اِس سے پہلے کی طویل آمریت نے ایسے گھمبیر مسائل کو جنم دیا ہے ، جنکے حل کے لیے ایک عرصہ درکار ہے لیکن اب قوم میں اتنا بھی صبر و قرارباقی نہیں کہ وہ مزید تین چار سال تک انتظار کرسکے۔ اﷲ نہ کرے کہ یہ حکومت بھی ناکام ہو جائے کیونکہ اِس کے بعد تو محض گھور اندھیرے ہی باقی بچتے ہیں جو لاریب خونی انقلاب کی علامت ہوتے ہیں۔اپنے پچھلے پانچ سالہ دَورِ اقتدار میں میاں شہباز شریف صاحب بار بار قوم کو خونی انقلاب سے ڈراتے رہے ہیں لیکن اب جبکہ وہ ہمہ مقتدر ہیں ، وہ کوئی ایسا ’’چمتکارــ‘‘ کیوں نہیں دکھلاتے جو قوم کو اندھیروں سے اُجالوں میں لے آئے ۔
Prof Riffat Mazhar
About the Author: Prof Riffat Mazhar Read More Articles by Prof Riffat Mazhar: 894 Articles with 645252 views Prof Riffat Mazhar( University of Education Lahore)
Writter & Columnist at
Daily Naibaat/Daily Insaf

" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی ب
.. View More