ولی ِمکرم کا چشمہ

ہماری کتاب ’’مکالمہ بین المذاہب‘‘پرایک عبقری کالم نگار رعایت ﷲ فاروقی کاتبصرہ ۔۔۔۔کوئی بائیس برس گزرنے کوہیں کہ درجہ سادسہ میں ایک نوعمر لڑکا آکر داخل ہوا۔وہ عمر میں مجھ سے دوبرس کم ، کلاس میں دوبرس آگے اور لیاقت میں اس قدر فائق تھاکہ آج بائیس برس بعد بھی مسافت کے تخمینے میں خود کوناکام پاتاہوں ،شاید نہیں یقینا ۔اس لئے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ مسافت بڑھتی جارہی ہے ،اس کی تخلیق پر مامور فرشتے خداجانے کس سبب خوشگوار موڈمیں رہے کہ دماغ میں ذہانت انڈیلنی شروع کی، تو بس انڈیلتے ہی چلے گئے ۔ پہلی بار اسے دیکھا ،تویہ ذہانت اس روز بھی اس کی آنکھوں میں رقص کرتی نظرآئی ،میں بلاکسی رسمی تعارف کے اس کے پاس جابیٹھا ،توحاشیہ ٔخیال میں بھی نہ تھا کہ یہ نشست عمربھرپر محیط ہوجائے گی اور عالم یہ ہے کہ خود کوآج بھی اسی نشست کے تسلسل میں پاتاہوں ۔ تکرارو مطالعے کے رسمی تکلف سے آزاد اس لڑکے نے دورۂ حدیث محض سولہ برس کی عمرمیں جامعہ فاروقیہ کراچی سے ملک گیر سطح پر ممتاز ترین حیثیت میں پاس کیا۔ اس کی ذہانت ہی کاکرشمہ تھاکہ محض تین ماہ ڈاکٹر عبدﷲ عزام شہید اورشیخ اسامہ شہیدکی صحبت میں گزار کرلوٹا،تو ’’مال غنیمت ‘‘ کے طورپر ’’عربی ادب‘‘ لے آیا ۔وہ اٹھارہ برس کی عمرمیں وفاق المدارس سندھ بلوچستان زون کاناظم اعلی منتخب ہوا۔ انیس برس کی عمرمیں عربی مجلّے ’’الفاروق ‘‘ کانائب مدیر بنا۔چوبیس برس کی عمر میں جامعہ فاروقیہ کراچی کے عربک ڈیپارٹمنٹ ’’معہد اللغۃالعربیہ والدراسات الاسلامیہ ‘‘ کاسربراہ بنااور محض اٹھائیس برس کی عمرمیں پاکستان کی اسلامی علوم کی اس تیسری بڑی درسگاہ کی مسندِحدیث تک جاپہنچا۔ وہ سفرناموں سے لے کر دقیق علمی موضوعات تک دو درجن سے زائد کتابوں کا مصنف بھی ہے۔ عربی ادب میں اس کامقام اس کی بین الاقوامی شہرت کاسبب ہے۔وہ مولانا سید ابوالحسن علی ندوی نورﷲ مرقدہ کے بعد غالباًواحد عجمی ایشیائی ہے، جسے عربی ادب میں گراں قدرخدمات کے اعتراف میں لبنان سے ایوارڈ ملاہے، جبکہ عرب دنیا سے ملنے والے دیگر اعزازات اس کے علاوہ ہیں ۔ وہ ہرماہ ’’ریڈیو ٹیکساس ‘‘ پر دوگھنٹے براہ راست اصلاحی وعلمی خطاب بھی کرتاہے ،غرضیکہ اس نے’’ لڑکے ‘‘ سے اپنی ذات میں ایک ’’انجمن ‘‘ تک کا سفر حیران کن سرعت سے طے کیاہے ۔میں بائیس برس قبل جسے ’’یا اَلکا‘‘ (اے لڑکے ۔تب میری عمر سولہ جبکہ اس کی چودہ برس تھی )کہہ کرپکارتاتھا۔ آج اسے ’’ولیِ مکرم ‘‘ سے مخاطب کرتاہوں جبکہ باقی دنیا انہیں حضرت شیخ ولی خان المظفر کے نام سے جانتی ہے۔

ولی ِمکرم کی ایک تازہ کتاب ’’مکالمہ بین المذاھب ‘‘ یونس عالم کے توسط سے مجھ تک پہنچی ہے۔ یہ کتاب تقابل ادیان کے موضوع پر ولیِ مکرم کے درسی لیکچرز کاقلمی اسلوب ہے ۔ تین سوپچھتر صفحات کی یہ کتاب ادیان ومذاہب اور ان کے ذیلی فرقوں سے لے کر تاریخ ِعالم کے مختلف موڑوں پرظہور پذیر ہونے والے ہرنوع کے مذہبی وسیاسی نظریات وشخصیات کا ایک ایسا بھر پور احاطہ ہے کہ شاید ہی کوئی فرقہ ونظریہ اس کے دائرے سے باہر رہاہو۔

اس کتاب کو چار ابواب میں تقسیم کیاگیاہے ۔پہلا باب ادیان ومذاہب کے عنوان سے 165صفحات پر مشتمل ہے، جس کے 175ذیلی عنوانات ہیں ۔ دوسرا باب فرق ومکاتب کے عنوان سے 85صفحات پر پھیلا ہواہے ،جبکہ ذیلی عنوانات 102ہیں ۔ تیسرا باب افکارونظریات کاعنوان رکھتاہے،یہ باب 65صفحات اور 88 ذیلی عنوانات پر مشتمل ہے۔اشتات و متفرقات کے عنوان سے قائم چوتھا باب 46صفحات اور 54ذیلی عنوانات کا احاطہ کرتاہے ۔ذیلی عنوانات کے بطور خاص تذکرے کی ضرورت اسلئے محسوس ہورہی ہے کہ چندایک کے سوا ہرعنوان کسی مذہب ،فرقے ، نظریئے یاشخصیت کا نام ہے ، جس سے اندازہ کیا جاسکتاہے کہ یہ کتاب اپنے موضوع پر احاطے کا کس قدر وسیع دامن رکھتی ہے۔

ولیِ مکرم کی اس کتاب کی ممتاز ترین خوبی ’’فتوے بازی ‘‘ سے مکمل گریز ہے۔ ورنہ عصر ِحاضر کے مذہبی مصنفین اس نوع کے موضوع پر قلم اٹھائیں اور وہ چارلاکھ انسانوں کو دائرۂ اسلام سے خارج نہ کردیں، تو ان کی ’’اسلامی خدمت ‘‘ کی حس کو تشفی نصیب نہیں ہوتی ۔میں ہمیشہ سے اس تصور پر کاربندرہاہوں کہ آپ ستھرائی کو بیان کردیجئے، غلاظت خود بخود جدا ہوجائے گی ،زبان اور ماحول کو پراگندہ کرنے کی کیا ضرورت ؟ ولیِ مکرم اس کتاب میں یہی کرتے نظرآتے ہیں ۔ وہ ہرمذہب ، نظریئے ،فرقے اور شخصیت کابس تعارف کراتے چلے جاتے ہیں اور وہ بھی جذباتیت سے بالکل عاری ، نہایت ،شائستہ زبان میں،جوش وخروش اور بے مقصد تلاطم ،جسے بالعموم ’’غیرت اسلام ‘‘ کاعنوان دیاجاتاہے اس کتاب کی کسی ایک سطرمیں بھی نہیں پائے جاتے ۔ہرمذہب ،فرقے یانظریئے کی وہی باتیں تعارف میں بیان کی گئی ہیں جن کا ان کی جانب سے برملا اظہار ہواہے ۔ مستشرقین کے حوالے سے ایک اقتباس سے اس کتاب کے مزاج کابخوبی اندازہ کیاجاسکتاہے۔

’’تفسیر ،حدیث ، فقہ ، لغت ،ادب ، منطق اور فلسفہ پر (مستشرقین کی جانب سے )نہایت قابل قدر کام کیاگیا، چونکہ مستشرقین بنیادی طور پر دھریہ، یہودی اور عیسائی عقائد کے حامل تھے، لہذا مذہبی بغض وعناد میں آکر ان سے جابجا علمی خیانتوں کا دانستہ یانادانستہ ارتکاب بھی ہوگیا‘‘۔

اس اقتباس میں ’’دانستہ یانادانستہ ‘‘ کے الفاظ ولیِ مکرم کی کشادہ ظرفی کا بھر پور پتہ دیتے ہیں،ورنہ غور کیجئے ایک مسلم اسکالر کو ضرورت کیاپڑ ی تھی کہ وہ ’’نادانستہ ‘‘ کی رعایت دے ؟ روایتی قسم کے مصنفین اس قسم کے ’’تکلفات ‘‘میں نہیں پڑاکرتے ،مگر ولیِ مکرم کی خوبی یہی ہے کہ وہ بھیڑ چال کا شکار نہیں ہوتے اور یہی خوبی انہیں ہم عصروں میں ممتاز کرتی ہے۔

ولیِ مکرم کے یہ گراں قدر لیکچرز ہوا میں تحلیل ہوجاتے اگر بشیراحمد بن اظہار میاں پورے تعلیمی سال کے دوران انہیں ضبط تحریر میں لاکر محفوظ نہ کرلیتے ،جبکہ ناصربن ابی سعید نے حوالہ جات کی تخریج کا کٹھن کام کرکے کتاب کی ہرہر سطر کومقام ’’مستند ‘‘ پر فائز کردیاہے۔

ان دونوں نوجوانوں کی یہ کاوش کسی احسان سے کم نہیں ہمارے ہاں مطالعہ ٔکتب کا ذوق ہمیشہ سے کمزور چلاآیاہے ،نوجوانوں نے تو جیسے درسی کتب کے سوا مطالعے سے گریزاں رہنے کی قسم کھارکھی ہے، ذوقِ مطالعہ یہاں بڑھاپے کا مشغلہ بن چکاہے ،رہی سہی کسر انٹرنیٹ نے پوری کردی ہے حالانکہ مغرب میں انٹر نیٹ کتاب کے متبادل کی حیثیت اختیار کرنے میں آج بھی ناکام ہے، وہاں آج بھی مطالعۂ کتب پورے عروج پر ہے ،نہیں بھولناچاہیئے کہ قوموں کی ترقی کی راہیں کتب کے اوراق سے پھوٹتی ہیں ۔ذوقِ مطالعہ سے آشنا جو قارئین تقابل ادیان اور فرق ونظریات کے حوالے سے علمی تشنگی محسوس کرتے ہیں، ان کیلئے ولیِ مکرم کاچشمہ بے نظیر شے ہے !
Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 878045 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More