’’آتشِ رفتہ کا سراغ‘‘: ایک ناول جو بٹلہ ہاؤس کی سچائی کو بے نقاب کرتا ہے

سمیہ بشیر

مشرف عالم ذوقی ۱۹۸۰؁ء کے بعد کی نسل کے افسانہ نگار ہیں ۔ ان کے ناول اپنے موضوع کے اعتبار سے اردو میں نئے امکانات اور زندگی کے نئی اور حسین تعبیرات کی طرف مائل نظر آتے ہیں ۔تخلیقی عمل کے وسیع پس منظر میں وہ زندگی اور اس کے تمام اسرار و رموز اس کے حسین اور کریہہ تہذیبی اور سماجیاتی حوالوں کے ساتھ پیش کرتے ہیں ۔ان کے یہاں کہانی کی تشکیل ہی خود زندگی کے متنوع تجربات ،ذاتی اور سماجیاتی پس منظر کے زیر اثر وجود میں آتی ہے ۔سماجی اور شخصی زندگی کے حوالوں اور ان سے پیدا ہونے والے اقدار ان کے ناولوں میں خاص طور سے جھلکتے ہیں ۔ انہوں نے اپنے ناولوں میں مختلف سطح پر زندگی کی ترجمانی اور اس کی مثبت قدروں کی نگہداشت کی کوشش کی ہے ۔اول تا آخر زندگی کی مثبت اور منفی قدروں کی پیشکش میں ان کا قلم رواں دواں رہتا ہے ۔ان کو اپنی کہانیوں کے لئے کردار ڈھونڈنے میں کوئی مشقت نہیں جھیلنی پڑتی بلکہ ہر کردار بہت آسانی کے ساتھ کہانی کی ہر صورت خود بخود اپنی سانچے میں ڈھلتی چلی جاتی ہے۔کرداروں کی نفسیاتی کشمکش ہو یا ان کا سیاسی و جنسی استحصال یا ان کا عزم و استقلال ،ان کی افسردگی یا زندگی سے جنگ کا حوصلہ ،سب ایک دوسرے سے مل کر ان کی کہانیوں کو آگے بڑھاتے ہیں ۔فرق صرف یہ ہے کہ موضوع اور اسلوب کے ساتھ ساتھ ناول کے بیان میں فنکار کے ذہن میں پیدا ہونے والا سماجی اور تخلیقی درد بھی ابھرتا چلا جاتا ہے۔ذوقی واقعاتی ترتیب کے ساتھ ساتھ زندگی کے وسیع تر تانے بانے کو لے کر آگے بڑھتے ہیں ۔وہ ہر مسلئے میں ڈوبتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں ۔ ان کی اس روش اور احساس نے تخلیقی عمل میں ایک مثبت قدر پیدا کی ہے ۔زندگی کے ساتھ مربوط ہونے کے باوجود ان کے ناول عصری حسیت کے اعتبار سے ہر اس منزل کو عبور کرتے ہیں جو ایک ناول نگار کو معیار اور قدر تک پہچاتی ہے۔لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ مشرف عالم ذوقی کی کہانیاں اردو میں زندگی اور اسے محبت کا ایک نیا ذائقہ پیش کرتی ہیں۔اپنی کہانیوں کے ہر تخلیقی زاویے اور فکرو عمل کی ہر تعمیر میں وہ تخلیقی سطح پر زندگی کو سمجھنے کا موقع فراہم کرتے ہیں ۔ان کے موضوعات ہمارے سماج کے روز بروز کے مسائل ہوتے ہیں ۔ ان کے ناولوں کا کینواس اکثر وسیع ہوتا ہے ۔عام فہم موضوع بھی ان کے یہاں ان کے مخصوص انداز سے وسعت اختیار کر جاتا ہے۔

فساد، دہشت گردی ،اقلیتوں کا قتل ِعام ، شدھی کرن ،فرقہ پرستی ،نکسل واد اور اس قبیل کے مختلف ایسے موضوعات ہیں جن کا ہر روز تجربہ ہورہا ہے۔بابری مسجد، گودھرا،گجرات ،دانتے واڑھ ،نکسل باڑی کے سانحات و وقاقعات سے سبھی واقف ہیں ۔حالیہ منظر نامے میں ایسی صورت تو مزید تیز ہوگئی ہے ۔باشعور افسانہ اور ناول نگار نے ایسے مسائل کو شدت سے محسوس کیا اور اسے ’’بیان ‘‘ ،’’اقلیتیں مرنے کے لئے ہوتی ہیں ‘‘،’’پو کے مان کی دنیا ‘‘،اور ’’پروفیسر ایس کی عجیب داستان وایا سونامی ‘‘جیسی کہانی کا موضوع بنایا ہے ۔ یہ کہانیاں ہمارے ملک کے سیاہ منظر نامے کو خوبصورتی سے پیش کرتی ہیں ۔ذوقی صرف ایک سچے فنکار ہی نہیں بلکہ وقت کے نباض بھی ہیں ۔ ان کے ناولوں کی سب سے اہم خوبی موضوعات کی رنگا رنگی ہے۔وہ موضوع کے انتخاب میں کسی بھی طرح کا سمجھوتہ نہیں کرتے جب تک کوئی بات ان کے دل کو چھوتی نہیں وہ اس پر قلم نہیں اٹھاتے ہیں ۔

لہذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مشرف عالم ذوقی محض لکھنے کے لئے نہیں لکھتے بلکہ زندگی کے کھرے کھوٹے تجربے اور مشاہدے ان کے ذہن اوردل و دماغ میں رچ بس جاتے ہیں ۔خصوصاً جہاں استحصال کی کیفیت ہوتی ہے وہاں ان کا قلم اور بھی چمکتا ہے ۔ظاہر ہے کہ ذہین ناول نگار کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے تجربات و مشاہدات کو اس طرح فنی جامہ پہنائے کہ پڑھنے والوں کے لئے بھی بصیرت کا کام سر انجام دے سکے ۔اس اجمالی جائزے میں تمام ناولوں کا ذکر اور تجزیہ تو ممکن نہیں لیکن اتنی بات تو پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ ذوقی ایک ذی ہوش ناول نگار ہیں جو اپنے کرداروں کو زندگی کے مختلف مسائل سے وابستہ رکھتے ہیں ۔ذوقی فکشن کے اصولوں کی سخت پیروی کرتے ہیں لہذا تکنیکی اور فنی اعتبار سے بھی ان کی کہانیاں کامیاب ہیں ۔کہہ سکتے ہیں کہ ذوقی اپنی روایات سے آگاہ ہیں ۔اپنے مسائل کی خبر رکھتے ہیں اور اپنے تجربات اور مشاہدات کو فنی طور پر بھرت کر ایسی کہانیاں واضع کرتے ہین جو دل میں اتر جاتی ہیں۔اور اپنی فنی تکمیلیت کا احساس بھی دلاتی ہیں ۔

مشرف عالم ذوقی اردو کے ان اہم ناول نگاروں میں ہیں جنہوں نے جو کچھ لکھا بہت سوچ سمجھ کر اور پوری ذمے داری کے ساتھ لکھا۔’’نیلام گھر ‘‘ ’’شہر چپ ہے‘‘ ’’بیان‘‘ ’’پو کے مان کی دنیا‘‘ ’’پروفیسر ایس کی عجیب داستان وایا سونامی‘‘ ’’لے سانس بھی آہستہ ‘‘ ’’آتش رفتہ کا سراغ‘‘ وغیرہ ان کے مشہور ناول ہیں ۔ ان میں موضوع کے اعتبار سے بیان کو کافی شہرت ملی ہے ۔’’شہر چپ ہے‘‘ فلمی اور میلو ڈرامائی ترز پر لکھا ہوا ملک اور قوم کا المیہ ہے جس میں ذوقی نے غریب طبقے کی لاچاری ،بے روز گاری اور انجام کار بیزاری کی عکاسی کی ہے۔’’نیلام گھر ‘‘موجودہ انتظامیہ ،عورتوں کے استحصال ،اور پولیس کے جبر کی کہانی ہے اور قاری سے نظام کی تبدیلی کے لئے اٹھ کھڑے ہونے کا تقاضا کرتی ہے ۔’’بیان‘‘ہندوستان کی مشترکہ تہذیبی و ثقافتی اقدار کے زوال کا نوحہ ہے ۔تقسیم ہند سے لے کر ممبئی کی نسل کشی بربریت کے عام فہم اہم واقعات اور بابری مسجد کی شہادت کے بعد ہندوستان میں مسلمانوں کی سیاسی حیثیت کا بیباک اور جراء ت مندانہ تجزیہ اس ناول کا خاصہ ہے ۔

جب ہم مشرف عالم ذوقی کی ناولوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ ذوقی کو موضوعاتی ناول لکھنے میں خاصی مہارت حاصل ہے ۔وہ بیباکی اور نڈر تا سے دیش ،سماج ، معاشرے ،تہذیب و تمدن اور انسانیت کے بنتے بگڑتے نقوش کو نہ صرف اپنی تیز آنکھوں سے دیکھتے ہیں بلکہ اس کرب کو دل میں اتار لیتے ہیں اور پھر ان کا قلم اپنے موضوع کے ساتھ بھر پور انصاف کرتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ناول بیان اپنے موضوع پر لکھی جانے والی تحریروں میں سب سے ذیادہ قابلِ اعتناء سمجھی گئی۔

مشرف عالم ذوقی کا ایک اور ناول ’’آتش رفتہ کا سراغ‘‘جو حال ہی میں منظر عام پر آیا ہے ۔ اس ناول میں بٹلہ ہاؤس اینکاوئنٹر اور اس کے بعد کے حالات کو پیش کیا گیا ہے۔ بٹلہ ہاؤس پر حکومت کا فیصلہ آچکا ہے۔ اور اب اس ناول کی حیثیت اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کہ بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کو ذوقی نے بیباکی کے ساتھ اپنے ناول کا موضوع بنایا ہے۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں جامع نگر کے علاقے میں ۱۹ ستمبر ۲۰۰۸؁ء میں حریفانہ مقابلے کے سبب میں ایک اور اضافے کا سبب بنا۔جامع نگر کا پورا علاقہ ہی نہیں بلکہ پوری دہلی کی سماجی فضا مخدوش ہو کر رہ گئی۔بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کو انہوں نے علامت کے طور پر استعمال کیا ہے۔ناول کا آغاز بٹلہ ہاؤس کے دلکش اینکلو میں رہائش پزیر ارشد پاشا کے خاندان سے ہوتا ہے۔ارشد پاشا اردو کے صحافی ہیں ان کے خاندان میں ان کی بیوی رباب اور بیٹا اسامہ ہے ۔اس ناول میں بہترین انداز میں بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کی منظر کشی کی گئی ہے ۔جامعہ نگر میں ہر کسی کے دل و دماغ میں ایک نامعلوم خوف بیٹھا ہوا ہے ۔اسی دوران یہ انکاونٹر ہوتا ہے اور بے گناہ لڑکوں کو مار دیا جاتا ہے جو اسامہ کے دوست تھے ۔۔کہانی اسامہ اور اس کے دوستوں سے شروع ہوتی ہے ۔اسامہ کے دوست علوی کو پولیس گرفتار کر لیتی ہے ۔ارشد پاشا کے بیٹے اسامہ کو بھی پولیس تلاش کر لیتی ہے ۔لیکن وہ اس ڈر اور خوف میں نہیں جینا چاہتا۔اس نے نئی زندگی کا انتخاب کیا اور گھر سے نکلا انسانیت کی تلاش میں اس انسانیت کی جس پر انتہا پسندی کی غلط چادر ڈال دی گئی تھی ۔اسامہ کے جانے سے گھر کی رونق چلی گئی ہے۔رباب اپنا دل بہلانے کے لئے بٹلہ ہاؤس کے قریب ایک Ngeo میں جانے لگتی ہے۔جہاں اس کو شمیمہ ملتی ہے ۔اور وہ اس کو گھر لے آتی ہے ۔جس سے ارشد پاشا اور رباب کو تھوڑی سی خوشی کا احساس ہوتا ہے ۔ظاہر ہے کہ بیٹا بچھڑ جانے کا غم تو ہلکا نہیں ہو سکتا لیکن کچھ دیر کے لئے ہی سہی وہ لوگ تو بہل جاتے ہیں ۔وقت گزرتا ہے بابری مسجد کی شہادت کا فیصلہ آجاتا ہے ۔ جو مسلمانوں کے حق میں نہیں تھا ۔ اس لئے تینوں فریقوں کو خوش کرنے کی کوشش کی گئی تھی ۔فیصلہ سننے کے بعد علوی کے والد کا انتقال ہوتا ہے اور پھر لاش کی سیاست کاڈرامہ شروع ہوتا ہے ۔علاقے کے لیڈر میر صاحب کی تجویز پر عمل کرتے ہوئے لاش کوبٹلہ ہاؤس چوک پر رکھ کر مظاہرہ کیا جاتا ہے لیکن سب بے سود ۔ناول میں ارشد پاشا کا دوست تھاپڑ ہے جو ہر قدم پر ارشد پاشا کا ساتھ دیتا ہے ۔لیکن جب تھاپڑکے چہرے سے نقاب اترتا ہے تو اندازہ ہوتا ہے کہ تھاپڑ کون ہے۔اور اس کے کیا مقاصد ہیں ۔ارشد پاشا ایک وکیل سے ملتے ہیں تاکہ ان کا بیٹا تلاش کرنے میں وہ ان کی مدد کر سکے لیکن وہ ناکام ثابت ہوتا ہے ۔ناول کا خاتمہ بڑا درد ناک ہے۔ارشد پاشا کی تلاش ختم نہیں ہوتی بلکہ ایک نئی تلاش کا آغاز ہوتا ہے ۔ہندوستان میں ایک خاص مذہب سے تعلق رکھنے والا فرقہ مجبوری ،بے بسی اور لاچاری کی تصویر بنا بیٹھا ہے کوئی اس کا پرسانِ حال نہیں ۔اب اس کے اپنوں نے بھی اس فرقہ سے منہ پھیر لیا ہے ۔اس فرقے کی ہزاروں خواہشیں،ارمان، امید سسک سسک کے دم توڑ رہے ہیں ۔اس فرقے کا کوئی بھی خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوتا ہے ۔دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں اس کے ساتھ ملک کی تقسیم کے بعد سے ہی امتیاز برتا گیا ہے ۔اور اسے حاشیے پر پہنچا دیا گیا ہے ۔آج اس کے صبرو تحمل اور برداشت کی طاقت جواب دے گئی ہے کہ یہ فرقہ آج بھی امن پسند ہے۔

مشرف عالم ذوقی نے اسی فرقے کی حالات زار کو محور بنا کر یہ ناول تحریر کیا ہے ۔اس ناول کے ہر صفحے پر آپکو اسی تلخ سچائی کا سامنا کرنا پڑے گا جس کا آپ اندازہ بھی نہیں لگا سکتے ۔اچھے لکھنے والے کی یہی پہچان ہے کہ وہ لکھنے سے پہے ایک قاری طرح سوچے ،سمجھے اور غور و فکر کرے تبھی وہ ایک بہترین تحریر قاری کے سامنے پیش کر سکے گا ۔ ذوقی نے اس ناول میں زندگی کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کیا ہے ۔یہ ناول محض بٹلہ ہاوس تک محدود نہ سمجھا جائے بلکہ اسے مسلمانوں کی آزادی کے بعد ہورہے مسلسل ظلم و ستم کے تناظر میں دیکھا جائے گا۔ ملک تو آزاد ہوگیا تھا ۱۹۴۷؁ء میں لیکن کیا ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کو آزادی ملی تھی ؟اس ناول میں سب کچھ ملے گا ۔ایسے واقعات ملیں گے جن سے عام انسان متاثر ہوتا ہے ۔مثلاً ہندوستانی پارلیمنٹ پر حملہ ،گجرات کے فسادات ،پاکستان کے انتہا پسندی کے واقعات ،بمبئی کا دہشت گردانہ حملہ وغیرہ وغیرہ ۔ذوقی نے عام فہم انداز میں ہماری آپسی داستان پیش کی ہے ۔ یہ ناول ذوقی سے منسوب ضرور کیا جائے گا لیکن اس کے کردار ہم سب ہیں ۔ یہ ہماری کہانی ہے ایک ایسی کہانی ہے جس سے آج تک پردہ نہیں اٹھایا گیا ۔اس پر کسی نے نہیں لکھا ۔ایک ایسی حقیقت جسے آنکھ ملانے سے ہر کوئی ڈرتا ہے ۔ذوقی کی خاص بات یہ ہے کہ وہ کردار کے زندگی کے چھپے ہوئے پہلوؤں اور غمناک مناظر سے پردہ اسطرح اٹھاتے ہیں کہ آپ قدم قدم چوکنے پر مجبور ہو جائیں گے ۔تھاپڑ ایسا ہی ایک کردار ہے اور تھا پڑ سے پہلے ارشد پاشا کے بیٹے اسامہ کا کردار جو ناول میں سب سے کم بیانیہ کردار ہوتے ہوئے بھی سب سے مضبوط کردار کے روپ میں ابھر کر سامنے آتا ہے۔ جس نے مذہب کو اپناتے ہوئے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ آج کی صدی میں سب سے بڑا مذہب انسانیت ہے۔چاہے سکھ ہوں یا عیسائی ہوں سبھی کو مذہب کی تعلیم دی جائے ۔کسی نے یہ نہیں کہا کہ کسی دوسرے مذاہب کے افراد کا قتل عام کرو۔ اسامہ ایک ایسا ہی کردار ہے جسے طویل عرسے تک یاد رکھا جائے گا ۔اس نے کم سنی میں ہی بڑے بڑے سادھوں اور سنتوں کو یہ کہنے پر مجبور کیا کہ اس کا مقصد بہت عظیم ہے ۔ ۔یہ جو کر رہا ہے وہ ہم سمجھ نہیں سکتے ۔یہ بچہ اپنے مذہب پر قائم رہتے ہوئے ہم سب کو اپنا بنا بیٹھا ہے ۔ذوقی نے اس کردار کے لئے جو نام چنا وہ بھی ایسا جس کی دہشت سے امریکہ بھی کانپ رہا تھا ۔لیکن نام تو ایک جیسا ہو سکتا ہے لیکن انسان اپنے کام سے پہچانا جاتا ہے ۔ذوقی نے یہاں یہ بیان کرنے کی کوشش کی ہے کہ جس طرح ایک اسامہ دہشت گرد ہوسکتا ہے ٹھیک اسی طرح ہندوستان کے ۲۰ کروڑ مسلمان دہشت گرد نہیں ہو سکتے ۔اگر کچھ مسلمان ایسی کاروائیوں میں ملوث ہیں تو اس کے لئے تمام مسلمانوں کو قصوروار ٹھہراناکہاں درست ہے ۔ ملک میں کسی بھی جگہ دھماکہ ہوجائے تو پکڑا مسلمان جاتا ہے ۔اس صورت حال میں مسلمانوں نے جینے کی امید چھوڑ دی ہے ۔اور دوسرے درجے کے شہری بن کر رہ جاتے ہیں ۔ ناول کا دوسرا اہم کردار تھاپڑ ہے جو ارشد پاشا کا دوست ہے لیکن ناول کے آخری صفحات پر اس کردار کی سچائی سے پردہ اٹھتا ہے جس پر میڈیا بات نہیں کرتا اور یہ خبر سچ ہو کر بھی دبائی جاتی ہے— اس آزاد ہندوستان کے ہزاروں لوگ نکسل تحریک کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں ۔کشمیر کی آزادی اور دراندازی نے بھی سینکڑوں معصوم لوگوں کو موت کی نیند سلادیا گیایہ محض ایک خبر نہیں بلکہ یہ آئے دن ہو رہا ہے ۔ ہم کس سماج میں جی رہے ہیں جہاں انسان انسان کے خون کا پیاسا ہے۔جہاں عورت کو عورت نہیں سمجھا جاتاہے۔کیا مذہب اسی لئے ایجاد کیا گیا ہے ۔ یہ ایسے ہی کچھ سوالات ہیں جو ذوقی کی تحریروں میں نظر آتے ہیں ۔

ارشد پاشاکی داستان سن کرآنکھیں نم ہوجاتی ہیں ۔ناول کا جو موضوع ہے اس کی مماثلت سے انجام خوش آئند تو نہیں سکتا کیونکہ یہ محض ناول نہیں بلکہ ہمیں خواب سے جگانے کی کوشش ہے ۔ ذوقی کی تحریروں میں ایک کشش ہے ۔جب آپ پڑھنا شروع کریں گے تو تحریر آپ کو خود بخود پڑھوائے گی ۔ اور پڑھتے ہوئے آپ چونک جائیں گے ۔ ذوقی کو کہانی کہنے کا فن حاصل ہے ۔ناول میں دہشت گردی ،فر قہ و ارانہ تشدد،گروہی تصادم ،میڈیا کی جانبداری ،مسلمانوں کی صورت حال ، مذہبی انتہا پسندی ،اور اردوصحافت کو بے حد کامیابی سے پیش کیاگیا ہے ۔

ذوقی نے اس ناول میں ارشد پاشا کی مدد سے یہ بتایاہے کہ مسلمان کوئی جنگل میں زندگی گزارنے والی قوم نہیں بلکہ ہندوستان کا ایک اٹوٹ حصہ ہے ۔آزادی کے بعد سے ہی ان پر ظلم و ستم ہو رہے ہیں ۔ اور وہ کہتے آرہے ہیں اور آخر کب تک ایسی ہی بے بسی اور لاچارگی کی زندگی گزارتے رہیں گے ۔ کب آئے گی وہ صبح جب ہندوستان کے مسلمان خود کو صحیح معنوں میں آزاد اور با عزت شہری تصور کریں گے اور انہیں یہ خوف نہیں رہے گا کہ پولیس انہیں بغیر وجہ گرفتار کرے گی ۔ذوقی نے اس ناول میں ایک آواز اٹھائی ہے ظلم و جبر کے خلاف ۔انہوں نے اپنے ناولوں اور افسانوں میں حقیقت بیانی سے کام لیا ہے ۔حقائق کی ترجمانی کرنے میں انہیں ملکہ حاصل ہے۔ذوقی کا قلم اپنی ہر تخلیق کے ساتھ ایک نئی منزل کی طرف قدم بڑھاتا ہوا نظر آتا ہے ۔سماج ،معاشرہ ،تہذیبوں کا تصادم اور مسلمانوں کے مسائل کا جو مکالمہ ذوقی کے یہاں نظر آتا ہے وہ دور دور تک نظر نہیں آتا۔اس ناول میں ذوقی نے ہندوستانی مسلمانوں کا ذکربہترین انداز میں کیا ہے۔یہ ناول ہندوستانی مسلمانوں کی آپ بیتی ہے ۔

کہا جاتا ہے کہ ذوقی کے ناول اور افسانے محض فکشن نہیں ہوتے بلکہ ان میں حقیقت کی تیز بازگشت سنائی دیتی ہے ۔
سمیہ بشیر۔ریسیرچ اسکالر
مولانا آذاد نیشنل اردو یونیور سٹی حیدرآباد (آندھرا پردیش)

Mosharraf Alam Zauqui
About the Author: Mosharraf Alam Zauqui Read More Articles by Mosharraf Alam Zauqui: 20 Articles with 22541 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.