صدر مملکت کا سوئی ہوئی قوم سے خطاب

صدر مملکت کا سوئی ہوئی قوم سے خطاب کیونکر جبکہ رات ایک بجے قوم کی اکثریت سو رہی تھی (جسمانی طور پر وگرنہ ہماری قوم تو پتہ نہیں کب سے سو رہی ہے) مگر چلیں پھر بھی کہنے کو تو یہی کہا جائے گا نا کہ قوم سے خطاب کیا گیا۔

اچھا تو آج خبر ملی کہ خدا خدا کر کے صدر مملکت جناب آصف علی زرداری صاحب نے قوم کو بھی اس قابل سمجھا کہ کسی ایشو پر سیاسی شعبدے بازوں کو چھوڑ کر قوم سے بھی خطاب کیا جائے۔

اب جناب دوپہر سے فکر تھی کہ کب خطاب شروع ہوگا۔ پھر اطلاع آئی کہ شام کو ہوگا ساری شام اسی چکر میں برباد کردی اور پھر سونے کے قریب تھے کہ رات گیارہ بجے کے قریب اطلاع آئی کہ خطاب کی ریکارڈنگ ہو گئی ہے اور خطاب بس کسی ٹیکنیکل پرابلم کی وجہ سے رکا ہوا ہے اور کسی بھی وقت قوم سے خطاب نشر ہوگا۔ پھر اونگھتے جاگتے سوتے گرتے پڑتے رہے اور پھر خبر ملی کہ جناب رات ایک بجے قوم سے خطاب ہو گا۔ اب ہوا یہ کہ خطاب سنا تھا کہ بارہ جون کو ہوگا مگر ہوا وہ تیرہ جون کو کیونکہ رات بارہ بجے کے بعد تاریخ بدل جاتی ہے۔ بحرحال ہمارے صدر مملکت اور مثل مشہور ہی ہے کہ شیر چاہے انڈہ دے یا بچہ دے اس کی مرضی۔ چنانچہ مرتے کیا نا کرتے کے مصداق خطاب کو بارہ جون میں ہی سمجھ کر جم کر بیٹھ گئے اور قوم سے صدر مملکت کا خطاب سننے لگے اور اپنی اہمیت من الحیث القوم محسوس کر کے فخر و اطمینان محسوس ہو رہا تھا۔

عین اس دوران ہمارے ایک دوست جن کو ہماری کوئی خوشی ایک آنکھ نہیں بھاتی دریافت کرنے لگے کہ میاں ہمارے صدر مملکت یہ خطاب اپنی قوم سے براہ راست کیوں نہیں کر رہے، یہ تو ایسا لگ رہا ہے کہ صدر مملکت کی ریکارڈنگ ہم سے خطاب کر رہی ہے اور یقیناً صدر مملکت بھی قوم سے اپنے اس خطاب کو پوری قوم کے ساتھ خود بھی دیکھ رہے ہونگے۔ تو یہ خطاب تو کچھ شادی کی مووی جیسا ہو گیا کہ دولہا دلہن بھی باراتیوں کے ساتھ کچھ دنوں کے بعد دیکھتے ہیں۔

پھر ہمارے دوست اسی ایک آمر کا زکر کر بیٹھے کہ جن کے نام سے ہی جمہوری چیمپئین سیاستدانوں کو ناصرف چکر بلکہ شوگر اور بلڈ پریشر کی بھی شکایت پیدا ہو گئی ہے۔ ہمارے دوست دریافت کرنے لگے کہ گزشتہ دور کا ایک مشہور آمر تو بڑا ڈھیٹ تھا آمریت کی چھتری اور ڈنڈے کے زور پر آیا تھا اور پھر بھی قوم کی آنکھ میں آنکھیں ڈال کر اور گرج چمک کر خطاب کرتا تھا اور کشمیر کا اور ہندوستان کا اور ادھر ادھر سب جگہ کا بڑا زکر کرتا تھا۔

ہم نے ان کے ساتھ الجھنے سے بہتر سمجھا کہ خود ان کے منہ لگنے کی بجائے چائے کا کپ ان کے منہ لگا دیا جائے اور پھر ہم ہمہ تن گوش ہو کر صدر مملکت کا قوم سے خطاب سننے لگے۔ مگر یہ کیا اتنی دیر میں کہ ہمارے دوست کے فٹے منہ سے چائے کا کپ ہٹتا یعنی ان کی چائے ختم ہوتی ہمارے صدر کا قوم سے خطاب ختم ہو گیا اور انہوں نے سترہ کروڑ عوام کو صرف اس قابل سمجھا کہ ملک و قوم کو اپنے قیمتی وقت (بیرون ملک کے کئی کئی ہفتوں پر محیط دورے) میں سے صرف چھ منٹ اور اننچاس سیکنڈز عطا ہوئے۔ کہ جس دوران اگر کوئی سامع اپنے گھر کی کنڈی کھولنے گیا تھا خطاب شروع ہونے کے بعد واپس آیا تو خطاب ختم ہو چکا تھا۔

اور اس خطاب میں نا کوئی مسئلے مسائل نا انکے حل نا ان کے اسباب نا اپنے ٹھوس دلائل نا کوئی وجوہات نا کسی خاص دشمن پر شک و شبہ نا کسی دوست کے مشورے بس لالچ ہی لالچ دیا گیا اس خطاب میں۔ فوج کو اتنا دوں گا تنخواہیں بڑھا دونگا سرکاری ملازموں کے منہ میں پیسہ ٹھونس دوں گا ان کی تنخواہیں بڑھا دوں گا پے کمیشن بٹھا دیا ہے مال ملے گا سب چپ رہو اور بس عیش کرو۔ دوست جو سرکاری ملازم واقعی ہوا ہے ہنسنے لگا کہنے لگا ظاہر ہے جتنی امداد پاکستان کو کم و بیش ستر سال میں نہیں ملی اور آئندہ بھی سو سال میں شاید نا ملے وہ ان ڈیڑھ دو سال میں مل گئی۔ یعنی بقول شاعر ‘ اتنی ملی خیرات نا پوچھو‘۔ تو ظاہر ہے چند قطرے اس امداد کے تنخواداروں اور پولیس فوج کو ٹھنسا کر ان کے منہ بھی تو بند کرنے ہیں اور باقی رہے غریب و مجبور تو غربت کا خاتمہ اسی صورت میں اب تو نظر آتا ہے کہ نا غریب بچے اور نا غربت۔

اس سے پہلے کہ ہمارے دوست کے منہ سے اور باتیں نکلتیں ہم نے گھڑی کی طرف اشارہ کیا کہ بھیا کل کام پر بھی جانا ہے وہ پھر بھی جان چھوڑنے پر آمادہ نظر نہیں آرہے تھے کہ عین اسی وقت بجلی چلی گئی اور ظاہر ہے اس طرح ہماری جان بھی بچ گئی بس گڑبڑ یہ ہوگئی کہ لائٹ جانے سے پہلے وہ ہمارے چہرے پر موجود قریب واقع ہوئے صدر مملکت کے خطاب کے سائیڈ افیکٹ پڑھ چکے تھے جنہیں ہم ایسے ہی چھپا جاتے جیسے ہمارے صدر مملکت قوم سے حقائق چھپا گئے مگر بیڑہ غرق ہو بجلی والوں کا چند منٹ پہلے بجلی بند نہیں کر سکتے تھے کیا۔
M. Furqan Hanif
About the Author: M. Furqan Hanif Read More Articles by M. Furqan Hanif: 448 Articles with 504630 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.