ظلم تو پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے

آج بروز جمعہ لاہور میں علامہ سرفراز نعیمی شہید اور انکے ساتھیوں کی مسجد میں خودکش دھماکے کے نتیجہ میں ہونے والی شہادت اور نوشہرہ میں ایک مسجد میں خودکش دھماکے سے ہونے والی شہادتوں پر کیا کہیں۔

ایم کیو ایم کے قائد نے جو کہ ملک سے باہر بیٹھے ملکی سیاست میں اہم کردار ادا کرتے ہیں انہوں نے سب سے پہلے الیکڑانک میڈیا پر علامہ سرفراز نعیمی اور انکے ساتھیوں کی شہادت پر اظہار افسوس کیا اور پورے ملک کے عوام سے اپیل کی کہ وہ یوم سوگ مناتے ہوئے اپنے کاروبار و دکانیں بند رکھیں۔ جس کے بعد دوسرے مکاتب فکر، سیاسی و مذہبی تنظیموں نے بھی سوگ کا اعلان کیا اور حکومت پنجاب سے لاہور میں سرفراز نعیمی شہید کے شہادت کے ذمہ داروں کی گرفتاری اور ان کو سزا دلوانے اور حکومت پنجاب سے عام تعطیل کے مطالبے کے لیے مظاہرہ کیا تھا اور جب تک عام تعطیل کا اعلان نہیں کیا جاتا اس مظاہرہ کو ختم نا کرنے کا عزم کر رکھا تھا جس پر حکومت پنجاب نے لاہور میں کل بروز ہفتہ تیرہ جون کو عام تعطیل کا اعلان کر دیا۔

جناب الطاف حسین نے جس طرح قوم سے براہ راست الیکٹرانک میڈیا سے خطاب کیا اور ہزاروں میل دور بیٹھے ہونے کے باجود جس پرعزم اور جس دکھ درد کے ساتھ الطاف حسین نے کہا کہ ان واقعات سے نمٹنا صرف فوج یا پولیس یا قانون نافذ کرنے والوں کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ اس پر پوری ملک میں قوم کو ظالموں و شدت پسندوں کے خلاف اٹھھ کھڑا ہونا چاہیے۔ تاکہ ظالموں اور شدت پسند نام نہاد شریعت نافذ کرنے کے چکر میں ملک و قوم و مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے والے شیطان نما طالبان اور ان کے حمایتوں کو پتہ چل جائے کہ عوام نا انکے ساتھ پہلے کبھی تھی اور نا اب ہے۔

سوچنے والی بات یہ ہے کہ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ ایسے واقعات کے بعد روایتی بیانات اور افسوس و مذمت کے بیانات چلوا دیے جاتے ہیں تاکہ پتہ چل جائے کہ ق ن م ل ٹائپ کی جماعتیں بھی سیاست میں سرگرم ہیں اور عوام انکے نام نا بھول جائیں مگر جب کوئی خطاب یا قوم سے بات کرنے کا وقت آتا ہے تو آنکھوں پر چشمے لگا کر اور کسی پے رول پر لگے بندھے دانشور کی لکھی ہوئی تقریر پڑھ دی جاتی ہے جو زبان حال سے اپنی حقیقت بیان کر رہی ہوتی ہے کہ لکھا کسی اور نے ہے اور پڑھ کوئی اور رہا ہے۔

اور سٹیریو ٹائپ سیاستدان و دانشور فوراً طوطے کی طرح رٹا رٹایا پڑھنا شروع کر دیتے ہیں کہ قانون نافذ کرنے والے اور پولیس اور فوج کی ذمہ داری یہ ہے اور وہ ہے۔ ارے بد عقلوں جب دشمن طاقت ور ہو اور بیرونی امداد بھی اس کے ساتھ ہو اور اسلحے اور منشیات کا پیسہ بھی اس کے ساتھ ہو اور وہ دشمن اتنا طاقتور ہو کہ عوام کو تو چھوڑیے خود قانون نافذ کرنے والے اس سے اس قدر خوفزدہ ہوں کہ رپورٹ درج کرانے آنے والے شہریوں کو پولیس کے سہمے ڈرے اہلکار دہشت گرد سمجھ کر گولیوں سے بھون ڈالتے ہوں اور جب قانون نافذ کرنے والوں کے تربیتی کیمپس، ان کے آفسز اور ریسکیو ون فائیو جیسے دفاتر اڑا دیے گئے ہوں تو جب قانون نافذ کرنے اور امن و امان کے ذمہ دار جب اپنی حفاظت نہیں کر پارہے تو کیا قوم سے یہ کہنے کی لاجک رہ جاتی ہے کہ قانون نافذ کرنے والے یہ کریں اور وہ کریں۔ ارے عقلمندوں اور دانشوروں جب قانون نافذ کرنے والوں کو اتنا ذمہ دار پہلے ہی سمجھتے تھے اور ہو تو پھر اپنے محلوں اور قلعوں کو کیوں محفوظ بناتے اور اس کے لیے مضبوط قفلوں اور تالوں کا اہتمام کرتے ہو کیا یہ منافقت نہیں کہ ایک طرف تو قانون نافذ کرنے والوں پر ذمہ داری ڈال دو اور اپنے طور پر اپنے گھر کی حفاظت کا بھی معقول انتظام رکھو۔ اگر ایسا اپنے گھر کے لیے کرتے ہو تو اپنے ملک کو بھی اپنا گھر سمجھو اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ ساتھ اپنے طور پر بھی اپنے ملک کی سلامتی اور اس کی حفاظت کا بندوبست کرو۔ ہر بات میں ذمہ داری اپنے اوپر سے ہٹا کر کسی ایک پر ذمہ داری ڈال دینا دراصل غیر ذمہ دار ہونے کا ثبوت ہے۔

آج کے واقعہ کے بعد ایک بڑے مفتی صاحب ٹی وی پر فرماتے پائے گئے کہ حکومت کو چاہیے کہ علما کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرے اور ان سے مذاکرات کرے تاکہ ایسے واقعات نا ہونے پائے۔ ارے مفتی صاحب کچھ تو خدا کا خوف کرو آپ کو اب بھی ایسا لگتا ہے کہ یہ خودکش دھماکے اور یہ قتل و غارت گری علما کے درمیان ہونے والے اختلافات کا نتیجہ ہے پتہ نہیں اتنے جید مفتی ایسی باتیں کیسے سوچ لیتے ہیں۔ اور کیا ایسا فی الواقعہ محسوس ہوتا ہے ( معذرت کے ساتھ ) کہ علما کرام تمام مکاتب فکر کے اپنے عقائد اور اپنے نظریات پر سمجھوتا کرسکتے ہیں (آپ کو لگے تو لگے مگر مجھے تو ایسا نہیں لگتا اور یہ فروعی مسائل اور یہ اختلافات تو قیامت تک جاری رہتے نظر آتے ہیں)۔

سوچنے والی ایک بات اور پیش خدمت ہے۔ آپ کو کیا لگتا ہے کہ برین واش کرنے والے کس طرح ایک شخص کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہوتے ہونگے کہ وہ خودکش حملہ آور اپنے آپ کو راہ حق پر محسوس کرتا اور یقین کر لیتا ہے کہ دھماکے کے بعد وہ (خودکش حملہ آور) تو جنت میں جائے گا اور اللہ کے گھر میں خالص اللہ کی عبادت کرنے والے دوزخ میں جائیں گے۔ خدا کی قسم جہالت کی بدترین مثال اس شخص سے بڑھ کر نہیں ہو سکتی جو خود کش حملہ آور بن کر اللہ کے آگے سجدہ کرنے والوں کو شہید کر کے بھی اپنے آپ کو حق پر سمجھتا ہو۔

اللہ اکبر اے اللہ ہم بہت گناہ گار اور سیاہ کار ہیں ہم سب کو ہدایت کاملہ و عاجلہ عطا فرما۔ آمین
M. Furqan Hanif
About the Author: M. Furqan Hanif Read More Articles by M. Furqan Hanif: 448 Articles with 498873 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.