ہماری قوم عطیات دینے میں دنیا
کے دس ممالک میں سے ایک ہے اس قوم نے جنگوں،ناگہانی آفتوں میں جس طرح مصیبت
زدہ لوگوں کی مدد کرکے تاریخ رقم کی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے لیکن اس کے
باوجود لگتا یہی ہے کہ ہماری ساری قوم غیروں کی امداد کے سہارے چل رہی ہے
اور ہم بھیک مانگنے والی قوم ہیں مسئلہ صرف نظم و ضبط کا ہے ۔ نیکی اور
بھلائی کے کام کرنے والوں کی راہ میں طرح طرح کی رکاوٹیں اور روڑے اٹکائے
جاتے ہیں۔ گزشتہ دنوں کراچی میں مستحق اور غریب لوگوں میں راشن کی سپلائی
ہو رہی تھی جس میں بھگدڑ کے نتیجے میں دو خواتین کی موت ہوگئی گزشتہ سال
راشن کی سپلائی کے دوران بھگدڑ میں اٹھارہ خواتین و حضرات موت کی بھینٹ
چڑھے جن کے مقدمات راشن سپلائی کرنے والوں کے خلاف ہوئے میں ان کو سلام پیش
کرتا ہوں کہ ایک تو وہ ریاست کی ذمہ داری نبھا رہے ہیں حالانکہ بھوکوں کو
کھانا فراہم کرنا اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے اس کے باوجود آفرین ہے کہ ان
کے خلاف مقدمات قائم ہونے کے باوجود غربا میں راشن سپلائی کا سلسلہ جاری
رکھے ہوئے ہیں اب ذرا غور کیا جائے کہ کیا اموات کے ذمہ دار وہ ہیں یا
ریاست جو کہیں اچھا کام ہو رہا ہو تو وہاں امن و امان اور نظم و ضبط پر عمل
نہیں کرواسکتی۔ہمارے ملک میں مخیر حضرات کی کوئی کمی نہیں ہے اس میں بحریہ
ٹاون کے سابق چیرمین ریاض ملک بھی کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں انہوں نے
بھی قابل فخربحریہ دستر خوان اور دیگر رفاحی کام انجام دئیے ہیں اس طرح کے
لوگ ہمارے وطن کے ہیرو ہونا چاہیے،میرے اپنے شہر میں میاں اقبال مرحوم نے
فری ڈسپنسری قائم کی تھی جو اب ان کے بیٹے میاں اشفاق اور میاں شفیق کی
سرپرستی میں گزشتہ کئی سالوں سے غریب اور مستحق لوگوں کو صحت کی سہولتیں
مفت فراہم کر رہی ہے اور ہر رمضان المبارک میں ہزاروں مستحق خاندانوں میں
راشن سپلائی کر رہی ہے بعض اوقات سپلائی کرنے والے پوائنٹ پر اتنا رش بڑھ
جاتا ہے کہ سپلائی کا سلسلہ روکنا پڑتا ہے اور عوام کے احساسات ملاحظہ ہوں
کہ وہ احتجاج کرنے پریس کلب پہنچ جاتے ہیں کہ ہمیں مفت راشن نہیں دیا جارہا۔
شیخ عابد محمود بھی اس نیک کام میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں پورے ماہ کے لئے
رمضان دستر خوان سجا رکھا ہے جس میں بلا امتیاز غریب اور سفید پوش افراد
افطاری کرتے ہیں جبکہ مستحق خاندانوں میں عیدالفطر اور رمضان المبارک کے
اخراجات کے لئے نقدی بھی دے رہے ہیں میں تو اس طرح کے عظیم لوگوں کے لئے
دعا گوہ ہوں کہ اﷲ تعالیٰ ان کے کاروبار اور دیگر معاملات میں برکتیں نصیب
فرمائے اور اجر عظیم سے نوازے اس طرح کے مخیر حضرات کی تعداد ملک میں
ہزاروں ہے لیکن ان کو نیکی کے معاملات کو چلانے میں جو رکاوٹیں درپیش ہیں
ان کا اندازہ وہی کرسکتے ہیں جگہ جگہ ان کے حوصلے پست کرنے کے انتظامات
موجودہیں ۔حکومت وقت اگر خود یہ کام نہیں کرسکتی تو کم از کم جو مخیر حضرات
عوام کی فلاح و بہبود اور ان کی مشکلات زندگی کم کرنے میں اپنا رول ادا کر
رہے ہیں ان کے لئے آسانیاں تو پیدا کرسکتی ہے تاکہ وہ پہلے سے بھی زیادہ
خدا کی مخلوق کی خدمت کرسکیں ہمارا سب سے بڑا مسئلہ قیادت کا فقدان ہے اچھے
لیڈر ہی قوموں کی سمت کا متعین کرتے ہیں بدقسمتی سے اگر کوئی لیڈر پیدا ہوا
تو اس کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لئے بیرونی طاقتوں کے ساتھ ہمارے اپنوں نے
بھی پورا ساتھ دیا ۔امریکہ اور یورپ کے تھنک ٹینک چوبیس گھنٹے اپنے ملک و
قوم کی بھلائی کے لئے کا م میں لگے رہتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں ایسا کوئی تصور
نہیں ہے انہوں نے بہت پہلے ہی پاکستانی قوم کے بارے میں فیصلہ کر لیا تھا
کہ اگر یہ قوم خوشحال ہوگئی تو پوری دنیا پر حکمرانی کر سکتی ہے اس لئے
انہوں نے انہیں فرقہ واریت سمیت دیگر ٹکڑوں میں تقسیم کرنے پر کام کیا اور
وہ اس میں کامیاب بھی رہے۔ اﷲ تعالیٰ نے اس ملک میں دنیا جہان کے وسائل جمع
کر رکھے ہیں ان کو استعمال میں لانے سے روکنے کے لئے بیرونی قوتوں کے ساتھ
ساتھ ہمارے بہت سے سیاسی لیڈروں،سرداروں ،جاگیر داروں نے اپنا اپنا کردار
اداکیا تاکہ ان وسائل کو بروئے کار لاکر قوم خوشحال نہ ہوسکے جس کی مثال
کالا باغ ڈیم،بلوچستان میں چھپے ہوئے ذخائرسمیت دیگر شامل ہیں۔اس قوم کو
صرف ایک لیڈر کی ضرورت ہے جو ان کے لئے سمت کا تعین کردے تو اﷲ کے فضل و
کرم سے تھوڑے عرصے میں اس کو دنیا کو لیڈ کرنے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔خدا
کی قسم ہمارے سارے مسائل صرف چھ ماہ میں حل ہوسکتے ہیں شرظ صرف یہی ہے کہ
قوم اپنے لیڈر کی پہچان کرلے بار بار آزمائے ہوئے لیڈروں سے جان چھڑا لے۔اس
قوم میں جتنی صلاحیتیں ہے دنیا کی کوئی قوم اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔۔ |