عصر حاضر میں دہشت گردی کے ساتھ
اقوام عالم کے مابین جنگ اور لڑائیاں ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکی
ہیں۔ظلم و مظلومیت کے پیمانے بھی اب وہ نہیں رہے جو اپنے معیار و مطلوب کے
لحاظ سے کسی زمانے میں ہوا کرتے تھے۔ چھپ کر مارنے والے جب بھی اور جسے بھی
مارتے ہیں ،وہ دراصل اُن کے قصوروں کو فرض کرکے مارتے ہیں اور پھر اِن کے
بدلے کی باری آتی ہے تو بدلہ لینے والوں کو بھی ہمیشہ یہ تذبذبConfusion
لاحق رہتا ہے کہ وہ اپنے دشمنوں کو مار رہے ہیں یا معصوموں کو۔اِنسانی جان
کی قدرو قیمت اِس طرح گر جائے گی، شاید ماضی کے اقوام نے کبھی سوچا بھی
نہیں ہوگا۔کھلے شہروں پر بم برسانے والی نام نہاد مہذب قومیں آج بھی یہ بات
طے نہیں کر پائی ہیں کہ جنگ کن اُصولوں کے تحت لڑی جانی چاہئے !
رمضان کا مہینہ جب بھی آتا ہے ،برکتوں اور رحمتوں کی سوغات لے کے آتا ہے۔
ایک طرف نہ صرف، روزہ ، زکوٰۃ ، نمازِ تراویح، حصولِ تقویٰ،شب گزاری،طاق
راتیں، شبِ قدر،خیر خیرات، صدقہ و فطرے کی یاد تازہ کرجاتا ہے، بلکہ ساتھ
ہی وہ اُن جنگوں کواور جنگوں کے اُن اُصولوں کو بھی، جن کے تحت جنگیں لڑی
جانی چاہئیں، ہمارے ذہنوں میں تازہ کر جاتا ہے ۔ خصوصاً وہ جنگیں جو ماہ ِ
رمضان میں برپا ہوئیں، خصوصاً جنگ بدروغیرہ۔چنانچہ سطحِ زمین پر مختلف
علاقوں میں اِس وقت مسلمان اپنے حقوق کی جو لڑائیاں لڑ رہے ہیں،اُن کے لیے
ضروری ہے کہ وہ اِن کا مذکورہ خطوط پر محاسبہ کریں،کہ کیا اِنہیں جہاد یا
قتال کہنا ازروئے قرآن و سنت درست بھی ہے یا نہیں۔! قرآن جسے جہاد یا قتال
کہتا ہے، کیا آج کی مسلم جنگی مصروفیات قرآن کے پیش کردہ اِن معیارات پر
پوری طرح اُترتی بھی ہیں یا یہ محض مسلمانوں کے مذہبی جذبات سے کھیلنے کی
ایک مذموم کوشش ہے؟
رمضان کے مہینے میں اور خصوصاً ، جنگ بدر کی یادوں کے درمیان ہم کوشش کر
رہے ہیں کہ اِس موضوع پر سیر حاصل گفتگو کی جائے: سورہ البقرہ(۲)میں یہ آیت
ملتی ہے……: إِنَّ الَّذِیْنَ آمَنُوْا وَالَّذِیْنَ ہَاجَرُوْا
وَجَاہَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ أُوْلٰـئِکَ یَرْجُوْنَ رَحْمَتَ
اللّٰہِ وَاللّٰہُ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ……’’جو لوگ ایمان لائے اور اﷲ تعالیٰ
کے لیے (اپنا) وطن چھوڑ ا اور ( اہل کفر کے ساتھ جواباً )برسرِجہادفی سبیل
اﷲ رہے، وہی لوگ اﷲ کی رحمت کے امیدوار ہیں اور اﷲ، غفور اور رحیم ہے۔‘‘(۲۱۸)۔
غور کیا جائے توجہاد کا پوراکا پورا عمل ایک Process ہے اور اپنے سیاق
وسباق میں ایک تسلسل رکھتا ہے، جیسا کہ اِس آیت میں نظر آتا ہے۔یعنی دعوت
حق پیش کی جائے، پھر مدعوئین کا بیشتر حصہ اِس کا انکار کرے پھر اہلِ کفر
کی جانب سے ،اہلِ حق کی مخالفتوں کا پرتشدد آغاز ہو،پھراہلِ ایمان اپنے وطن
سے ہجرت پر مجبور ہو جائیں اور اپنے لیے جائے قرار تلاش کرلیں،پھراِن پر
اہلِ کفر حملہ آور ہوں تو جواباً اپنے دفاع میں اہلِ ایمان ہتھیار
اُٹھالیں۔یہی وہ مقام ہوتا ہے جہاں از روئے قرآن ’’قتال اورجہاد‘‘ کے
احکامات لاگو ہوتے ہیں۔ اِس تسلسل یا Sequenceمیں اگرکسی جنگ کو نہیں دیکھا
گیا تو ایسی جنگ ، جنگ ہی رہے گی، ’’جہاد یا قتال‘‘ ہر گز نہیں بن سکے
گی۔اگر اِس پورے عمل Processکو نظر انداز نہیں کیا جاتا ہے تو اِس کی تقدیم
و تاخیرکا کوئی سوال ہی نہیں اُٹھتا ۔جہاد و قتال کی یہ تمام شرائط ، جو
آئندہ پیریگرافس میں تفصیل کے ساتھ بیان کی جائیں گی، اِسی تسلسل کا حصہ
ہیں اور یہ شرائط جس وقت پوری ہوجاتی ہیں، قتال کی اِجازت خود بخود
لاگوInvoke ہوجاتی ہے، کسی تقدیم یا تاخیر کے بغیر،تاآں کہ یہ شرائط تکمیل
کے مراحل طے کرتے ہوئے اپنی منزل پر پہنچ جائیں۔ قرآن شریف میں جس جس مقام
پر جہاد وقتال کے احکامات آئے ہیں ، ان میں یہی ترتیب ہمیں ملے گی اور ان
شرائط میں ایک اور شرط شامل ہو جائے گی جسے سورۂ التوبہ(۹)کی آیت ۲۰ میں
بیان کیا گیا ہے : اَ لَّذِیْںَ اٰمَنُوْا وَ الَّذِیْنَ ھَاجَرُوْا وَ
جَاھَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِاَمْوَالِھِمْ وَ اَنْفُسِھِمْ.......
’’جو لوگ ایمان لائے،اورانہیں ا پنے ایمان کی خاطر ہجرت کرنی پڑی، اور(اہل
کفر کے حملے کے جواب میں)انہیں اپنی جان ومال سے اﷲ کی راہ میں جہاد
کرناپڑا.....‘‘ (۲۰) ۔ یہ صرف قرآن شریف کا ہی اعجاز ہے کہ وہ انتہائی
مختصر الفاظ میں اپنی بات کو مکمل طور سے پیش کردیتا ہے۔یہ آیت صاف طور پر
کہتی ہے کہ جہاد وقتال میں انسان کو اپنی جان اور مال دونوں لگانے ہوتے ہیں۔
اگر کوئی صرف اپنامال لگاتا ہے اور اپنی جان کو محفوظ رکھنا چاہتا ہے،نیز
جہاد وقتال کے نام پرنوجوانوں کے قلب و ذہن میں جوش بھرتا ہے اور ان کی
جانوں سے کھلواڑ کرتا ہے تو اُسے سمجھ لینا چاہیے کہ وہ اﷲ کی آیتوں کے
ساتھ مذاق کا مرتکب ہے ، جس کا بھگتان اُسے اﷲ کے ہاں ضرور کرنا ہوگا۔
سورہ ٔ نساء(۴) میں اِرشادِ باری تعالےٰ ہے……أَلَمْ تَرَ إِلَی الَّذِیْنَ
قِیْلَ لَہُمْ کُفُّوْا أَ یْدِیَکُمْ وَأَقِیْمُوْا الصَّلٰوۃَ وَآتُوا
الزَّکٰوۃَ فَلَمَّا کُتِبَ عَلَیْہِمُ الْقِتَالُ إِذَا فَرِیْقٌ مِّنْہُمْ
یَخْشَوْنَ النَّاسَ کَخَشْیَۃِ اللّٰہِ أَوْ أَشَدَّ خَشْیَۃً وَقَالُواْ
رَبَّنَا لِمَ کَتَبْتَ عَلَیْنَا الْقِتَالَ لَوْلا أَخَّرْتَنَا إِلَی
أَجَلٍ قَرِیْبٍ قُلْ مَتَاعُ الدَّنْیَا قَلِیْلٌ وَالآخِرَۃُ خَیْرٌ
لِّمَنِ اتَّقَی وَلاَ تُظْلَمُونَ فَتِیْلاً……’’ کیا تم نے اُن لوگوں کا
حال نہیں دیکھا جن کو (پہلے یہ) حکم دیا گیا تھا کہ اپنے ہاتھوں کو (جنگ سے)
روکے رکھو اور نمازقائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرتے رہو، پھر جب اُن پر جہاد
فرض کر دیا گیا تواِن میں سے بعض لوگ ،لوگوں سے یوں ڈرنے لگے، جیسے اﷲ
تعالیٰ سے ڈرا جاتا ہے، بلکہ اس سے بھی زیادہ، اور بڑبڑانے لگے کہ اے اﷲ!
تو نے ہم پر جہاد (اِس قدر جلد) کیوں فرض کر دیا، تھوڑی مدت اور مہلت ہمیں
کیوں نہیں دی؟ (اے پیغمبر صلی اﷲ علیہ و سلم ان سے) کہہ د و کہ متاعِ دنیا
بہت ہی قلیل ہوتی ہے اورآخرت صاحبینِ تقویٰ کے لئے(خیر ہی) خیر ہے، اور(یاد
رہے کہ) تم پر دھاگے برابر بھی ظلم نہیں کیا جائے گا۔ ‘‘(۷۷)۔
اِس آیت میں سب سے پہلے جس عمل کی حکماً تاکید کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ’’اپنے
ہاتھوں کو (جنگ سے) روکے رکھو۔‘‘جو قومیں اِس عمل کو پہلے ہی مرحلے میں
فراموش کرکے جنگ کی طرف لپکنا چاہتی ہیں وہ صریح طور پر حکمِ خداوندی سے رو
گردانی کی مجرم بن جاتی ہیں۔ظاہر ہے جب پہلا عمل ہی پورا نہ ہوا ہو، جس میں
صرف یک طرفہ صبر کا پیغام ملتا ہو،اور جس میں اقامتِ صلوٰۃ اور ادائیگی ٔ
زکوٰۃ بھی شامل ہے، تو ابھی قتال فرض کہاں ہوا! پھر تاخیر اورتعجیل کا سوال
ہی کہاں اٹھتا ہے! یہاں ایک بات نوٹ کئے جانے کے قابل ہے کہ جواب دینے کی
طاقت ہو یا نہ ہو، اپنے ہاتھوں کو روکے رکھنا ہر مومن کا پہلا فرض بنتا ہے۔
یعنی یک طرفہ صبر کی عادت ڈالی جائے ۔ کمزور کے بجائے جب کوئی طاقتورظلم پر
صبر کرتا ہے تو یہ ایک دو دھاری تلوار بن جاتی ہے۔ اِس صورتحال میں اب
ڈائرکٹ اﷲ تعالیٰ کا رول شروع ہوجاتا ہے اور اعلان ہوتا ہے کہ’’ وہ ہمیشہ
صابرین کے ساتھ ہے‘‘۔اﷲ ساتھ ہو تو بہر حال فتح و نصرت صابرین ہی کے ہاتھ
آئے گی،دیر سویر دُشمن کے دل مفتوح ہوں گے اور ظلم کے سلسلے خود بخود بند
ہو جائیں گے اور ایسے ہی صابرین کے لیے اﷲ نے استعینوا بالصبر والصلوۃ کی
تاکید بھی کی ہے اور اپنی مدد کی بشارت بھی دی ہے۔جس فرد، قوم یا جماعت
کواس طرح کے اِلٰہی وعدوں پر بھروسہ نہیں وہ اپنے ایمان کی خیر منائیں،اِن
کے لئے اﷲ کی مدد آنا تو درکنار،اِس طرزِ عمل پر اﷲ کی ناراضی اورخسران
مبین ان کے ہاتھ آئے گا۔
قرآن شریف میں کہیں بھی یہ حکم نہیں ملتا کہ طاقت ہو یا نہ ہو،بس اپنے’’
فریق‘‘ سے ٹکرایا جائے ، اِس ٹکراؤ کو اﷲ کے نام پر یا ’’دین کو پھیلانے‘‘
کے نام پر انجام د یا جائے اور اِس میں جان بھی دینا پڑے تو اِس سے گریز نہ
کیا جائے۔خدا نخواستہ اگر زمین کے کسی حصے میں اہلِ ایمان کے لیے حالات
مخدوش ہوجائیں اورظالمانہ ماحول میں ہجرت کے مواقع بھی باقی نہ رہیں تو،شہر
کے امن کو غارت کرنے کے لیے دینی جواز پیدا کرنے کے بجائے، اچھا تو یہی ہے
کہ ایسے افراد ایک پر امن شہری کی طرح، شہر کے کسی قریبی غار میں جاکر سو
جائیں،جیسا کہ اصحابِ کہف نے کیا تھا اور اپنی فکر کریں، رہی اﷲ کے دین کو
پھیلانے کی فکر تو اِس کے لیے اﷲ کافی ہے۔
ایک بار ایسا ہوا کہ حضرت موسیٰ ؑ کے انتقا ل کے بعد بنی اسرائیل پر جہاد
کا شوق غالب آیا۔ اپنے دور کے نبی ؑ سے فرمائش کی کہ اُن کے جہاد کا شوق
پورا کیا جائے ۔نبی ؑ نے اِن سے کہا کہ، سوچ لو، اگر اﷲ کی جانب سے جہاد
فرض ہو ہی جائے توکہیں آنجناب کی صحت نہ بگڑ جائے۔ کہنے لگے کہ’’ہمیں کیا
ہوا ہے کہ ہم جہاد سے گریز کریں، جبکہ اﷲ کی خاطر ہی تو ہم نے اپنے گھر
بار، خویش اقارب کو چھوڑا اور ہجرت کی؟پھر جب اﷲ نے جہاد کا حکم نازل
فرمایا اور اﷲ کی طرف سے کمانڈر انچیف مقرر کیا گیا تو یہی حضرات ان
سارےIssuesکو لے کر طرح طرح کے اعتراضات کرنے لگے۔ کمانڈر کے دل میں اﷲ نے
ایک بات ودیعت فرمائی کہ ان خود ساختہ مجاہدین کا کوئی چھوٹا موٹا امتحان
لے لیا جائے۔ ایک نہر سے سیر ہوکرپانی پینے پر پابندی لگی تو یہی سورما بے
صبرے ہوگئے اور اِس پابندی پر قائم رہنے سے صاف اِنکار کر دیا۔کمانڈر نے
کہا کہ تم ایک چھوٹے سے حکم کی تعمیل نہ کرسکے،حالانکہ تم بلند بانگ دعوؤں
کے ساتھ آگے بڑھے تھے،اب تمہارا حال کیا ہے؟ تم تو خود ہی فوج کے لئے بوجھ
ثابت ہورہے ہو……بحوالہ سورۃ البقرۃ (۲) …… آیات
(۲۴۶تا۲۴۹)۔
اصل میں یہ پرامن حالات میں جینے والے کچھ غیر برد بار قسم کے لوگ ہوتے ہیں
، جن میں وقفے وقفے سے امن و امان کی قیمت پرجہاد کی بے بنیاد خواہش جاگتی
رہتی ہے،ورنہ اِنہیں جماہیاں آنے لگتی ہیں ، جیسا کہ کسی شاعر نے کیا خوب
کہا ہیـ:
خدا کا شکر کہ محفل میں ذکرِ دار چھڑا
ہمیں تو آنے لگی تھیں جماہیاں لوگو
اور جب واقعتاً جہاد کا وقت آجاتا ہے توایسے بزدل لوگ پوری ملت پربوجھ بن
جاتے ہیں، جیسا کہ آج بنے ہوئے ہیں ۔جہاد کے نام پر اِن کی اُلٹی سیدھی
حکمتِ عملی نے ساری مسلم دُنیا کے کندھوں پر ایک ایسا بوجھ لاد دیا ہے ،جو
نہ ڈھویا جاتا ہے ،نہ اُتارے اُترتا ہے۔شاید یہی سبب ہے کہ رب تعالےٰ نے
قرآن شریف میں اپنے فریق سے خواہ مخواہ ٹکڑانے کا حکم کہیں نہیں دیا۔چاہے
فریق طاقتور ہو کہ کمزور۔اہل ایمان کو صرف اور صرف داعی بنے رہنا ہے۔جہاد
کے سلسلے میں اﷲ کے اِن احکامات میں کبھی تبدیلی نہیں ہو سکتی، چاہے وہ
حضرت نوحؑ کا دور ہو یا حضرت ابراہیم ؑکا ، حضرت موسیٰ ؑکا دور ہو یا
حضرتعیسیٰ ؑکا، جن کا خلاصہ یہ ہے کہ کتاب اﷲ کی دعوت کا کام شروع کیا
جائے، پھر اِس سے لوگ کفر کریں، اور ظلم ڈھانے لگ جائیں ، تو اہلِ ایمان
ایک مامون جگہ کی سمت ہجرت کر جائیں، اور دعوت کا کام جاری رکھیں ، پھر اگر
اِس کے باوجود ان پرحملہ ہوتا ہے تو، اپنے دفاع میں انہیں ہتھیار اٹھانے کی
اجازت ہے۔یہ ہے کتاب اﷲ کے پیغام کا لب لباب جہاد کے سلسلے میں۔ہاں،
اگربدنصیب لوگ کتاب اﷲ سے شعوری یا غیر شعوری طور پر پیچھا ہی چھڑانے پر
تلے ہوئے ہیں اور اپنے خود ساختہ فلسفۂ جہاد و قتال کو لے کرکشت و خون کے
بازار کے انڈکس کو نیچے نہیں گرانا چاہتے ہیں تو اُن کی بلا سے۔وہ خود ہی
اپنی بربادی کے ذمہ دار ہوں گے۔ کامیابی تو صرف اﷲ کے قانون میں مضمر ہے،
قتال یا جہاد کیلئے ہمارے یہاں ایک لفظ اور بھی مستعمل ہوتا رہتاہے جوگمراہ
کن ہی نہیں، تباہ کن بھی ہے اور وہ لفظ ہے……’’ لڑائی‘‘۔مجرْد لفظ’’ لڑائی
‘‘سے یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ’’ لڑائی ‘‘ کا اصل مفہوم کیا ہوتا
ہے؟مثلاً، دو آدمی اُلجھ پڑتے ہیں تواِسے بھی لڑائی کہا جاتا ہے۔ دو ملکوں
کی سرحدی جنگ بھی’’ لڑائی‘‘ کہلاتی ہے۔ دو فرقوں کے فسادکو بھی ’’لڑائی‘‘
کا نام دیا جاتا ہے۔اِس کا سبب یہ ہے کہ یہ لفظ اِلٰہی زبا ن کا لفظ نہیں
ہے، بلکہ یہ اِنسانی زبان کا لفظ ہے۔اِلٰہی زبان ’’عربی‘‘ زبان ہی کا یہ
اعجاز ہے کہ وہ کسی شئے یا فرد کی ہر کیفیت کے لیے علاحدہ علاحدہ الفاظ
ہمیں عنایت کرتا ہے۔ مثلاً،قرآن شریف ہمیں دو انسانوں، دو خاندانوں، دو
گروپس، دو طبقات اوردو ممالک کے کسی خلفشار یا کشت وخون کے لئے الگ الگ
الفاظ جیسے (شجر…… تنازع……حاج……جدل…… خصم …… تشاکس …… انتصر…… عاقب…… فسد
…… حرب …… قتال۔ ) سے روشناس کراتا ہے اورہرلفظ اپنی اپنی جگہ ٹھوس معنی
رکھتا ہے۔ ہمارا حال یہ ہے کہ ہم جیسے غیر ذمہ دار لوگ ہر طرح کی چپقلش کو
ایک ہی نام دیتے رہتے ہیں اور فر د ہو کہ اقوام، باہمی اُلجھنوں کی نوعیت
کو سمجھتے بھی نہیں ، نہ اِنہیں حل کر پاتے ہیں اور خود پر راہیں آسان کر
لیتے ہیں۔ الفاظ کے اِنتخاب کی اِس نزاکت کو سمجھنا ضروری ہے ۔لیکن ہمارا
حال یہ ہے کہ صرف ایک آیت کو لے کر Full fledgedتحریکیں چلاتے ہیں اور اِن
پرصدیاں کھپا دیتے ہیں۔کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی دوسری آیت سے پہلی آیت
کومعطل Nullify کردیتے ہیں، کسی آیت کو منسوخ ہی بتا دیتے ہیں، کسی سورۃ کو
سمجھنے کے لیے شان نزول کے ساتھ جوڑ لیتے ہیں،یا کسی روایت کے تابع ہو کر
آیاتِ اِلٰہی کی آفاقیت کو محدود کر لیتے ہیں۔’’قتال اور جہاد‘‘ کے دو
الفاظ کو لے لیجیے،یہ دونوں الگ الگ الفاظ ہیں۔ دونوں کا مادہ بھی الگ ہے
اور معنی بھی الگ ہیں۔ لیکن مسلمانوں نے اِن دونوں الفاظ کا اس کثرت سے
استعمال بلکہ استحصال کیا ہے، کہ ہمیں بھی بعض اوقات مجبوراً ایک ساتھ
دونوں الفاظ کو ایک ہی معنیٰ میں استعمال کرنے کا جوکھم اُٹھانا پڑتا
ہے۔لیکن یہ حقیقت نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ قتال ہوکہ جہاد…… اِن کا
واحد ایجنڈاصرف ’’فی سبیل اﷲ‘‘ ہے۔قتال یا جہاد جب بھی برپا ہوگا ’’فی سبیل
اﷲ‘‘ کے ہی عنوان سے برپا ہوگا۔ قتال اور جہاد کے ساتھ جب بھی وطن، زمین کے
ٹکڑے،حقوق، ظلم یا کسی اور غرض کو نتھی کیا جائے گاوہ جہاد یا قتال فی سبیل
اﷲ نہیں کہلائے گا۔اِسی طرح قومی و ملی حقوق کی لڑائیاں قتال یا جہاد کا
ہرگز موضوع نہیں ہوں گے۔حقوق یا وطن کی لڑائیوں کو جہاد کہنااور قتال پر
اہل ایمان کو اُکسانا ایک Fraud ہے اور فراڈ کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ اِس میں
مرنے والوں کو بلا تکلف’’ شہید‘‘کہنے والے ایک خود ساختہ دعویٰ کے علمبردار
کہلائیں گے، اِن پر فی سبیل اﷲ کا لیبل دراصل دھوکے کا سودا ہوگا اور، اس
پر اﷲ کے کسی وعدے کا کوئی ذکر اِس کی آخری تنزیل میں ہمیں نہیں ملتا۔جب فی
سبیل اﷲ کے علاوہ کسی اور مقصد کے لیے قتال یا جہاد کا دعویٰ کیا جائے گا
تو دراصل یہ زیادتی کہلائے گی۔
سورۃ البقرہ(۲) کی درجِ ذیل مختصر سی آیت پوری جامعیت کے ساتھ جن اصولوں کو
بیان کرتی ہے وہ حتمی Final ہیں۔چنانچہ آیت کی تنزیل میں تعجیل اور تاخیر
کی راہ نکال کر اپنے مذموم مقاصد کی خاطر قرآن شریف کے احکامات کو توڑنا
مروڑنا ہمارا دیرینہ مشغلہ بن گیا ہے جوہرگز نہیں ہونا چاہیے۔قرآن شریف کے
احکامات ہمیشہ Crystal Clear ہوتے ہیں اور اپنا مدعا صاف صاف پیش کرتے
ہیں:وَقَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ
وَلاَ تَعْتَدُوْا إِنَّ اللّٰہَ لاَ یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ ……’’ اور جو
لوگ تم سے لڑتے ہیں تم بھی اﷲ کی راہ میں جواباًاُن سے لڑو، مگر زیادتی نہ
کرنا کہ اﷲ تعالیٰ زیادتی کرنے والوں کے ساتھ محبت نہیں کرتا ۔‘‘(۱۹۰)۔یہ
آیت قتال کے سلسلے میں قرآن شریف میں سب سے اوّل واردشدہ آیت ہے۔مختصر سی
آیت قتال کے تین بنیادی اُصول نہایت ہی واضح طور پر بیان کرتی ہے۔اولاً،جنگ
مدافعتی ہو، ثانیاً،فی سبیل اﷲ ہو اور ثالثاً،زیادتی نہ ہو۔مسلمانوں کی
جانب سے لڑی جانے والی جنگوں میں اِن تین اُصولوں یا شرائظ کی پابندی مقدم
ہوگی اوریہ ہمارے ایمان کا تقاضہ بھی ہوگا،کیوں کہ یہ اُصول کتاب اﷲ کی
آیات سے مستنبط ہیں۔ دیگر ذیلی اُصول و شرائط یا مذکورہ آیت کی دیگر
تفصیلات بھی قرآن شریف کے بیشتر مقامات پر موجود ہیں۔جس میں سرِ مو فرق
نہیں پایا جاتا اورنہ ایسا ہوسکتا ہے۔
تنزیل کے اعتبار سے مدینہ طیبہ ہجرت ہوتے ہی جہاد اور قتال کے تعلق سے سب
سے پہلے نازل ہوئے احکامات سورۃ الحج (۲۲)کی آیات (۳۹تا۴۱)میں موجود ہیں جو
یہاں پیش کی جارہے ہیں:…… أُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقَاتَلُوْنَ بِأَ نَّہُمْ
ظُلِمُوْا وَإِنَّ اللّٰہَ عَلَی نَصْرِہِمْ لَقَدِیْرٌ ……الَّذِیْنَ
أُخْرِجُوا مِن دِیَارِہِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ إِلَّا أَن یَقُوْلُوْا
رَبُّنَا اللّٰہُ وَلَوْلَا دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَہُم بِبَعْضٍ
لَّہُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِیَعٌ وَّصَلَوَاتٌ وَّمَسَاجِدُ یُذْکَرُ
فِیْہَا اسْمُ اللّٰہِ کَثِیْرًا وَلَیَنصُرَنَّ اللّٰہُ مَن یَنصُرُہُ
إِنَّ اللّٰہَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌ ……الَّذِیْنَ إِن مَّکَّنَّاہُمْ فِی
الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَآتَوُا الزَّکَوٰۃَ وَأَمَرُوْا
بِالْمَعْرُوْفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنکَرِ وَلِلّٰہِ عَاقِبَۃُ الْأُمُورِ
…… (۳۹،۴۰،۴۱)
’’……جن اہلِ ایمان سے (خواہ مخواہ) لڑائی کی جاتی ہے اُنہیں اجازت ہے (کہ
وہ بھی جواب دیں) کیونکہ اُن پر ظلم ہو رہا ہے اور اﷲ (اُن کی مدد کرے گا
وہ) یقینا اُن کی مدد پر قادر ہے (۳۹)۔ یہ وہ لوگ ہیں ، جو اپنے گھروں سے
ناحق نکال دئیے گئے (جب کہ انہوں نے کوئی قصور نہیں کیا تھا)، ہاں وہ صرف
اِتناضرور کہتے رہے کہ ہمارا رب، اﷲ ہے۔ اور اگر اﷲ لوگوں کو ایک دوسرے سے
دفع نہ کر تا تو (راہبوں کے) خلوت کدے اور (یہودیوں کے)صوامع اور (عیسائیوں
کے) گرجا گھر اور (مسلمانوں کی) مساجد جن میں اﷲ کا کثرت سے ذکر کیا جاتا
ہے، برباد کردی جاتیں، اور جو شخص اﷲ کے Causeمیں مدد گار بنتا ہے، اﷲ اُس
کی ضرور مددکرتا ہے،بے شک اﷲ قوی وغالب ہے (۴۰)۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم
انہیں ملک میں اِقتدار و اختیار(کا موقع) دیں تو وہ اِقامتِ صلوٰۃ کریں اور
زکوٰۃ کا اہتمام کریں اور نیک کام کرنے کا حکم دیں اور بُرے کاموں سے منع
کریں اور تمام تر کاموں کا انجام اﷲ ہی کے اختیار میں ہے ۔‘‘(۴۱)۔
اس آیت کاگہرائی سے مطالعہ کیا جائے تو ہم پر یہ حقیقت کھلے گی کہ اختصار
کے باوجود تین بنیادی شرائط مفصلاً Cover ہوچکی ہیں۔ایک بات خاص طور سے نوٹ
کیے جانے کے قابل ہے کہ ہجرت کے بعد کے حالات میں ہی قتال کے حکم کا ذکر
آرہا ہے اور ایک بار نہیں متعدد بار قرآن میں جہاد کا ذکر ہجرت کے بعد ہی
آیا ہے۔نیز یہ کہ مسلمانوں کی جنگ کا ایجنڈہ صرف اور صرف یہ بتایا گیا ہے
کہ جہاد یا قتال صرف’’ فی سبیل اﷲ‘‘ یعنی اﷲ کی راہ میں ہی ہوگا۔ سورۃ الحج
کی ان آیتوں سے مذکورہ تین اصول کھل کر سامنے آتے ہیں۔
اب ہم اِن نکاط پر اپنے مضمون کا اِختتام کرتے ہیں:
۱)…… جنگ کی اجازت تو ملے گی، لیکن اِس کی اجازت ملنے والے حالات سامنے
نہیں آتے ہیں، تو ظاہر ہے کہ جنگ نہیں ہوگی۔تقدیم اور تاخیر کا کوئی سوال
نہیں ۔
۲)…… ناحق ظلم ہورہا ہو تو ہجرت پہلا اور لازمی اِقدام ہوگا۔چاہے کسی قریب
کے غار میں ہی کیوں نہ پناہ لینی پڑ جائے۔
۳)…… ظلم اگر صرف اس بات پر ہورہا ہو کہ کوئی شخص یا گروہ کہے کہ ہمارا رب
اﷲ وحدۂ لا شریک ہے اور مخالف اِسے ایسا کہنے اور اِس پر عمل کرنے سے نہ
صرف روک رہا ہو بلکہ اُس پر تشددبھی کر رہا ہو۔
۴)……ہجرت سے قبل محض صبر ہورہا ہو۔کوئی ہڑتال،کوئی مظاہرہ یا کالی
جھنڈیاں،کوئی گھیراؤ یا کسی کااغوا یا ایسی کوئی اور جاہلانہ کارروائی نہ
ہورہی ہو۔
۵)…… جب ہجرت ہو ہی چکی ہو، پھر بھی ظالمانہ حرکتوں کا سلسلہ نہ تھمتا ہو
تو اِس کا بھرپور جواب دیا جائے مگر پوری ہوشمندی کے ساتھ۔پھر چاہے اہلِ
ایمان ساز و سامان اورافرادی قوت کے اعتبار سے کتنے ہی کمزور کیوں نہ ہوں،
اﷲ کی نصرت اور فرشتوں کا تعاون و معیت مقدر ہونے کے امکانات وسیع تر ہوں
گے ۔
۶)…… ہماری کسی شرارت کے نتیجے میں فریق ثانی کی کسی کاروائی کو ظلم قرار
دے کرجہاد یا قتال کا جواز پیدا کرنا قرآن سے ثابت نہیں۔ ہم لڑتے رہیں لیکن
اﷲ کی مدد کی توقع نہ رکھیں کہ یہ جنگ فی سبیل اﷲ نہیں ہوگی۔ یہ تو ہماری
اپنی جنگ ہوگی۔
۷)……راہبوں کے خلوت کدے ، یہودیوں کے صوامع، عیسائیوں کے گرجا گھر اور
مسلمانوں کی مساجد کی حفاظت اﷲ کا کام ہے اور جہاد و قتال کے ذریعے وہ ان
کی حفاظت کا انتظام کرتا ہے۔ ہماری جنگوں کا المیہ تو یہ ہے کہ خود مسلمان
،مسلمانوں کے کسی دوسرے فرقے کی مسجدیں بلاتکلف آگ کی نذر کرنے سے ذرا بھی
خوف نہیں کھاتے۔ پھرطرفہ تماشہ یہ کہ اسے نہایت ہی اہم دینی کام سمجھتے ہیں
اوراِن کے علماء بھی اِن ’’مجاہدین‘‘ کی پیٹھ تھپکتے ہیں کہ یہ اپنا’’ جہاد
اور قتال‘‘ جاری رکھیں۔جسم پر ایک جھر جھری کی سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے یہ
سوچ کر کہ نہ جانے قومی سطح پر اﷲ ان کی اِنــ’’دینی حرکتوں‘‘کا کس قدر سخت
بدلہ لینے والا ہے۔
۸)……ہماری کوئی ایسی جنگ جو کسی جائز یا ناجائز مطالبہ کو لے کر ہو، کبھی
’’جہاد یاقتال فی سبیل اﷲ‘‘ نہیں کہلائے گی، بلکہ یہ معاملہ اِس قدر حساس
اور نازک ہے کہ ایسے شریر لوگوں کے اپنے دفاع کے بھی کوئی معنیٰ نہیں
ہوتے۔یہ تو فتنہ کہلائے گا اور فتنہ کو کچل دیا جانا چاہیے۔
۹)……قتال یا جہاد کبھی اِقدامی نہیں ہوگا، بلکہ مدافعتی ہوگا۔رسول اﷲ صلی
اﷲ علیہ و سلم کی تمام کی تمام چھ جنگیں اِن ہی عنوانات کے ذیل میں لڑی
گئیں اور سب کی سب جوابی کاروائیاں یا مدافعتی Defensive ہی کہلائیں۔
اِسلام کے تلوار کے زور پر پھیلائے جانے کی جو پھبتی کسی جاتی ہے، اُنہیں
معلوم ہونا چاہیے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم کی جنگوں میں
اقدامیOffensive جنگ اِن میں سے ایک بھی نہیں تھی۔ فتح مکہ کی وجوہات میں
بھی ہم اپنے گزشتہ مضمون میں بیان کرچکے کہ کس طرح صحابہؓ کے قتل کے واقعات
رونما ہو ئے،یہاں تک کہ حریفوں نے خوں بہا کے حضور صلی اﷲ علیہ و سلم کے
ایک جائز مطالبے کو تسلیم کرنے سے اِنکار کر دیا تھااوراپنے مجرموں کو کسی
قسم کی کوئی سزا دینے پر آمادہ نظرنہ آتے تھے۔لے دے کر صرف تبوک کی جنگ ہی
بظاہر اقدامی دکھائی دیتی ہے مگر ذرا سا گہرائی میں جاکر اِس جنگ کا مطالعہ
کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ بھی اپنی مدافعت کے لیے برپا شدہ معرکہ
تھا،جسے سمجھا نہیں گیایا جان بوجھ کر اِس کی حقیقت پر پردے ڈالے گئے۔اصل
واقعہ یہ تھا کہ جن صحا بہؓ پر مشتمل وفد تبوک گیا ہوا تھا ،اُنہیں تبوک کے
عیسائی رومی گورنر نے قتل کرڈالا ۔ دوسرا وفد بھی گفتگو کے لئے بھیجا گیا
تھا تو اُس کے ساتھ بھی یہی سلوک روا رکھا گیا تھا۔اِن حالات میں آنحضرت
صلی اﷲ علیہ و سلم نے اِنہیں الٹی میٹم بھی دیا ۔ اِس کے بعد ہی حضور صلی
اﷲ علیہ وسلم میدان ِ جہاد میں تشریف لائے۔تاریخ گواہ ہے کہ آپ نے کبھی کسی
حریف پر اچانک دھاوا نہیں بولا،نہ آپ صلی اﷲ علیہ و سلم نے کبھی کسی پر شب
خون ہی مارا۔سبب یہ تھا کہ جنگ کے الٹی میٹم کی شرائط سے متعلق احکامات
سورۂ التوبہ کی آیات اِبتدا ہی میں نازل ہو چکے تھے۔
۱۰)…… کسی طور سے تجاوزاور زیادتی کا واقعہ پیش نہیں آنا چاہیے ۔ اس لئے کہ
زیادتی کرنے والوں کو اﷲ کبھی پسند نہیں کرتا، چاہے زیادتی کرنے والے
مؤمنین ہی کیوں نہ ہوں۔وہ اور ہوں گے جنہوں نے صرف اور صرف اپنی جہالت کی
بنیاد پر یہ خودساختہ، بلکہ شرم ناک اُصول بنا رکھا ہوگا کہ جنگ اور محبت
میں ہر شے جائز ہے:"Every thing is fair in War and Love" ،افسوس کہ اِس پر
عمل بھی کیا گیا اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے،اِس سے بدبخت کوئی اُصول اور
کیا ہو سکتا ہے کہ اِنسان اپنے لیے نااِنصافی اور بے رہ روی کے سارے دروازے
کھول لے۔مگر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم، اﷲ کے نبی تھے اور زندگی کے ہر
معاملہ میں اُن کا عمل ایک معیار اور کسوٹی کی حیثیت رکھتا تھا ، چنانچہ
رحمت اللعا لمین صلعم کی جنگیں بھی ہماری ہدایت کا سامان فراہم کرتی ہیں۔یہ
وہ جنگیں تھیں جو عالمین کے لیے رحمت ثابت ہوئیں اور معرکہ ٔ خیر و شر
اورکشمکشِ حق و باطل کا معیار بن گئیں۔یہ اﷲ کی کتاب قرآن شریف ہی کا اعجاز
ہے کہ اِس میں اِس قدر اختصار کے ساتھ اِتنی اہم اور واضح شرائط بیان کردی
گئیں کہ کسی فرد متنفس کے لیے اب کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ وہ اپنے
طور پر اپنے نفس کی تسکین دینے والے قوانین گھڑ لے۔
بہر کیف اِن شرائط پر اگر ہماری نظر ہوتو ، کسی بھی جنگ میں رسول اکرم صلی
اﷲ علیہ و سلم کی طرف سے کسی جنگ یا قتال کے سلسلے میں کسی تقدیم یا تاخیر
کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔یہ وہ شرائط ہیں جو رہتی دُنیا تک قائم رہیں گی
، چاہے عصرِ حاضر کے مسلمانوں کو قبول ہوں کہ نہ ہوں، جو جہاد کے نام پر
عجیب و غریب حرکتیں کرتے پھرتے ہیں۔ حالانکہ اِن شرائط کی خصوصیت یہ ہے کہ،
جو بھی اِن کو اپنائے گا وہ سرخ رُو ہوگا، چاہے وہ دُنیا کے کسی قوم ومذہب
سے کیوں نہ تعلق رکھتا ہو۔
اِن واضح ہدایات ِ جنگ و احکامات ِجہاد و قتال کی موجودگی کے با وجودکیا ہم
اب بھی اپنے نفس کی جنگوں میں یوں ہی اپنی نوجوان زندگیاں کھپاتے پھریں
گے؟۔ |