پاکستان میں سسکیاں لیتی ہوئی
انسانیت کے ماتھے پر بدنما داغ اور درندوں سے بھی بدترین ہونے کا اعزاز آ
جکل تحریک طالبان پاکستان نے لے رکھا ہے اگر ہم کچھ عرصہ پہلے والے پاکستان
کو دیکھیں تب خودکش حملوں اور بم دھماکوں کا اتنا رواج نہیں تھا اگر
خدانخواستہ کوئی دھماکہ ہو بھی جاتا تو تحقیق ہوتی تو اُس کے تانے بانے
انڈیا کی مشہور بدنام زمانہ انٹیلی جینس ایجنسی را سے جا ملتے تھے اُس وقت
را کا بنیادی مقصد پاکستان میں فرقہ ورانہ فسادات کو بھڑکا کر قتل و غارت
کروانا ہوتا تھا یاپاکستان کی سیکرٹ معلومات اپنے جاسوسوں کو بھیج کر حاصل
کرنا ہوتی تھی مگر اب وہ دور گیا اب را کو اپنے جاسوس بھیج کر کچھ بھی کرنے
کی ضرورت نہیں کیونکہ اب یہ کام انتہائی زور شور سے کرنے کا ٹھیکہ تحریک
طالبان پاکستان نامی ایک دہشت گرد تنظیم نے سنبھال لیا ہے اور اس تنظیم کا
بنیادی مقصد پاکستان میں انتشار پھیلانا لوگوں میں خوف و ہراس پھیلانا
پاکستانی کے دفاعی اداروں کو کمزور کرنااور اپنے اپنے علاقو ں میں اپنی
حاکمیت جما کر اس پاکستان پر قبضہ کا خواب دیکھ کر یہاں اپنا نام نہاد
اسلام اور شریعت نافذ کرنا ہے ۔مسلمان مرد و عورت و بچوں کی تفریق کیے بغیر
اُن کے جسموں کو چیتھڑوں اور ٹکڑوں میں تقسیم کر کے پھر اُن کے ناحق خون کی
زمہ داری بڑی بہادری سے اور ببانگ دُہل انداز میں قبول کرنا اس تنظیم کا
شیوہ بن چکا ہے میرا خیال ہے جس طرح کی وحشیانہ کھیل اور درندگی سے بھرپور
کردار ادا کرنے میں اس دہشت گرد تنظیم کو مزہ آ تا ہے اس کو دیکھ کر ہلاکو
خاں کی روح بھی لرز جاتی ہو گئی اور انڈیا کی انٹیلی جینس ایجنسی را بھی
دنگ رہ جاتی ہوگئی کہ اتنے وسیع پیمانے پر قتل و غارت خودکش حملے اور جس
بھی شخصیت کو نشانہ بنانا چاہیں اس تنظیم کے لیے کوئی مشکل کام نہیں اتنا
پاکستان کا جانی نقصان انڈیا سے لڑی جانے والی چار جنگوں سے نہیں ہوا جتنا
پاکستان میں یہ نام نہاد طالبان نے پہنچا یا ہے -
مگر افسوس کی بات تو یہ ہے کہ آج تک ہم اس دُشمن کو سمجھ نہیں سکے ہماری
سیاسی اور مذہبی جماعتیں بھی اس بارے میں تقسیم کا شکار ہیں ور ہماری مذہبی
جماعتیں اُن دہشت گردوں کی کی مُذمت کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی مبادا کہیں
ان پر حملے نہ شروع ہو جائیں اور ویسے بھی یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے
ہماری مذہبی جماعتوں کا ان دہشت گردوں سے قریبی تعلق ہے یاد رکھیں اور خدا
سے ڈریں ظالم کا ساتھ دینے والا بھی ظالم ہوتا ہے -
بلکہ کچھ جماعتیں تو ان سفاک دہشت گردوں کی صفائی میں یہ دلیلیں دیتے نظر
آتے ہیں کہ جناب ان پر ڈرون حملے ہوتے ہیں تو پھر یہ اُن کا بدلہ تو لیں
گئے -
واہ کیا منظق ہے کیا فلاسفہ ہے مطلب اگر کوئی ناحق قتل ہو تو اُس کے
لواحقین اپنے مجرم کی بجائے دوسروں پر حملہ شروع کر دیں پھر اگر آپ کی دلیل
مان بھی لی جائے تو پھر جو پاکستان کے تقریبا چالیس ہزار کے لگ بھگ لوگ بم
دھماکوں اور خودکُش حملوں میں شہید ہوئے ہیں پھر اُن کے لواحقین بھی یہی
کام کرتے اپنے پیاروں کے خون کا بدلہ آپ اور میرے جیسے لوگوں سے لیتے ناں؟
افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہم احساس سے عاری ہو چکے ہیں صرف ہماری جان کی
قیمت ہے باقی تو کیڑے مکوڑے ہیں جو مر رہے ہیں آج ہمارا سب سے بڑا دشمن
ہمارا اپنا ہے ہم چاہے لاکھ آنکھیں چر ا لیں مگر یہ کڑوی حقیقت ہمیں نگلنا
پڑے گی-
ماضی میں کی گئی سنگین اور بدترین غلطیاں آج ہمارے معصوم لوگوں کو بگھتنا
پڑرہی ہیں آخر کب تک آنسوؤں میں ڈوبی ہوئی عوام لہو کے نذرانے پیش کرتی رہی
گئی ۔محفوظ دفتروں میں بیٹھے ہوئے حکمران کیا جانے جب زندگی کا بے رحم قتل
ہوتا ہے جب ہنستی کھیلتی زندگی کودرندگی سے کچلا جاتا ہے تو دلوں دماغ پر
کیسے ازیتوں کے ہتھوڑے ہر لمہے لگتے ہیں جس کسی گھر کا چراغ بجھتا ہے وہی
جانتا ہے کہ اس چراغ بجھنے سے پورا خاندان تار یکیوں اور غمناک اندھیروں
میں ہمیشہ کے لیے ڈوب جاتا ہے ۔کیا کسی عام انسان کی جان جانا کوئی بڑی
خبرنہیں ہوتی کیا صرف 5لاکھ سے کسی کے اشکوں روکا جا سکتا ہے کیا صرف مزمتی
بیانوں سے دکھوں اور ہولناک غموں کے ٹوٹنے والے پہاڑوں پر صبر کا مرہم رکھا
جا سکتا ہے ۔یہ سسکتی ہوئی سسکیاں ان ظالم اور درندہ صفت لوگوں کا کبھی
پیچھا نہیں چھوڈیں گئی ان خون میں ڈوبے ہوئے آنسو ایسے ہی جزب نہیں ہوں گئے
جب تک ان وحشی لوگوں کو ان کے انجام تک نہیں پہنچا ئیں گئے ۔
دنیا کی تاریخ اُٹھا کر دیکھ لیں ہر قوم ملکی سلامتی کے معاملے پر اکٹھی
نظر آتی ہیں زیادہ دور نہ جایئں ہم اپنے ہمسائے سر لنکا کو ہی دیکھ لیں جس
کو پاکستان کی طرح ہی اپنے ملک میں ایسی ہی شدت پسندی نمٹنا پڑا مگر وہا ں
کوئی کنفیوذ نہیں ہوا سب نے دشمن کو دشمن سمجھا۔
مگر یہاں تو صورتحال ہی مختلف ہے دنیا میں جتنی کنفیوزڈ قوم ہم بن گئے ہیں
شاید ہی کوئی اور قوم ہو گئی یہی ملالہ یوسفرئی کو جب سوات میں علم کی شمع
روشن کرنے کی سزا گولیوں کی زبان میں یہی تحریک طالبان نے دی تو ہم سب
ملالہ کے دکھ میں رنجیدہ تھے کوئی اُسے اپنی بہن کہ رہا تھا تو کوئی اُسے
اپنی بیٹی کہ رہا تھا جب وہ زندگی اور موت کی کشمکش میں اُس کا علاج بیرون
ملک ہونا شروع ہو گیا اور دنیا کے سربراہان کی طرف سے ہمدردی کے بیانات آنے
شروع ہو گئے اور جب اُس نے اقوام متحدہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ تو شدت
پسندوں کے بچوں کے لیے بھی قلم اور کتاب چاہتی ہیں مگر افسوس ہم کنفیوزڈ
قوم نے اُسے ایجنٹ کہنا شروع کر دیا جس کو دنیا شاباش دے اُسے ہم کبھی
شاباش نہیں دیتے یہ ہماری شرو ع سے ہی پالیسی رہی ہے ہم جسے راتوں رات ہیرو
بنا دے دوسرے دن وہ زیرہ اور غیر ملکی ایجنٹ ہوتا ہے ۔
جن لوگوں کا خیال ہے کہ مذاکرات سے یہ شدت پسند راہ راست پر آ سکتے ہیں تو
وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں یہ کسی عقل منطق فلسفے کو نہیں مانتے ان شدت
پسندوں کی دلوں میں نفرت اور غداری کا وہ سیلاب ہے جو اب کسی بھی امن ،محبت
کے بندھ باندھنے سے نہیں رکنے والا اور ابھی دور کی بات نہیں اسی امن کا
تجربہ پاکستان آرمی کر چکی ہے اور سوات کو ان شدت پسندوں کے حوالے کر دیا
گیا تھا پھر انھوں نے کیا دہشت نہیں پھیلائی سکول کالج بند ہو گئے ہر طرف
ڈر اورخوف کا راج ہو گیا جس کو یہ چاہتے چٹکی کی طرح مسل دیتے جو بولتا
اُسے گولی سے اُڑا دیتے اپنی عدالیتں لگا کر بیٹھ گئے اور عورتوں کو کوڑے
مار کر اپنی درندگی کا ثبوت تک دے دیا-
میں تو انڈیا کی انٹیلی جینس را کویہ مشورہ دوں گا کہ وہ بلوچستان اور
پاکستان کے دیگر علاقوں میں جو انتشار اور بد امنی پھیلا رہے ہیں اس کا
ٹاسک وہ تحریک طالبان کو دے دیں وہ زیادہ بہتر انداز میں پرفارم کر سکے گئی
اور معاوضہ نہ ہونے کے برابر لے گئی کیونکہ ان کا صرف شوق خون کرنا ہے چاہے
وہ کسی کا بھی ہو بس ہر طرف خون ہی خون ہو ااور یہ خون کی لذت کو محسوس کر
کے اطمینان حاصل کر سکیں
ان شدت پسندوں کی حمایت کرنے والوں سے صرف ایک بات کہنا چاہتا ہوں اسلام
میں ایک بے گناہ کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے اور ان شدت پسندوں کے دامن
ہزاروں ناحق خون کے دھبوں سے بھرے پڑے ہیں اور ان کو امن کا راستہ دیا جائے
؟
خدا کا خوف کریں خدا کی لاٹھی بڑی بے آواز ہے آج ہم ان کے ہاتھوں مر رہے
ہیں تو پھر آپ کی باری بھی دور نہیں ہے دھماکوں اور گولی کی زبان میں بات
کرنے والے کسی کے دوست نہیں ہوتے اب دنیا کی ایجنسیوں کی یہاں اپنے ایجنٹ
بھیجنے کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ اب امریکی سی ائی اے اسرئیل کی خفیہ ایجنسی
موساد اور انڈیا کی را اب آرام فرما رہی ہیں بس زیادہ سے زیادہ وہ یہاں ان
شدت پسندوں کو پیسے دے رہی ہیں کیونکہ اب پاکستان کو توڑنے کے لیے جنگ کرنے
کی ضرورت نہیں اپنے ہی لوگو ں سے اپنے لوگوں کے خلاف استعمال کر کے مطلوبہ
نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں-
آج ہمیں بحثیت قوم اب بات کا ادراک کرنا چاہیے کہ ہمارے لوگوں کے خون سے
ہاتھ رنگنے والے ہی ہمارے اصل دشمن ہیں اُن کا کوئی مذہب کوئی دین نہیں وہ
کافروں اور درندوں سے بھی بڑھ کر ہیں لہذا ان کے ساتھ کسی بھی قسم کی رعایت
ہمارے شہدا کے ساتھ ظلم اور زیادتی ہو گئی -
میں پُر اُمید ہوں ﷲ نے چاہا تو پاکستان میں پھر امن کا پرچم لہرائے گا اور
اس سرزمین سے کھیلنے والے را اور سی آئی اے کے ایجنٹ اپنے عبرتناک انجام سے
دوچار ہوں گے -۔ |