جو کام حکومت کو کرنے چاہئیں ،ایسامحسوس
ہوتاہے کہ حکومت کی سُستی اور نیم دلی کو دیکھ کر عدلیہ انہیں حل کرنے کے
لئے کمر بستہ ہو چکی ہے۔خواہ وہ جرائم زدہ سیاست کی صفائی کا معاملہ
ہویاامن و امان کا۔یاپھرکرپشن کاریکارڈ توڑنے والے کسی سیاسی طوطے کو
سرکاری پنجرے میں ڈالنے کا۔ہرمعاملے میں عدالت نے اپنی فعالیت اور انتہائی
ذمہ داری کے ساتھ ملک و قوم کے حق میں مثبت اور دورس نتائج کے حامل فیصلے
صادرکئے ہیں ورنہ ہماری پرانی اور نئی حکومت توصرف میڈیاٹاک پرایک دوسرے
پرکیچڑ اچھالنے کے علاوہ کچھ نہیں کرتے۔بات چاہے صوبائی سطح کی ہویاوفاقی
انہیں اپنے اُوٹ پٹانگ بیانات پرردِعمل ظاہرکرنے میں ہی اپناقیمتی وقت و
توانائی صرف کرنے میں کامل بھروسہ رہتاہے اورجس پریہ سب مکمل
طورپرکاربندہیں۔جبکہ عوامی مفاد کے کاموں اور اہم معاملات کو پسِ پشت ہی
ڈال دیاگیاہے۔عدالتِ عالیہ کے حالیہ تاریخ سازفیصلوں کی فہرست بھی طویل ہے
مگرحکمرانوں نے ابھی تک کسی بھی عدالتی فیصلوں پرعمل در آمد نہیں کیا۔نیا
فیصلہ ستمبرمیں بلدیاتی انتخابات کرانے کاحکم ہے ۔مگر اس پربھی کوئی عمل در
آمد ہوتادکھائی نہیں دیتا۔ کیونکہ دو صوبوں کے حکومتی ارکان نے بیان داغ
دیاہے کہ ستمبرمیں بلدیاتی الیکشن ممکن نہیں۔حلقہ بندیاں ہونی ہے اور دیگر
مجبوریوں کی طرف اشارہ کرکے جمہوریت کا حسن نچلی سطح پراقتدار کی منتقلی کو
ایک خواب کا روپ دے دیاہے۔ہرذی شعور کویہ علم ہے کہ بلدیاتی سطح کے
انتخابات عوامی خدمت کے رُوسے نہایت اہم ہوتے ہیں۔کیونکہ نچلی سطح تک یہی
بلدیاتی افسران عوام کے زیادہ قریب ہوتے ہیں۔ اور یہیں سے عوام کی خدمت
کاسلسلہ شروع ہوتاہے۔مگرنہ جانے کیوں ہماری حکومتیں بلدیاتی الیکشن کرانے
سے بھاگتی ہیں۔جبکہ آپ کو یادہوگا کہ چند برس پہلے اسی شہرِ کراچی کی سڑکوں
کو رات بھردھویاجاتاتھااورپھر صبح اس پر ٹریفک کی روانی ہواکرتی تھی آج ان
سڑکوں کا یہ حال ہے کہ جگہ جگہ گندگی کا ڈھیڑ جمع ہے اورسڑکوں سمیت گلیوں
میں بھی گٹر اُبل رہے ہیں اور کوئی پُرسانِ حال نہیں۔جن شاہراہوں پر
خوبصورت انڈر پاسز بنائے گئے تھے آج چونکہ وہاں کوئی بلدیاتی نمائندہ نہیں
اس لئے وہاں پررہزنوں کی بھرمار ہوتی ہے۔جہاں جہاں خوبصورت و جدید اوور ہیڈ
برجز بنائے گئے تھے اور لوگ جوق در جوق وہاں سے سڑک عبور کرتے تھے آج وہاں
فقیروں،ہیروئنچیوں کا ڈیرہ لگارہتاہے اس لئے وہاں سے کوئی بھی شریف النفس
شہری گزرنے کواپنی توہین سمجھتاہے۔کیایہی کمشنری نظام ہے ؟اگر اسی کو
کمشنری نظام کہاجاتاہے تو بے کار اوربے سودہے یہ نظام جس سے عوام کو سوائے
تکلیفوں اور پریشانیوں کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہو رہاہے۔
عدالت نے ایک اور فیصلہ کراچی بد امنی کیس کے سلسلے میں دیاتھامگرتاحال اس
پربھی کوئی عمل در آمد دیکھنے میں نہیں آ رہا۔میں ہی کیا ہر کوئی یہی کہہ
رہاہے کہ کراچی توآج بھی بدامنی کی لپیٹ میں ہے۔لیاری کا علاقہ ہی لے لیں
آج بھی وہاں بد امنی عروج پرہی ہے۔اور ہر اطراف سے ہر قوم و برادری کے لوگ
نقلِ مکانی کر رہے ہیں۔نقلِ مکانی کرناکوئی آسان عمل توہے نہیں کہ کوئی
اپناگھر بار ، کاروبارچھوڑکرایک جگہ سے دوسری جگہ کوہجرت کرجائے توآپ سمجھ
سکتے ہیں کہ وہاں امن و امان کی حالت کس قدر خراب ہوگی۔ورنہ کون ذی
شعوراپناگھر،اپنا علاقہ،اپناکاروبارچھوڑناچاہتاہے۔ہر روزلاشیں گِر رہی ہیں
اور حکمران کہتے ہیں کہ سب اچھاہے۔یاپھریہ کہہ کر اپنا راستہ صاف کرلیتی
ہیں کہ سب کچھ ہمیں ورثے میں ملاہے۔آپ کی بات مان بھی لی جائے توکسی نہ کسی
کو تو یہ بد امنی،بے امن و امانی کاقلعہ قمع کرناہی ہے نا۔توپھر کل پرکام
کوکیوں ٹالاجاتاہے۔’’ جو کل کرے سو آج کر۔اورجوآج کرے سو اب ‘‘کے مصداق عمل
در آمد شروع ہوناچاہیئے۔
موجودہ جمہوری پارلیمانی نظام کاسب سے بڑاعیب یہ ہے کہ اس میں انصاف کے
بجائے انتخاب کی سیاست ہوتی رہتی ہے۔یعنی اہم فیصلوں پرعمل در آمدکے بجائے
عہدوں کی بندر بانٹ جیساکہ روایت رہی ہے ،آج بھی وہی کھیل جاری ہے۔اپنے
اپنے مفادات کی سیاست اور خود کو مضبوط تربنانے میں ہی حکمران محو ہیں
انہیں عوام کی خبرگیری کی فرصت ہی کہاں ہے۔عوام کس اذیت سے دو چار ہیں
انہیں اس کی فکر نہیں بلکہ انہیں تو کُرسی کا کھیل ہی اچھالگتاہے۔اب دیکھئے
کہ صدارتی کرسی کاکھیل گرم ہے کہ وہاں کی کرسی پرکس سیاسی جماعت کانمائندہ
بیٹھے گا۔مطلب یہ کہ یہ تمام کھیل تماشے ہوتے ہوتے پانچ سال تو بیت ہی
جائیں گے پھر نئے انتخابات اور پھر نئے وعدے وعید اور یہ عوام جہاں کھڑی
تھی وہیں کھڑی رہے گی ،ان کاکچھ نہیں ہونے والا۔فی الوقت توساری سیاسی
پارٹیاں صدارتی الیکشن کی طرف راغب ہیں اور اس سے پہلے غالباً کچھ حلقوں کے
ضمنی الیکشن بھی ہونے ہیں۔اس سلسلے میں بھی جوڑ توڑ کاسلسلہ جاری ہے۔اس کے
بعد اگرکچھ عوام کے لئے سوچاجائے توکچھ بعید نہیں۔عوام توآج بھی مہنگائی،بے
روزگاری،لوڈ شیڈنگ، دھماکوں سے پریشان ہیں جیساکہ پہلے تھے۔فی الحال ان کی
بہتری نظر نہیں آ رہی ہے۔رمضان المبارک کا مہینہ جاری و ساری ہے اور آج
پہلے عشرے کا اختتام ہوچکاہے۔کیونکہ یہ مہینہ ہمیں صبر اور شکرکے لئے
ملتاہے اس لئے بھی شایدعوام ابھی صبر و شکرکرنے اور روزے رکھنے میں مگن
ہیں۔مگرکیا یہ عوام عیدکے بعدبھی صبر و شکرکر سکیں گے۔مجھے تونہیں لگتاکہ
ایساہوگاکیونکہ عید کے بعدعوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتانظرآتا ہے۔خدا
خیر کرے!
ڈی ایچ اے کا اکاؤنٹ بھی اعلیٰ عدلیہ نے منجمدکردیاہے اور کہاہے کہ وہ
غریبوں کا پیسہ نہیں جانے دیں گے۔یہ جملہ بھی خبروں میں ہے کہ اگر ڈی ایچ
اے کے ذہنی نہا خانوں میں یہ بات ہے کہ وہ قانون سے بالاترہے تو یہ بات ذہن
سے نکال دے ۔مگرکیا اس پربھی انصاف پر مبنی کاروائی ہو سکے گا۔اس کے لئے
ہمیں ابھی مزید انتظارکرناپڑے گا۔کیونکہ ابھی ڈی ایچ اے کے وکیل صاحب کی
بھی کارستانیاں ہونی ہیں پھر عدالت کی کاروائی اس لئے ہم سب کو تو لازماً
انتظار ہی کرناپڑے گا۔جیف جسٹس صاحب کے ریمارکس یہ بھی ہیں کہ ایف آئی اے
ذمہ داروں کے خلاف کاروائی کرے مگرکیاایساہو سکے گا۔جمہوریت میں ایساممکن
توہے اگر سیاسی مداخلت نہ ہو تو ۔مگر ہمارے یہاں انصاف سے پہلے سیاسی چپقلش
زیادہ اثررکھتی ہے۔
اسی طرح کے کئی اورمعاملات ہیں جن پراعلیٰ عدلیہ نے فیصلہ سنایاہے مگرتاحال
کوئی خاطر خواہ نتیجہ دیکھنے میں نہیں آرہاہے کہ اس پرعمل در آمدکیسے
ہوگااور کب ہوگا۔اب کہنا یہ ہے کہ اعلیٰ عدلیہ نے اگر بلدیاتی الیکشن کے
لئے فیصلہ دے دیاہے تویقینا یہ فیصلہ عوامی مفاد کاہی ہے۔اس لئے الیکشن
کمیشن اور صوبائی حکومتیں اس فیصلے میں بجائے لیت و لعل سے کام لینے کے
فراخ دلی کے ساتھ بلدیاتی الیکشن کرائیں تاکہ نچلی سطح کے انتخابات کے بعد
کم از کم عوام کو بنیادی ضروری سہولتیں تومیسرآ سکیں۔کیونکہ اگر سڑکوں اور
گلیوں پر جابجاکچرے اور غلاظت کا ڈھیر جمع ہوگا تو اس کی وجہ سے بیماریاں
بھی پیدا ہونگی اور اس سے متاثر بھی یہ بے چارے عوام ہی ہونگے۔اس لئے بہتر
طریقہ تویہی ہے کہ عدالت کے فیصلے کو من و عن تسلیم کرتے ہوئے مقررہ مہینے
میں الیکشن کرایاجائے اور جلد از جلد اختیارات کونچلی سطح پرمنتقل
کیاجائے۔خدائے بزرگ و برتر ہمارے حکمرانوں کو اس قابل بنائے کہ وہ عوامی
مفادِ عامہ کے کاموں کو مدِّنظر رکھیں اور ان کی داد رسی بھی کریں۔آمین |