لیاری میں دیوار

تحریر امتیاز مغیری

عقل حیران اور پریشان ہے کہ روز انہ کے اخبارات میں ایک ہی بات نظر آتی ہے اور بہت شدت سے محسوس کی جاتی ہے اور وہ ہے لیاری کی گینگ وار ۔ہنگامہ آرائی کراچی کے لئے کوئی نئی بات نہیں کراچی گزشتہ چار دہائیوں سے آگ و خون کے ساتھ ساتھ بے گناہوں کے خون سے غسل دیا جا رہا ہے اور ہر عشرے میں کراچی کے ہنگاموں کی ایک نئی جہت سامنے لائی جاتی رہی ہے پہلا عشرہ سندھی ،مہاجر فساد کے رنگ میں رنگا گیا اور بہت جلد سندھیوں اور مہاجروں کو یہ احساس ہو گیا کہ ہمیں سوچی سمجھی سازش کے تحت لڑایا گیا تو ایک خوشگوار احساس کے تحت امن قائم ہوگیا ۔دوسرا عشرہ اردو بولے والی اور سندھ کے شہروں کی نمائندہ سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ پر پابندی لگا کر ان کے علاقائی دفاتر کے ساتھ ساتھ ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو پر قانون نافذ کرنے والوں کا دھاوا اور بد ترین ریاستی آپریشن کے ذریعے ایم کیو ایم کو اعلانیہ نیست و نابود کر دینے کے دعوؤں کے ساتھ ساتھ تقریبا سترہ ہزار نوجوانوں کا بے دردی سے قتل اور سینکڑوں نوجوانوں کو لاپتہ کر دینا کا طرہ امتیاز بھی دوسرے عشرے کی بد نمائی کو واضح کرنے کے لئے کافی سے زیادہ رہا۔تیسرہ عشرہ مہاجر ،پختون فساد کے نام سے کراچی کے ماتھے کا بد نما جھومر بنانے کی کوششوں میں صرف ہوا اور اس کی طوالت چوتھے عشرے تک زبردستی کھینچ کر لانے کی کوشش میں ہزاروں بے گناہ مہاجر اور پختون مار دئیے گئے اور ہزاروں گھرانوں کو تاحیات عذابِ مسلسل کا شکار بنا دیا گیا ۔ابھی گزشتہ تین عشروں کے عذابات سے کراچی سنبھل بھی نہیں پایا تھا کہ معصوم اور کھیل کے شیدائی بلوچوں میں سے ڈھونڈ کر جرائم پیشہ افراد کے گروپوں کی تشکیل عمل میں لے آئی گئی اور کراچی کو ایک بار پھر ایک نئے نام سے ہنگاموں کی نظر کردیا گیا نہ صرف یہ کہ ہنگاموں کی نظر کردیا گیا بلکہ ان ہنگاموں کی شدت میں بھی بے پناہ اضافہ کر دیا گیا اور انڈر ورلڈ کی طرز پر انہیں منظم کر کے اور غیر ملکی اسلحے سے لیس کر کے کراچی کے معصوم اور بے گناہ لوگوں پر کھلی جارحیت کی اجازت کے ساتھ بد مست ہاتھی کی طرح چھوڑ دیا گیا اور گزشتہ تین سالوں میں کراچی کو خاک و خون میں نہلانے کے ساتھ ساتھ روزانہ کی بنیاد پر کما نے والوں، فیکٹری مزدوروں ،عام دکانداروں، سے لیکر کم عمر کے نوجوانوں تک کو اغوا کر کے بڑی بے دردی کے ساتھ تشدد کا نشانہ بنا کر مار ڈالا گیا نہ صرف مارڈالا گیا بلکہ انکو تیز دھار چھریوں کی مدد سے بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کردیا گیا اور موبائل کے ذریعے فلم بندی کر کے عوام کے موبائلوں پر بھی بھیجا گیا تا کہ خوف کی فضا قائم کی جاسکے جن میں یہ جرائم پیشہ عناصر کامیاب بھی ہوئے اور عوام واقعی خوف کا شکار ہو گئی جس کے نتیجے میں گلی گلی بیرئیرز لگا کر اچھی بھلی گزر گاہوں کو عوام نے خود اپنے ہاتھوں سے بند کر دیا تا کہ انکی گلیاں اور محلے دہشت گردوں سے محفوظ کئے جاسکیں ۔بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی بلکہ اس سے کہیں زیادہ آگے پہنچا دی گئی ابھی حال ہی میں کراچی سے شائع ہونے والے قومی اخبارات کی سرخیاں کچھ اس طرح نظر کو شرمارہی تھیں کہ نظر کو بھی پسینہ آگیا کچھ سرخیاں آپ کی نظر بھی کرتے ہیں ملاحظہ کیجئے۔

’’کچھی اور بلوچ آبادی کے درمیان لیاری میں دیوار برلن بنے گی ،سندھ حکومت نے نیا حل نکال لیا ،برسوں ساتھ رہنے والوں کے درمیان پتھر کی لکیر کھینچنے کی تیاریاں مکمل،’’دو ملکوں‘‘ کی طرز پر بارڈر بنے گا ،بات صرف دیوار پر ختم نہیں ہوگی ،ہنگورہ آ باد اور مین شاہراہوں پر چیک پوسٹیں بھی بنائی جائینگی ،گنجان علاقہ ہونے کی وجہ سے لیاری میں کاروائی کی اطلاع جرائم پیشہ افراد کو پہلے ہی ہو جاتی ہے ،ڈی سی ساؤتھ،،،،،،،،،

ایک اور سرخی پر نظر ڈالتے ہیں ۔’’’’مزید تین سو خاندان نقل مکانی کر گئے ،،لیاری کی ناکہ بندی ،چوکیوں کی تعمیر شروع،،،کچھی برادری کی جانب سے نقل مکانی کا سلسلہ جاری ،،،پولیس پر ہمیں اعتماد نہیں کچھی آبادیوں کی سیکیوریٹی رینجرز کے حوالے کی جائے،،،،رواں ہفتے کی دو پہر کو آگرہ تاج کالونی میں واقع لوہار واڑہ جماعت خانے سے تین سو خاندان اندرون سندھ ہجرت کر گئے حکومت کی جانب سے قائم کی گئی کمیٹی کاغذی ہے ۔کچھی رابطہ کمیٹی۔،،،،،،

تیسری سرخی بھی چیخ چیخ کر کوئی خاص پیغام دینے کی کوشش کر رہی ہے ۔

’’لیاری میں ڈرگ وار ہو رہی ہے ،،،،اسمگلر اسمبلیوں تک پہنچ گئے ،چیف جسٹس،،،،یہ لوگ ہر حکومت کے پسندیدہ ہوتے ہیں ،،،،اے این ایف کے افسران وردیوں کا خیال بھی نہیں رکھتے،،،اسلحہ اسمگلنگ روکیں تو امن قائم ہوجائے،،،معلوم ہے رقم کہاں خرچ ہوتی ہے ۔چیف جسٹس افتخار چوہدری کا اظہار برہمی،،،،،،،،

پہلے اردو زبان میں ایک محاورہ تھا جن کو ہم اپنے بزرگوں سے سنتے آئے ہیں کہ دل خون کے آنسو رو رہا ہے اب ہم کیا بتائیں کہ کراچی کی عوام اب دل سے بہت آگے جا چکی ہے اب ان کا دل خون کے آنسو نہیں رو رہا بلکہ اب انکا پورا جسم لہو لہو ہے 1947کی ہجرت کا زخم ابھی پوری طرح بھرا نہیں تھا کہ 1971کی ہجرت کرنے پر مجبور کر دیا گیااور اس ملک کے دو ٹکڑے کردئیے گئے حساس قوم دوسری ہجرت کو ہی رورہی تھی کہ اب ہجرتوں کے موسم کو ایک بار پھر عوام پر لادنے کی کوششیں شروع کر دی گئیں اور فلم کی ریلیز سے پہلے بنائے گئے پبلسٹی ٹریلر کی طرح ہجرت ٹریلر کا آغاز کرکے چیک کیا جارہا ہے کہ مقتدر قوتیں اور محب وطن قوتیں کیا ردعمل ظاہر کرتی ہیں اور اب بہت ہی افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ ان چھوٹی چھوٹی ہجرتوں کی شروعات کو کہیں پر بھی سنجیدہ نہیں لیا جا رہا بلکہ اس کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش کی جارہی ہے ۔آج اسی سیاسی رنگ کو’’ لیاری میں دیوار ‘‘کا عنوان دیا گیا ہے کہیں اس کو پاکستانیوں کے درمیان دیوار بنانے کی اور نہائت چھوٹی چھوٹی دیوار (ماضی کے رجواڑوں کی طرز پر)بنانے کا پیغام کس نے کس کو دیا ۔ کون کون اس راز سے پردہ اٹھانے کی پوزیشن میں ہے کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا ۔۔۔۔۔۔
Mukhtar Asim
About the Author: Mukhtar Asim Read More Articles by Mukhtar Asim: 12 Articles with 9199 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.