مسلم شخصیات کے علاوہ سیاسی ،
آمر ، غیر مسلم افراد کے محلات و مزارعات بنانے، سنوارنے کی روش آج سے نہیں
بلکہ صدیوں سے چلی آ رہی ہے۔ قرآن کریم میں متعدد اقوام کے تذکرے میں واضح
طور پر بتا یا گیا کہ اونچے و پختہ عمارتیں قلعے بنانے والے قو م ثمود و
قوم عاد کی تباہی ان کیلئے عبرت کے نشان ہیں۔ لیکن اﷲ تعالی نے کبھی کسی
غیر اﷲ کیلئے توہین آمیز الفاظ کی ادائیگی کی سختی سے معمانعت کرتے ہوئے
کہا ہے کہ "کسی کے خدا کو بُرا مت بو لو تاکہ وہ تمھارے اﷲ کو بُرا نہ
کہیں۔"شام اور برما میں ہزاروں بے گناہ انسانوں کے قتل عام پر کوئی انسانی
حقوق کی تنظیم سراپا احتجاج نہیں ہوئی ۔کسی میڈیا چینل نے اس پر پروگرام
نہیں کئے کہ شامی صدر کی جانب سے پچانوے ہزار معصوم افراد کا دو سال کا قتل
عام انتہائی مذموم فعل ہے۔حضرت خالد بن ولید رضی اﷲ تعالی عنہ کے مزار کی
بے حرمتی پر بھی کسی کی رق مسلمانی نہیں بیدار نہیں ۔ لیکن حضرت زنیبرض کے
مزار پر قابض مسلح حزب اﷲ کی شیعہ ملیشیا کے ساتھ دو بدو جنگ میں مقدس جگہ
کو نقصان پہنچا تو فرقہ پرست تنظیموں نے اپنا سیاسی کردار چمکانے کیلئے ملک
گیر احتجاج کا سلسلہ شروع کردیا ۔ یہی تنظیمیں حضرت خالد بن ولید رضی اﷲ
تعالی عنہ کے مزار اقدس پر حملے و مسمار کئے جانے پر احتجاج بلند کرتیں تو
امت مسلمہ میں اتحاد بین المسلمین کا جذبہ فروغ پاتا لیکن ایسا کسی جانب سے
نہیں ہوا۔ شام میں فرقہ وارانہ خانہ جنگی اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے۔ جسے
لبنان کی حزب اﷲ اور ایران کی جانب سے مکمل افرادی اور جنگی قوت مہیا کی جا
رہی ہے۔ مصر میں فرقہ وارانہ طور پر جمہوری قوت کا تختہ الٹ دئے جانے پر
کسی بھی جمہوری حکومت کی جانب سے مذمت اور ان کا بائیکاٹ نہیں کیا گیا ۔
امریکہ اپنے مقاصد کیلئے سالوں ، سال عراق کو ایران سے فرقے کی بنیاد پر
لڑاتا رہا اور پھر کویت پر حملے کی شہہ دیکر عراق سیقبضہ کرالیا اور مملکت
کو تین حصوں میں تقسیم کردیا۔ لیبا میں فرقہ وارنہ خانہ جنگی میں ہزاروں
انسانوں کے خون سے زمین رنگ گئی۔مصر میں امریکہ کی نا پسندیدہ حکومت کی بنا
ء پر انھیں فوری طور پر فوجی آمریت کا سامنا کرنا پڑا ۔ ایران کی جانب سے
افغانستان اور پاکستان کی جانب سے طالبان کی پشت پنائیوں نے افغانستان کو
بین الاقوامی قوتوں کیلئے ٹریننگ کیمپ بنا دیا ہے۔افغانستان کو سُنی ، شیعہ
اسٹیٹ کی حثییت سے تقسیم کی منصوبہ بندی اب کسی سے پوشیدہ نہیں رہی
ہے۔پاکستان میں فرقہ وارانہ دہشت گردی کے واقعات میں جس طرح دونوں کو لڑانے
کی کوشش کی جا رہی ہے اب اس جنگ کا میدان تورہ بورا سے کراچی تک وسیع ہوگیا
ہے۔گلگت ، کوئٹہ ، ہزارہ برداری ، دیوبند اور بریلوی مکتبہ فکر ،کراچی تا
پشاور اب ایک ایسی فرنٹ لائن بن چکی ہے جو بین الاقوامی قوتوں کیلئے محفوظ
راستے میں آتے ہیں ۔ افغانستان سے شکست کے بعد امریکہ اور نیٹو کی واپسی
کیلئے انھیں پاکستان میں کئی محاذ جنگ سے گذرنا ہوگا جس میں سب سے پہلے
خیبر پختونخوا کی سرحدیں پھر سندھ میں ان کے حتمی پڑاؤ کیلئے کراچی ،
بلوچستان کے راستے کوئٹہ ، چمن اور پھر اس راستے سے کراچی ۔امریکہ اور ان
اکے اتحادیوں کو اب محفوظ راستہ درکار ہے لیکن اب ان کے خلاف کھلی جنگ
افغانستان سے نکل کر پاکستان کے مرکزی شاہراؤں اور شہروں تک پہنچ گئی ہے۔
بھلا لاہور ، فیصل آباد ، سرگودھا ، کشمور، سکھر نواب شاہ جیسے شہروں میں
کیا شیعہ ،سنی کم ہیں جو ان کے درمیان خودکش دہماکے اور حملے نہیں ہوتے ۔
یقینی طور پرمقصد کچھ اور ہے ، کراچی کے باون علاقوں کو طالبان نے اندرونی
و بیرونی کمک سے اپنے کامل اختیار میں کر لیا ہے ۔ محفوظ علاقوں میں چڑیا
بھی پَر نہیں مار سکتی ۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی گاڑیاں تو بہت دور
کی بات ۔ حیلے سے سیکورٹی ایجنسی کا اہلکار لگنے والے یا مخبر کو فوری طور
پر مار دیا جاتا ہے ۔ ذرائع کے مطابق بین الاقوامی قوتیں کراچی میں طالبان
کے سیٹ اپ سے آگاہی حاصل کرنے کیلئے شکیل آفریدی کی طرز پر پولیو مہم چلا
رہی ہے ۔ اس لئے کراچی کے مقبوضہ علاقوں میں ا ورکرز کونشانہ بنانے سے پہلے
تنبیہ کردیتی جاتی ہے لیکن اس کے باوجود جب امریکی نگرانی میں یو ایس ایڈ ،
بلیک واٹر اور فری میسن کے اہلکار معصوم بے روزگار پولیو ورکرز کو آگے
کردیتے ہیں تو ان معصوم ورکرز کو ان امریکیوں اور برطانیوں کی مکروہ پلاننگ
کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھونا پڑتے ہیں۔اگر یہ نام نہاد فلاحی تنظیمیں اور
راک فیلرز کی نگرانی میں چلنے والا عالمی ادارہ صحت اتنا ہی مخلص ہوتا تو
پاکستان بھر میں متعدد ایسے موذی امراض ہیں جن پر قابو پانے کی ضرورت ہے
لیکن سینکڑوں بچے ویکسین نہ ملنے کی وجہ سے مر جاتے ہیں لیکن ان کی کان پر
جوں نہیں رینگتی۔پولیو مہم کی نگرانی بین لااقوامی ادارے بذات خود کر رہے
ہیں اور ان کا فوکس کراچی کے وہ باون علاقے ہیں جہاں ان کے بقول القاعدہ ،
طالبان کے رہنما موجود ہیں۔چونکہ بین الاقوامی اسٹبلشمنٹ کا بیک ایب
پروگرام بھی ساتھ ساتھ چل رہا ہوتا ہے اس لئے اپنے خفیہ پروگرام کے تحت وہ
ملکی استحکام اور بقا کے خلاف ملکی غداروں کے ساتھ ملکر ایسی صورتحال پیدا
کردیتے ہیں کہ ایک امت مسلمہ، گروہ در گروہ میں بٹ جاتی ہے۔ انٹرنشینل
ہیرالڈ ٹرئیبون کی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان میں غیر املکی افواج ے
حوالے سے بعد کے حالات سے نمٹنے کیلئے تیاریاں کی جا رہی ہیں۔تو دوسری جانب
افغان طالبان نے کُنڑ کے علاقے میں فتوی جاری ہوا ہے کہ" افغان شہریوں کا
یہ فرض بنتا ہے کہ افغان فوجیوں اور پولیس والوں پر حملے کریں کیونکہ یہ
کافر ہیں۔"برگیڈ کمانڈر ایک اسکول کی عمارت میں جمع قبائل سے خطاب کے دوران
کہتاہے کہ"آؤ فیصلہ کریں کہ باغیوں کے برعکس ہم فوجی کیا کرتے ہیں۔۔ ہم امن
کے خواہاں ہیں ، ہم پختہ سڑکیں اور بجلی چاہتے ہیں ، لیکن اس کے برعکس باگی
کیا کرتے ہیں وہ سڑکیں برباد کردیتے ہیں اور اسکول تباہ کردیتے ہیں ہماری
مسجدوں میں آکر خودکشی کرتے ہیں اب آپ خود ہی انساف کریں کہ مسلمان کون ہے
؟۔افغان کمانڈر امریکی غلامی اختیار کرتے ہوئے ، افغان سرزمین کی جنگ پر
قابض امریکہ اور برطانیہ کے خلاف جنگ میں مشغول ہیں تو دوسری جانب امریکہ
اور نیٹو افواج اپنے انخلا ء کے بعد اس پروپیگنڈے کے ذریعے افغانستان میں
فرقے کے نام پر خانہ جنگی کرانے کے منصوبے پر تندہی سے مصروف ہے۔ پشاور
کوئٹہ کے ساتھ کراچی میں ایک جنگ امریکی مفادات کے خلاف چھیڑنے کی تیاریان
کی جا رہی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ امریکہ کو محفوظ راستہ دینے کے لئے یہودی نواز
اور چندے سے بننے والی تحریک انصاف کو خیبر پختونخوا میں حکومت سازی ملی ،
اور کراچی میں فرشتوں نے انھیں ووٹ دیکر کراچی بڑی قوت بنانے کیلئے طالبان
مخالف ایم کیو ایم کے مقابل لاکھڑا کردیا۔ تحریک انصاف خیبر پختونخوا میں
اپنی منشور کے مطابق ابھی تک ایک قدم پر آگے نہیں بڑھ سکی ہے لیکن امریکہ
اور برطانیہ کی جانب سے کراچی کو مزید بدا منی کی دلدل میں دھکیلنے کیلئے
تحریک انصاف کے رہنماؤں کے بیانات عکاسی کر رہے ہیں کہ عمران خانصاحب کے
کنڑول میں ان کی پارٹی تک نہیں ہے۔اس لئے ان کے واضح احکامات کی دھجیاں اڑا
دی جاتیں ہیں۔ عمران خان کی تحریک انصاف خیبر پختونخوا سے امریکی و برطانوی
لاؤ لشکر کو محفوظ طریقے سے پنجاب کے حوالے کرے گی اور کراچی کے مقبوضہ
علاقوں میں نیٹو کے ساز و سامان پر جنگ کو روکنے کیلئے فرقہ وارانہ سازش
پایہ تکمیل تک پہنچائے جا رہی ہے۔کراچی ایک نہایت خطرناک میدان جنگ بنتا جا
رہا ہے ، اور بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ اپنے مقاصد کے لئے سب کچھ کرسکتی ہے
اور یہ سب جانتے ہیں۔ |