ایک زمانہ تھا جب فرنگیوں نے
ہندو اور مسلمانوں کو دو حصوں کو تقسیم کردیا تھا۔ یہ فرنگی سیاست تھی جس
کی بنیادہی تقسیم کر و اور حکومت کرو کی بنیاد پر رکھی گئی تھی۔ اور آخر
کار وہ اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہوئے۔ آزادی اپنے ساتھ لہو لہان تقسیم کے
الیہ کو ساتھ لے کر آئی تھی۔ مگر غور کیجئے تو آزادی کی جنگ میں ہندستان سے
نکلنے والے تمام اخبارات ایک سر میں انگریزوں کی مخالفت کررہے تھے۔ اردو،
ہندی کے علاوہ علاقائی زبانوں سے نکلنے والے اخبارات کا لہجہ اورمقصد ایک
ہی تھا۔ سب آزادی کی جنگ میں یکساں طور پر شریک تھے۔ اور مخالفت کے گیت
گارہے تھے۔ مگر آج ایسا نہیں ہے۔ اردو اور غیر اردو اخبارات کی دنیا نہ صرف
بدل چکی ہے— بلکہ غور کیا جائے تو یہ الگ الگ دنیائیں تقسیم سے زیادہ
خوفناک ماحول کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ میرے ایک قریبی دوست نے اس المیہ کی
جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا، اردو اخبارات کا مطالعہ کیجئے تو ایسا لگتا ہے
مسلمانوں سے زیادہ مظلوم قوم اس دنیا میں کوئی نہیں۔ ہندی اخبارات کو پڑھیے
تو اصل فساد کی جڑ مسلمان نظر آتا ہے— غور کیجئے تو ہندی ہی نہیں، زیادہ تر
غیر اردو اخبارات کا مزاج اس مودی راج میں بدلا بدلا نظر آتا ہے۔ کیاہم ایک
بار پھر لاشعوری طور پر تقسیم کی طرف بڑھ رہے ہیں— یہ سچ نہیں ہو تب بھی یہ
کہا جاسکتا ہے کہ اردو اور غیر اردو اخبارات کی الگ الگ فضا نے تقسیم جیسا
ماحول تو پیدا کر ہی دیا ہے— ایک عام سا سوال ہے کہ کیا ہندی اخبارات کو
مسلمانوں کے مسائل سے کوئی لینا دینا نہیں ہے؟ کیا مسلمانوں کی خبریں ان
اخباروں میں سرخیاں تب ہی بنتی ہیں، جب کوئی مسلمان انہیں شک کے گھیرے میں
نظر آتا ہے—جسٹس کاٹجو بھی میڈیا سے بار بار یہ درخواست کرچکے ہیں کہ جب تک
سچائی سامنے نہ آئے آپ فرضی تحریکوں اور نام کا سہارانہ لیں لیکن ایسا لگتا
ہے غیر اردو اخبارات اور میڈیا ایماندارنہ صحافت کا راستہ بھول کر مسلم
دشمنی کا ثبوت دے رہے ہوں۔
اردو صحافت کا چہرہ
اردو صحافت کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ ۲۰۰ سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔
ملک کے گوشے گوشے سے اردو اخبارات نکلتے رہے۔ زیادہ تر اردو اخبارات نے
اپنا دائرہ مسلمانوں تک محدود رکھا۔ اس میں شک نہیں کہ تقسیم ملک کے بعد،
آزادی کے ۶۶۔۶۵ برسوں میں مسلمانوں پر جو گزری، اسے لفظوں میں بیان کرنا
آسان نہیں۔ اب اس بات کو آزادی کے ۶۵ برس بعد بار بار بتانے کی ضرورت بھی
نہیں ہے کہ اردو اخبارات اور قومی یکجہتی کا کیا رشتہ رہا ہے— ہندستان کی
تاریخ مسلمانوں کی قربانیوں اور خدمات سے اچھی طرح واقف ہے— لیکن ہم مسلسل
آزادی کے بعد ۶۵ برسوں میں اس تاریخ کو دہراتے ہوئے کہیں نہ کہیں اپنے عہد
سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ اور شاید اسی لیے مسلمانوں پر مین اسٹریم سے الگ
ہونے کا الزام بھی عاید ہوتا رہا۔ زیادہ تر اردو اخبارات اردو اخبارات کا
فوکس مسلم مسائل پر ہوتا ہے۔ یہ بری بات نہیں ہے۔ کیونکہ اگر اردو اخبارات
بھی مسلم مسائل کو ترجیح نہ دیں تو کون دے گا— غیر اردو اخبارات کا مسخ شدہ
چہرہ تو پہلے ہی سامنے آچکا ہے— لیکن اس رویے نے نہ صرف اردو اخبارات کے
سیکولر ڈھانچے پر سوالیہ نشان لگائے بلکہ مسلمانوں کا وہ طبقہ پید کیا، جو
احساس کمتری کا شکار ہے۔ آزمائشیں ہیں لیکن مسلمانوں کی قیادت کرنے والوں
کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ اس ملک میں ان کی آبادی ۳۰کروڑ سے کم نہیں ہے۔
اور اب تو بھاجپا جیسی پارٹیاں بھی مسلمانوں کو ۲۵ کروڑ بتانے لگی ہیں۔ یہ
بھاجپا جیسی پارٹیوں کی سازش تھی کہ بہانا کوئی بھی ہو، مسلمانوں کو سیکولر
کردار سے الگ رکھا جائے اور ہندستانی مسلمانوں کا مذہبی اور غیر سیکولر
چہرہ ہی دنیا کے سامنے پیش کیا جائے— ہم کل بھی کردار کے غازی تھے اور آج
بھی ہیں۔ ہم کل بھی سیکولر تھے اور آج بھی ہیں۔ اور جو مذہب اس بات کا درس
دیتا ہو کہ کھانے سے پہلے ۴۰ گھر دیکھ لو کہ کوئی بھوکا تو نہیں۔ اس مذہب
کے ماننے والوں کو اپنے سیکولر کردار کے لیے کسی شہادت کی ضرورت نہیں ہے۔
مگر اردو اخبارات اس پس پردہ سازش کو نہیں سمجھ سکے۔ زیادہ تر اخبارات
مسلمانوں کے مسائل کے درپردہ جذباتیت کا شکار ہوتے رہے۔ اور صحافت کو
جذباتیت کا شکار نہیں ہونا چاہئے۔ ہماری جنگ اسی لیے کمزور ہوئی کہ ہم روتے
اور گڑگڑاتے رہے۔ اور ایوان سیاست میں خاموشی رہی۔ ہم خود کے اقلیت ہونے پر
خوش تھے اور اخباروں میں ہم مسلمانوں کا خوفزدہ چہرہ دکھاکر مطمئن ہوجاتے
تھے۔
تقسیم جیسا ماحول
ہم اس بات سے واقف ہیں کہ فسادات اور دہشت گردی کے پس پردہ ہندستانی میڈیا
کہیں نہ کہیں عام مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کررہا ہے۔ فرضی انکاؤنٹرس کے
واقعات پر غیر اردو اخبارات اور میڈیا کی خاموشی ہمیں پاگل کرتی ہے۔ ابھی
حال میں انڈیا ٹوڈے نے ایک سروے میں بتایا کہ ہندستانی مسلمان گھروں میں کم
اور جیلوں میں زیادہ ہیں۔ اتر پردیش میں پچھلے دنوں مسلسل فسادات میں
مسلمانوں کا خون ہوتا رہا۔ لیکن غیر اردو اخبارات خاموش رہے۔ حکومت بے قصور
مسلمان نوجوانوں کو حراست میں لیے جانے کے باوجود اپنی گھناؤنی سیاست میں
مصروف رہی— صرف اردو اخبارات تھے جو ان خبروں کو نمایاں طور پر شائع کررہے
تھے۔ لیکن اگر ان آوازوں کی گونج ایوان سیاست میں نہیں ہوئی تو یہ لمحہ
فکریہ ہے اور اس کے بارے میں غور بھی کرنا ہے۔
غیر اردو اخبارات اور میڈیا کا رول شروع سے مسلم مخالفت کا رہا ہے۔ بنجارہ
کے فرضی انکاؤنٹر پر یہ میڈیا چیختا ہے مگرجب بنجارہ قصور وار ثابت ہوتا ہے
تو یہ میڈیا خاموش ہوجاتا ہے۔ گجرات سے وابستہ خبریں جو مسلمانوں کے حق میں
جاتی ہوں، ایسی خبروں سے ہندی اخبارات کو کوئی واسطہ نہیں ہے۔ خالد مجاہد
کے قتل پر اردو پریس چیختا رہا اور ہندی میڈیا میں یہ خبریں دو دن بھی زینت
نہ بن سکیں۔ انڈین مجاہدین کے فرضی کردار میں بھی میڈیا خاموش رہا۔ افسوس
کا مقام ہے کہ یہ میڈیا گنہگاروں کو بے قصور اور بے قصور کو گہنگار ثابت
کرنے کا کام فراخدلی سے کررہا ہے۔
ہندستان کے اس نئے منظرنامے میں میڈیا اور غیر اردو پریس نے ایک بار پھر
تقسیم جیسی صورتحال پیش کردی ہے۔ کیا اس کے انجام کی حکومت کو فکر ہے؟ |