جب ہم کسی سے ملتے ہیں تو اس کی سب سے پہلے نگاہ ہمارے چہرے پر پڑتی
ہے۔ہمیں دیکھ کر سامنے والے کے چہرے پر جو تاثرات پیدا ہوتے ہیں وہ ہمیں
ہماری جلد کی کیفیت سمجھانے میں معاون ثابت ہوتے ہیں ۔اگر ہماری جلد کھردری
اور داغ دھبوں والی ہو تو احساس کمتری کا شکارہونا ایک فطری عمل ہے ۔ اس
احساس کمتری سے چھٹکارا حاصل کرنا بہت زیادہ مشکل اور مہنگا کام نہیں
‘البتہ اس کے لئے خود کو وقت دینا بہت ضروری ہے۔
سائنس نے آج اتنی ترقی کرلی ہے کہ اگر آپ کے پاس پیسہ ہے تو چہرے کے مسوں‘
داغوں‘ کھرنڈوں‘ ٹشوز کے بد نما رنگوں اور نشانوں کو دور کرنے میں کوئی
دشواری نہیں ہوتی ہے اور جلد کا فطری رنگ روپ بحال ہو جاتا ہے۔ رنگ کی
خرابی اور جلد پر پیدا ہونے داغ دھبوں کی بہت سی وجوہات ہیں جیسے کہ سورج
کی تپش‘ ہارمونز کی خرابی‘ بچے کی پیدائش اورذہنی پریشانی۔
سورج کی تپش سے بچاﺅکے لئے بازار میں درجنوں کریمیں اور لوشنز دستیاب ہیں ۔
َتل کا تیل جلد کو نرم و ملائم بنانے کے لئے بہت مفید ہے ۔ یہ سورج کی
شعاعوں کو جذب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ایک پیالی تلوں کا تیل ‘½پیالی
خالص سرکہ ‘ایک چائے کا چمچہ آئیوڈین اور چند قطرے لیونڈر کا تیل ملاکر
لگائیں۔ 2 حصے سورج مکھی کا تیل اور ایک حصہ لیموں کا رس یا سرکہ ملا کر
بھی لوشن تیار کیا جا سکتا ہے۔ یہ لوشن بہت سے ممالک میں استعمال کیا جاتا
ہے۔ اگر دھوپ کی شدت سے چہرہ جھلس رہا ہو تو کھیرے کو باریک پیس کر لگائیں
اور سبز چائے یا دودھ استعمال کریں۔ اس سے بھی دھوپ کی جلن کو آرام پہنچتا
ہے۔
کیل مہاسے عام طور پر 20 سال کی عمر تک زیادہ نکلتے ہیں ‘تاہم بعض افراد
میں اس سے زیادہ عمر میں بھی رہ سکتے ہیں۔ چہرے کے علاوہ یہ دانے سینے اور
کمر پر بھی نمودارہو سکتے ہیں۔ کیل مہاسوں سے نجات کے لئے کدو کی
چھوٹی‘تازہ پتیوں کا استعمال بہت موثر ہے۔ کدو کی چند پتیوں کو پیس کر لیپ
بنا لیں ۔ اس لیپ کو روزانہ چہرے پر لگائیں اور پھر ½گھنٹے بعد چہرہ
دھولیں۔
سلاد کے پتے بھی چہرے کی خوبصورتی کے لئے بہت مفید ہیں ۔چکنی جلد کی خواتین
کو سلاد کے پتوں کو گلاب کی پتیوں اور لیموں کے جوس کے ساتھ ملا کر پیس
لینا چاہئے ۔یہی لیپ چہرے پر آدھے گھنٹے کے لئے ملنے سے اور پھر پانی اور
صابن سے دھولینے سے چہرے کی چکنائی ‘جو کیل مہاسوں کا باعث ہوتی ہے ‘صاف
ہوجائے گی۔
اخروٹ کامغز پیس کر اسے گہرے داغوں اور چوٹ کے نشانات پر مستقل لگانے سے
رفتہ رفتہ نشانات مٹ جاتے ہیں اور جھائیاں بھی دور ہوجاتی ہیں۔ |