جلتا ہے تو جلتا رہے، اس کے باسی
مرتے ہوں تو مرتے رہیں، انھیں کیا، ان کی جیبیں بھری ہیں اور آگ کی تپش بھی
انھیں چھو نہیں سکتی۔
یہ جلتا شہر میرا ملک پاکستان ہے، وہ لوگ جو آگ بجھا سکتے تھے، مگر انھوں
نے جلتے مکانوں کو جلتا چھوڑا اور خودغرضی کی راہ پر گام زن ہوگئے، ہمارے
سیاست داں ہیں، خطرے کی بو سونگھتے ہی دیارِغیر پرواز کرجانا اور غیرملکی
دوروں پر روانہ ہوجانا جن کا چلن ہے۔
مسائل میں گھرے اور مصائب میں مبتلا پاکستانی عوام آنکھوں میں امید سجائے
سوالیہ نظروں سے حکم رانوں کو تکتے رہتے ہیں کہ ان کے منتخب نمایندے، چاہے
وہ حکومت میں شامل ہوں یا نہ ہوں، ان کی دادرسی کے لیے ضرور آئیں گے۔ لیکن
یہاں تو حال یہ ہے کہ سیکیوریٹی کی آڑ میں وہ زمین اور خاک نشینوں سے اس
قدر دور رہتے ہیں کہ زمین ان کی قدم بوسی کے لیے ترس جاتی ہے۔ یہ کیسا مذاق
ہے اس قوم کے ساتھ کہ اس کے لیڈر خود کو ملک سے باہر محفوظ اور ملک کے اندر
غیرمحفوظ تصور کرتے ہیں۔
ملک کی جَگ ہنسائی ہوتی ہو تو ہواکرے، لیکن ہمارے حکم رانوں کے لیے غیرملکی
سربراہان کی طرف سے اداکیے جانے والے تسلی کے دو جملے بھی بڑی اہمیت رکھتے
ہیں جن میں عالمی میڈیا کے سامنے پاکستان میں امن وامان کی صورت حال پر
اظہارِافسوس کیا جاتا ہے۔
اقوامِ متحدہ میں معصوم بچی اپنی پیاری سی آواز میں خوب صورت انگریزی کے
ساتھ تقریر کرتی نظر آتی ہے۔ اپنے ملک کی اس بہادر بیٹی کی تقریر سن کر ہر
پاکستانی کا سر فخر سے بلند ہوجاتا ہے۔ اس معصوم بچی نے پاکستان میں
سیکیوریٹی کے مسائل، تعلیم کے فقدان، ظلم وزیادتی اور اپنے اوپر ہونے والے
حملے کے بھیانک واقعے کا جس خوب صورت انداز میں تذکرہ کیا، وہ قابلِ ستائش
ہے، لیکن کاش اس بچی کی تقریر لکھنے والوں نے دو لفظ ڈرون حملوں کے خلاف
بھی شامل کردیے ہوتے، تو شاید دنیا بھر کے نمایندگان اقوام متحدہ کے ہال
میں گونجتی اس میٹھی آواز کے توسط سے پاکستان کے شمالی علاقوں میں تقریباً
ہر روز قیامت ڈھانے والے امریکی ڈرون حملوں پر بھی توجہ دیتے، جن کی وجہ سے
کتنے ہی بچے جھلس چکے ہیں اور کتنے ہی گھرانے تباہ ہوگئے ہیں۔
پاکستان کے قبائلی علاقوں کے لوگوں کو امریکی ڈرون حملوں کی وجہ سے
سیکیوریٹی کے مسائل کا سامنا ہے، لیکن ان بے چاروں کے پاس تو وسائل بھی
نہیں کہ وہ خود کو بچانے کی خاطر غیرملکی دورے پر ہی چلے جائیں یا اپنے اور
اپنے ڈرون حملوں سے متاثرہ بچوں کے علاج کے لیے غیرملکی مدد مانگ لیں اور
کسی محفوظ ملک میں سیاسی پناہ حاصل کرلیں۔
مگر صاحب، اس مسئلے پر کیوں بولا جاتا، جس ملک کی قیادت بھی ایسے معاملات
پر سرگوشیوں میں احتجاج کرے اور چیخ چیخ کر اپنے ملک کو درپیش سیکیوریٹی کے
خطرات کا رونا روئے۔
یہ سوچ کر عقل دنگ ہے کہ ہمارے سیاست داں تو وزیرستان میں نہیں رہتے کہ کسی
بھی وقت ڈرون حملے کا خوف ہو، پھر وہ ملک سے باہر کیوں؟
غیرملکی دورے کرنا حکومتی ذمے داریوں میں شامل ہے اور بعض اوقات یہ دورے
سیاست کی بھی ضرورت قرار پاتے ہیں، لیکن ہمارے یہاں تو یہ دورے اہل سیاست
کے روزمرہ کا حصہ ہیں۔ علاج کروانا ہے تو بیرون ملک روانہ، اپنے دیس میں
گرمی بڑھی تو ٹھنڈے ملکوں کی طرف سدھار گئے، ملک میں ذرا حالات خراب ہوئے
اور ہمارے سیاست دانوں نے یورپ اور امریکا کی راہ لی۔ کوئی مستقل کسی اور
ملک کو اپنی جائے سکونت بنالیتا ہے، تو کوئی برے وقتوں کے ماہ وسال پردیس
میں گزار دیتا ہے۔
یہ سطور لکھے جانے کے وقت بھی کئی سیاسی شخصیات لندن میں ڈیرے جمائے ہوئے
ہیں۔
ہمارے سیاست دانوں کے لیے پردیس جائے امان کی حیثیت رکھتا ہے۔ کسی نے وہاں
مستقل رہائش گاہیں بنا رکھی ہیں، تو کوئی شہریت حاصل کرکے اپنا مستقبل
’’محفوظ‘‘ بنا چکا ہے تو کسی کا کاروبار بیرون ملک وسعت پذیر ہے۔ اور جہاں
تک اکاؤنٹس کا تعلق ہے تو پاکستان کے کم ہی سیاست داں ہوں گے جن کا پیسہ
سوئس بینکوں سمیت دیگر ممالک کے بینکوں میں محفوظ نہ ہو، ان کے بچے بیرون
ملک تعلیم حاصل کرتے اور وہیں مستقبل سنوارتے ہیں۔
یہ ہماری سیاسی جماعتوں کے راہ نما ہیں، جو ہماری پارلیمنٹ میں منتخب ہوکر
ہماری قسمت کے فیصلے کرتے ہیں، بہ طور حکم راں ان کے ہاتھ میں ہمارا حال
اور مستقبل ہوتا ہے، یہ ہمارے ملک کے کرتا دھرتا ہیں، مگر یہ اپنی سرزمین
پر اور اپنے عوام میں خود کو غیرمحفوظ سمجھتے ہیں، حالاں کہ اس ملک کو
محفوظ بنانا ان ہی کا کام ہے۔ کیسی دل ہلادینے والی حقیقت ہے، ہمارے ملک کے
کرتا دھرتا وہ لوگ ہیں جن کے مفادات اور وفاداریاں پاکستان اور کسی اور ملک
میں بٹی ہوئی ہیں، جو اپنا اور اپنے خاندانوں کا مستقبل اس خدشے کی بنا پر
بیرون ملک محفوظ بنا چکے ہیں کہ نہ جانے اس ملک کا کیا حال ہونا ہے۔ ہم
پاکستانیوں کی قسمت کے فیصلے کرنے والے ادھورے پاکستانی ہیں، کتنی خوف ناک
حقیقت ہے۔ |