پاکستان کی مذہبی جماعتوں کا سیاسی اتحاد ”متحدہ مجلس عمل“
ہر اس پاکستانی مسلمان کے لیے امُید افزاء تھا جو امُت مسلمہ میں اتحاد
واتفاق دیکھنے کی تمنا رکھتا ہے۔ اسی اُمنگ کے ساتھ میں بھی مجلس عمل کے
پلیٹ فارم سے ایک عام کارکن کی حیثیت سے متحرک تھی۔ بلدیاتی انتخابات میں،
میں مجلس عمل کے پولنگ ایجنٹ کے فرائض انجام دے رہی تھی۔ انتخابی عمل کی
شروعات سے پولنگ کے دن تک مختلف مسالک کی جماعتوں کے راہ نماؤں اور کارکنان
کو شانے سے شانہ ملائے مہم چلاتے اور مجلس عمل کی کام یابی کے لیے سرگرم
دیکھنا میرے لیے ایک خوش کُن نظاہ تھا، مگر مجلس عمل کے قائدین کی بابت ایک
خیال بار بار دل کو بے کل کردیتا تھا،”یہ علماء جو ایک دوسرے کے پیچھے نماز
پڑھنے پر راضی نہیں ہوتے، اگر برسراقتدار آگئے تو ہم آہنگی کے ساتھ ملک کا
نظام کیسے چلا پائیں گے۔“
سیاست اور مذہب کو الگ خانوں میں رکھنے والوں کے لیے یہ سوال اور خیال
اہمیت نہ رکھتا ہو، مگر سیاست کو دین کا جزو سمجھنے والا کوئی شخص اس کی
اہمیت سے انکار نہیں کرسکتا۔ نماز محض ایک عبادت نہیں، یہ مسلمانوں کے لیے
زندگی کے میدان کی تربیت بھی ہے۔ مکمل ہم آہنگی، کندھے سے کندھا ملاکر کھڑے
ہونا، نظم وضبط، ایک امام کی اقتدا میں نیت باندھنے سے سلام پھیرنے تک امام
کی پیروی....یہ سب عملی زندگی میں امت کو یک جان رکھنے ہی کی تربیت ہے، مگر
ہم نے اس تربیت گاہ کو ہی فرقہ وارانہ بنیاد پر تقسیم کرلیا ہے۔ اس تقسیم
کا ایک خوف ناک نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہمارے ہاں اکثر مساجد امت میں یک جائی
پیدا کرنے کے مراکز کے بجائے مسالک اور فرقوں کا مرکز بن چکی ہیں۔
بعض حضرات افسوس کرتے اور شکوہ کُناں نظر آتے ہیں کہ آج کے پاکستانی مسلمان
دین سے دور ہوگئے ہیں یا ان پر محراب ومنبر کے وہ اثرات نہیں رہے جو پہلے
تھے۔ ایسا نہیں ہے۔ آج بھی پاکستان کے مسلمان دل وجان سے مذہب کی طرف مائل
ہیں۔ مسجد کے میناروں سے ابھرتی آواز اور مسند سے ملنے والا درس انھیں
متاثر کرتا ہے۔ اب یہ اس آواز اور درس پر ہے کہ وہ اپنا کیا تاثر قائم کر
رہے ہیں۔ اکثر مسجد میں قدم رکھتے ہی نمازیوں کو اختلافی مسائل پر
انتہاپسندانہ رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ”ایسا کرو“،”ایسا نہ کرو“ کا
حکمیہ لہجہ خصوصاً نوجوانوں کو مسجد اور نماز سے دور کردیتا ہے۔ اگر محراب
ومنبر کو صحیح طرح استعمال کیا جائے تو نہ صرف فرقہ واریت کے مسئلے سے نجات
پائی جاسکتی ہے بل کہ اخلاقی تربیت اور تزکیہ کا کام بھی بہ خوبی کیا
جاسکتا ہے۔
لیکن المیہ یہ ہے کہ ہم رفع یدین کرنے یا نہ کرنے اور تراویح کی رکعتوں کی
تعداد پر اختلاف کو بنیاد بناتے ہوئے ایک دوسرے کو اسلام سے خارج کردیتے
ہیں۔ فقہی اختلافات اور ایسے معاملات جن کا اسلام کی عملی زندگی سے کوئی
واسطہ نہیں، کی بنا پر ایک دوسرے کو کافر قرار دے دیا جاتا اور مختلف مسالک
سے وابستہ لوگ ایک دوسرے کی جان کے درپے ہوجاتاہے۔
مساجد کی ملکیت اور گلی محلوں میں ہونے والی سرپھٹول سے بڑھ کر اب فرقہ
واریت امت مسلمہ کے لیے ماضی کے مقابلے میں کہیں خوف ناک ہوچکی ہے۔ فرقہ
واریت کو اسلام دشمن قوتیں اپنے ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہیں۔ اس
ہتھیار کو استعمال کرتے ہوئے سیدھی سادی سیاسی اور جمہوری تحریک یا غیرملکی
طاقت کے غلبے کے خلاف جدوجہد کو فرقہ وارانہ رنگ دے دیا جاتا ہے۔ یہی کچھ
عراق میں ہوا اور یہی شام میں ہورہا ہے۔ شام میں بشار حکومت کے ہاتھوں
معصوم عوام کا قتل عام ہو یا پاکستان میں انتہاپسندوں کی وحشیانہ
کارروائیوں میں ہزارہ کمیونٹی سمیت اہل تشیع افراد کی جانوں کا ضیاع، یہ سب
یکساں طور پر قابل مذمت ہے۔ شام کی سرزمین پر صحابی رسولؐؐ، نبی کریم ﷺ سے
سیف اللہ کا لقب پانے والے سیدنا خالد بن ولیدؓ کے مزار پر شیلنگ ہو یا
مزاحمت کی علامت بی بی زینبؓ کے مزار پر راکٹوں سے حملہ، یہ مکروہ افعال
پوری امت مسلمہ کے دل کو خون رلاگئے، کہ یہ سب کرنے والے غیر نہیں اپنے
ہیں۔ مگر ایسے واقعات پر بھی ہم فرقہ وارانہ لائنوں میں بٹے نظر آتے ہیں۔
اگر ہمارا یہ چلن برقرار رہا تو یہودونصاریٰ کو ہمارے خلاف کچھ کرنے کی
ضرورت نہیں پڑے گی، ہم اپنے ہاتھوں خود مٹ جائیں گے۔
فرقہ واریت کس طرح ہمارے قلب و نظر کو متاثر کرچکی ہے، اس کا اندازہ مجھے
گذشتہ دنوں اس وقت ہوا جب خانہ جنگی کے شکار ایک ملک میں ہونے والے مظالم
کے بارے میں میرا کالم شایع ہوا، جس پر ای میلز اور فیس بُک پر کمنسٹس کی
صورت میں آنے والا بعض لوگوں کا ردعمل یہ ظاہر کر رہا تھا کہ انھوں نے اس
تحریر کو فرقہ وارانہ تناظر میں دیکھا اور پرکھا ہے۔
اس سب سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ فرقہ واریت امت مسلمہ کے لیے خطرناک ترین
مسئلہ بنتی جارہی ہے۔ تاہم، صورت حال مایوس کُن نہیں، آج بھی پاکستان میں
مسلمانوں کی اکثریت فرقہ پرستی کے خلاف ہے، جو اپنے مسلک پر قائم رہتے ہوئے
دوسرے مسالک کے احترام کا رجحان رکھتی ہے۔ بس محراب ومنبر سے فرقہ واریت کے
خلاف، فقہی اختلافات کی روح کو سمجھنے اور برداشت کا درس دیتی آوازیں ایک
آہنگ میں اٹھنے لگیں تو فرقہ پرست مات کھاجائیں گے۔ اور اگر مساجد کے
دروازے پر مسلکوں کے نام کندہ ہونے کے بہ جائے ان میں تمام مسالک کے مسلمان
ایک ہی صف میں کھڑے ہونے لگیں، تو فرقوں کے نام پر جنگ وجدال کرنے والوں کو
ناکامی کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔
اور آج کے مایوس کُن حالات میں بھی دین اور امت مسلمہ کا درد رکھنے والے
کچھ لوگ اس خواب کو تعبیر دینے کے لیے کوشاں ہیں۔ اسلام آباد کے ایک تاجر
زاہد اقبال بھی ان میں سے ایک ہیں۔ ایک چینل کی خبر کے مطابق زاہد اقبال نے
وفاقی دارالحکومت کے علاقے ای الیون میں مقامی لوگوں کی مدد سے ایک مسجد
تعمیر کی ہے، جہاں تمام مسالک کے مسلمان ایک ہی امام کے پیچھے نماز ادا
کرتے ہیں۔ اس مسجد کی پیشانی پر نہ کسی مسلک کی چھاپ ہے نہ کسی فرقے کا
نشان۔ مسجدِ قرطبہ کے نام سے بنائے جانے والے اللہ کے اس گھر کے امام قاری
جہانگیر اور خطیب زاہد اقبال الگ الگ مسالک سے تعلق رکھتے ہیں۔ خطبہئ جمعہ
اور دیگر نمازوں کے خطبوں میں لوگوں کو فرقہ واریت کے خاتمے اور اتحاد کی
تلقین کی جاتی ہے۔ مسجد کے تہہ خانے میں ایک لائبریری بھی بنائی گئی ہے، جس
میں تین کروڑ روپے مالیت کی کتابیں رکھی گئی ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ اس مسجد
کی تعمیر کے لیے جب زاہد اقبال صاحب نے کوششیں شروع کیں تو اسلام آباد کی
انتظامیہ سے انھیں یہ ہمت شکن جواب ملا کہ ”فرقہ واریت سے پاک کوئی مسجد
سرکاری کھاتے میں رجسٹر نہیں ہوسکتی۔“ چناں چہ زاہد اقبال کو قانونی
موشگافیوں کا سہارا لیتے ہوئے پہلے الکتاب ٹرسٹ قائم کرنا پڑا جس کے تحت
مسجد قرطبہ قائم ہوئی اور اس کا اندراج ہوا۔
کاش ایسی کوششیں ملک کے ہر شہر ہر محلے میں ہوں۔ جگہ جگہ ایسی مساجد قائم
ہوں جن کی بنیاد تقویٰ اور مسلمانوں میں اتحاد کی آرزو پر رکھی گئی ہو، نہ
کہ کسی فرقے اور مسلک پر۔ یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی۔ |