مغربی میڈیا نے عالم عرب میں قاہرہ سے لیکر تیونس تک
لیبیا سے عراق اوربحرین تک سونامی کے روپ نازل ہونے والے انقلابات کو جس
میں بادشاہوں اور تخت نشینوں کی شہنشاہیت کے ناقابل عبور قلعے خش و خاک کی
طرح بہہ گئے نے عرب بہار کا نام دیا مگر قائرو کا التحریر اسکوائر چیخ چیخ
کر خزاں کی دہائی دے رہا تھا تاہم جذبات میں مغلوب انقلابیوں نے تحریر
سکوائر کی بازگشت پر کوئی توجہ نہ دی مگر سچ تو یہ ہے کہ تحریر سکوائر کی
صدا بلکل درست ثابت ہوئی۔یہ وہی التحریر اسکوائر ہے جس کے ارد گرد لاکھوں
مصری باشندوں نے لازوال قربانیوں کے میلے جما کر حسنی مبارک کو نہ صرف
اقتدار کے ایوانوں سے نکال باہر پھینکا بلکہ یہود و ہنود کے لئے عالم عرب
میں فرنٹ لائنر سپورٹر سمجھے جانیوالے مصر میں الیکشن منعقد ہوا جس میں
عالم اسلام کی ایک عہد ساز ہستی مرصی کو ریاستی حکومت کی باگ ڈور
تھمادی۔مرصی کی جیت پر عالم اسلام میں خوشیوں کے دھمال ڈالے گئے مگر
التحریر سکوائر بدستور مضطرب تھا کیونکہ اسکی کیمرے والی انکھوں میں اسلامی
سلطنت عثمانیوں کے دور خلافت کے عروج و زوال کی تاریخ مقید تھی۔التحریر
سکوائر نے ماضی کے تجربات اسلامی خلافت کی شیرازہ بندی کے حوادث امت مسلمہ
کی گروہی افراط و تفریط کی ہسٹری سے نتیجہ اخذ کررکھا تھا کہ بہت جلد عرب
دنیا میں امریکی سامراج کے پے رول پر پلنے والے شہنشہاہ انٹیلیجینس
ایجنسیاں اور فورسز میں امریکہ کو اقا و ملجی ماننے والے جرنیلوں کی ریشہ
دوانیوں کا ایسا بھیانک کھیل کھیلا جائے گا ڈاکٹر مرصی حکومت کے قیام حسنی
مبارک ٹولے سے جان چھڑوانے کی خاطر تاریخ ساز قربانیاں دینے والے انقلابی
دوبارہ امریت کے حق میں ہر سویعنی التحریر اسکوائر کے ارد گرد جمع ہونگے۔
التحریر چوک پر اس وقت شرمندگی کا دورہ چھا گیا جب صدر کے مخالفین نے اپنے
دھرنوں میں شریک کار عورتوں اور غیر ملکی مبصرین خواتین کو جنسی تشدد کا
نشانہ بنا ڈالہ۔ سو سے زائد لڑکیاں ریپ کی وحشت میں عزت سادات لٹوابیٹھیں۔
دکھ تو یہ ہے کہ تقدیس نسواں کی خاطر بنی ہوئی ارگنائزیشنز نے چپ سادھ رکھی
ہے۔ اسلامی حکومت کو تاراج کرنے والے صہیونی ارمی چیف ابوالفتاح الیسی اور
امریکی انکھوں کا تارہ بنے ہوئے جنرل البرادی نے نہ تو مظلوم لڑکیوں کے سر
پر دست حنائی رر نہ ہی انکے ساتھ افسوس کیا ۔مصر میں 70سال بعد ہونے والے
الیکشن انکل سام اور مغرب کا ٹیسٹ موڈ تھے۔ اخوان المسلمین نے کامیابی حاصل
کرکے مغرب پر واضح کردیا تھا کہ مصری مسلمان اسلامی تعلیمات کی روشنی میں
ایک طرف زندگی گزارنے کے خواہاں تھے تو دوسری جانب وہ ایسی حکومت کے قیام
کے لئے لرزاں ترساں تھے جسکی بنیادیں دین اسلام کی چاشنی پر استوار ہوں۔
اگر امریکی خوشہ چین جرنیل جمہوری حکومت پر شب خون نہ مارتے تو دو سال بعد
عرب اور اسرائیل1948 والی پوزیشن پر اجاتے۔ مجاہدین نے1948 میں اسرائیلی
طیارے کو صحرائے سیسنا میں تباہ کرڈالہ تھا اور یہ وہی لڑائی تھی جسے ہسڑی
کی کتب میں پہلی عرب اسرائیل جنگ کا نام دیا گیا ہے۔ عرب اسرائیل جنگوں کا
سلسلہ اج بھی جاری ہے۔ امریکی جنبش پر مصری افواج نے نہ صرف کھلم کھلا
دستور شکنی کی اور منتخب حکومت کا دھڑن تختہ کردیا مگر جمہوریت کے خود
ساختہ چمپین بننے والے سرکاری اور غیر سرکاری اداروں این جی اوز ہیومن
رائٹس کمیشن اور عالمی تنظیموں uno نے جمہوریت پر شب خون مارنے ایسے سنگین
گھناوئنے عمل پر ایک شعبدتک زبان سے نہیں اگلا۔اسلام پسندوں کی حکومت کے
خاتمے کے لئے ایک طرف صدر مرصی مردہ باد کے نعرے فضاوں میں گونج رہے تھے تو
دوسری جانب اپنے ہم خیال احتجاجی لڑکیوں کی چیخ و پکار شور و غل غپاڑہ میں
گم ہوگئیں۔ ٹیلی گراف کے مطابق یہ لڑکیاں اپنے والدین بھائیوں رشتہ داروں
سے چھپ کر انسو بہارہی تھیں۔صدرمرصی کی غلطیوں میں سے ایک یہ تھی کہ ملک کی
90فیصد ابادی جس میں عیسائی یہودی شامل تھے جو مغرب کی حیا بافتہ تہذیب سے
تنگ تھے کے مطالبات پر نائٹ کلبوں سرعام بوس و کنار شراب کی فراوانی پر
پابندی عائد کرنے کی ہے۔شرم الشیخ میں عورتوں کی خرید فروخت کے قائم سنٹرز
اور جسم فروشی کے اڈوں کو ختم کردیا گیا۔مغربی تہذیب کے دلدادہ مادر پدر
ازاد اور مذہب بیزارعیاش لوگوں کو ایسے اسلامی اقدامات وارے نہ تھے۔ میکدوں
قحبہ خانوں اور جنسی فحاشی کے سنٹرز کو بند کیا گیا۔ مغربی جمہوریت میں
نائٹ کلبوں ہم جنس پرستی شراب و کباب کے بغیر زندگی نامکمل سمجھی جاتی ہے۔
یہ تاریخی حقیقت ہے کہ مرصی نے میکدوں قحبہ خانوں جوئے کے اڈوں کو ختم کرکے
اپنی گو شمالی کا انتظام کردیا تھا۔ ملا عمر نے جنسی ہم پرستی اور پوست کی
کاشت پر پابندی عا ئد کی تھی۔مرصی اور ملاعمر کے اقدامات مغرب کے کارپوریٹ
کلچر کے گلے میں پھانس کی طرح اٹک گئے تھے۔انگلش ٹائمز ان لائن نے تبصرہ
کیا کہ ہم جنسیت پر پابندی ملا عمر کو مہنگی پڑی جبکہ جسم فروشی پر پابندی
مرصی کے لئے ناقابل معافی جرم بن گئی۔مرصی سرکار نے بھی کئی غلطیاں کیں۔imf
کے دباو تلے سبسیڈیز کا خاتمہ کیا۔ تباہ حال معیشت کو نئے سرے سے بحالی کی
خاطر کڑوے اقدامات لازم تھے مہنگائی بیروزگاری زخیرہ اندوزی میں اضافہ ہوا
جس سے عوام کو مایوسی و نراسیت نے گھیر لیا۔ائین منظور کروانے کے بعد
مفاہمتی عمل سے گریز نے میڈیا کو الزامات تراشی کا موقع فراہم کردیا مگر سچ
تو یہ ہے کہ مرصی حکومت دیگر وجوہات کی بنا پر برطرف ہوئی۔مصر مڈل ایسٹ کا
واحد ملک تھا جس کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم تھے۔یہ کہنا غلط نہ
ہوگا کہ عالم عرب میں مصر حسنی مبارک دور میں یہودیوں کا فرنٹ لائن سپورٹر
تھا۔ صدر مرصی نے مغرب کی اسلام متصادم تہذیب کو روکنے کے لئے جہاں کئی
بولڈ فیصلے کئے تو وہاں اسلامی تعلیمات کے بطن سے پیدا ہونے والی اسلامی یا
مشرقی تہذیب کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔ائین میں حرمت رسول کی شق شامل
کروانا گستاخ رسول کے لئے سخت سزاوں کا اعلان اسرائیل کی جانب سے کی جانے
والی فلسطینی اتھارٹی کی معاشی ناکہ بندی کے خلاف اقدامات قاہرہ سے انتہائی
کم ریٹس پر اسرائیل کو دی جانیوالی گیس کی قیمتوں میں اضافہ اور مرصی کی
تہران میں منعقد ہونے والی غیرجانبدار تحریک میں شرکت نے استعماری ایوانوں
میں ہلچل مچادی۔امریکہ اور یورپ کو یہ خدشہ لاحق ہوگیا کہ مرصی کیمپ ڈیوڈ
معاہدے سے انحراف کررہے ہیں۔مصری افواج کو یہ ڈر ستانے لگا کہ کہیں ہر سال
ملنے والی ڈیڈھ ارب ڈالر کی امریکی امداد انکے کشگول کو خالی نہ کردے۔
امریکہ نے 21 ویں صدی کے اغاز پر کہا تھا کہ اب دنیا کے کسی کونے میں امریت
قبول نہیں۔ امریکیوں نے اپنے صہیونی لبرل جرنیل الفتاح الیسی کو استعمال
کرکے مصر کی جمہوری حکومت کا تیاپانچہ کروادیا۔یوں امریکہ نے اپنی جمہور
پروری کی قلعی کھول دی۔اب سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مصر میں پولیٹکل
اسلام ناکام ہوا جیسا کہ مغربی میڈیا ہوائیاں اڑا رہا ہے۔ اس کے متعلق کچھ
کہنا قبل از وقت ہوگا تاہم اس سے امت مسلمہ اور خطے کی جمہوری ریاستوں میں
خطرے کی گھنٹی بج رہی ہے کہ اگر کسی مسلمان حکمران نے اپنی خود مختیاری پر
اصرار کیا عوامی جذبات و احساسات یا اپنے عقیدے یا نظرئیے کی پاسداری کا
ایشو کھڑا کیاامریکی الہ کار فورسز کی ڈکٹیشن لینے سے انکار کیا یا امریکی
اور اسرائیلی مفادات کے تحفظ میں کوئی کسر چھوڑی تو نتیجہ برطرفی کی صورت
میں نکلے گا۔بعض دینی جماعتوں نے مرصی پر دشنام طرازی کہ وہ لبرل ازم کے
دلدادہ بنکر امریکہ کی گود میں جا بیٹھے۔زاہد تنگ نظر نے مجھے کافر جانا
اور کافر یہ غوغہ ارائی سمجھتا ہے کہ میں مسلمان ہوں۔ امریکہ انگلیوں و
ڈگڈگیوں کے اشارے پر ناچنے والے جنرل الفتاح الیسی نے امت مسلمہ کے ساتھ
بدعہدی کی۔ جنرل الفتاح الیسی دور حاظر کا وہ غدار اعظم ہے جس نے ہوس
اقتدار میں جمہوری حکومت پر امریت کی شب دیجور مسلط کرکے گریٹر اسرائیل کی
راہ ہموار کردی ہے۔مرصی کی غیر ائینی برطرفی پر عالم اسلام میں سامراجیوں
کے خلاف غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ سعودی عرب اور عالم عرب کے کے کئی بادشاہوں
نے ڈکٹیٹر سپہ سالار کو خوش امدید کہہ دیا۔الجزائر اور فلسطین کے بعد مصر
تیسرا ملک ہے جہاں یہود و ہنود نے اپنی الہ کار فوج عدلیہ وائٹ ہاوس کے
ٹکڑوں پر پلنے والی دینی و سیاسی جماعتوں کی نوازشات سے مرصی کی جمہوری
حکومت کو زبح کردیا۔ امت مسلمہ کو فوری طور پر oicکی ہنگامی میٹنگ میں صدر
مرصی کی غیر ائینی برخواستگی پر امریکہ سے احتجاج کرنا چاہیے۔مسلم حکمرانوں
کو سوچنا چاہیے کہ کب تک وہ امریکی ایجنٹ کا کردار ادا کریں گے مصر کا
التحریر اسکوائر چیخ چیخ کر مسلم بادشاہوں اور امت مسلمہ کے ضمیروں کو
جھنجوڑھ رہا ہے۔ التحریر سکوائر انتہائی غمگین دل گیر اور ماتم کناں ہے۔
التحریر چوک سوالیہ نظروں سے پوچھ رہا ہے کہ کیا فرعونوں کی زمین پر سامراج
پٹھو اور عوام دشمن ڈکٹیٹرز ہی تخت نشین ہوتے رہیں گے؟ التحریر چوک نے جنرل
الفتاح الیسی کو مصر کے فرعونوں کے انجام کی طرح تازیانہ عبرت بن جانے کی
پشین گوئی کردی ہے۔ |