وہ دِماغ ہی نہ رہا

اسپتال میں تو ہنگامہ کھڑا ہوگیا۔

رحمانی صاحب کی طبیعت اچانک خراب ہوئی تھی۔ نہیں نہیں، آپ یہ نہ سمجھیں کہ اُن کی طبیعت خراب ہونے سے اسپتال میں ہنگامہ برپا ہوا! ایسی کوئی بات نہیں۔ رحمانی کے سَر میں اچانک شدید درد اُٹھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ بستر پر لُڑھک گئے۔ اُنہیں اِس حال میں دیکھ کر اہلِ خانہ کی حالت بھی غیر ہوگئی۔ فوراً ایمبولینس منگواکر رحمانی صاحب کو اسپتال منتقل کیا گیا۔

اسپتال پہنچنے پر بھی رحمانی صاحب ماہیٔ بے آب کے مانند تڑپ رہے تھے۔ ڈاکٹرز نے فوراً چیک اپ کیا۔ مگر اُن کی سمجھ میں فوری طور پر کچھ نہ آسکا۔ تکلیف تھی کہ کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ طے پایا کہ سَر کا ایکس رے لیا جائے۔ رحمانی صاحب کو ایکس رے تھیٹر لے جایا گیا۔

کچھ دیر بعد ایکس رے کا نتیجہ سامنے آیا تو ٹیکنیشین پریشان ہوگیا۔ ایکس رے شیٹ پر کچھ بھی نہ تھا۔ شاید کوئی ٹیکنیکل فالٹ آگیا تھا۔

ایکس رے دوبارہ لیا گیا۔ دوسری بار بھی ایکس رے شیٹ خالی ہی رہی۔ ڈاکٹرز بھی پریشان دِکھائی دیئے۔ ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ شیٹ سادہ نکل آئے؟ اب تو ایکس رے ٹیکنیشین کو فکر لاحق ہوئی کہ کہیں ایکس رے مشین نے کام کرنا تو نہیں چھوڑ دیا۔ اس دوران ایک اور مریض کی پسلیوں کا ایکس رے لیا گیا جو بالکل درست آیا۔ اس کے بعد رحمانی صاحب کو تیسری بار بلاکر سَر کا ایکس رے لیا گیا۔ اِس بار بھی ایکس رے شیٹ سادہ ہی رہی!

ڈاکٹرز کے غُصّے کی کوئی حد نہ رہی۔ وہ ایکس رے ٹیکنیشین پر برس پڑے۔ ایک سینئر ڈاکٹر نے کہا۔ ’’تم کیا ایکس رے کے ریزلٹ سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہو کہ اِس مریض کا دِماغ نہیں ہے؟‘‘

ایکس رے ٹیکنیشین بے چارا سہم گیا۔ کیا کہتا؟ مشین رحمانی صاحب کے معاملے میں کام نہیں کر رہی تھی اور سُبکی کا سامنا اُسے کرنا پڑ رہا تھا۔ مگر پھر تقدیر کو اُس پر رحم آگیا۔ رحمانی صاحب کے ایک دوست اسپتال پہنچے۔ جب اُنہیں معلوم ہوا کہ تین بار ایکس رے لینے پر بھی شیٹ سادہ رہی ہے تو اُنہوں نے ڈاکٹرز کو بتایا کہ مشین خراب ہے نہ ایکس رے ٹیکنیشین نا اہل ہے۔ بات یہ ہے کہ رحمانی صاحب …… کمرشل رائٹر ہیں! اخبار، ڈائجسٹ، ریڈیو اور ٹی وی کے لیے لِکھتے لِکھتے اب اُن کا دِماغ غائب ہوچکا ہے!

ڈاکٹرز یہ سُن کر حیران رہ گئے۔ اُنہوں نے استفسار کیا۔ ’’ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ کوئی دماغ کے بغیر زندہ بھی رہے اور لِکھتا بھی رہے؟‘‘

رحمانی صاحب کے دوست نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’اگر رحمانی صاحب کا دِماغ نہیں ہے تو اِس میں حیرت کی کیا بات ہے؟ ایک اُن پر کیا موقوف ہے، یہاں تو پوری کی پوری قوم دِماغ کے بغیر یا دِماغ کو ہلائے بغیر جی رہی ہے۔ بہت سے کمرشل رائٹرز کا دِماغ ہوتا تو ہے مگر دِکھائی نہیں دیتا۔ سچ تو یہ ہے کہ دِماغ کو زحمت دیئے بغیر وہ زیادہ موثر لِکھتے ہیں اور اِس طور لِکھنے کا معاوضہ بھی زیادہ ملتا ہے! بالخصوص اشتہارات کے لیے جِنگلز لِکھنے کا۔‘‘

ہم نے مرزا تنقید بیگ کو جب رحمانی صاحب کا کیس سُنایا تو وہ ذرا بھی حیران نہ ہوئے۔ اِس پر ہمیں بھی حیرت نہ ہوئی۔ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ دِماغ کے بغیر کام کرنے والوں میں مرزا بھی شامل ہیں! ہم نے اُن کے سازِ گفتار کے تار چھیڑنے کے لیے رحمانی صاحب کی بے دِماغی کا ذکر کیا تھا! مقصود یہ تھا کہ مرزا ہمیں (اور ہمارے توسط سے ہمارے محترم قارئین کو) بتائیں کہ دِماغ کے بغیر کام کِس طور کیا جاتا ہے اور اِس کے کیا فوائد ہیں۔

مرزا ہمارا مُدّعا سمجھ گئے۔ پہلی ہی کِک میں اسٹارٹ ہوتے ہوئے بولے۔ ’’دِماغ کا استعمال کام کو بگاڑ دیا کرتا ہے۔ تمہیں یاد ہوگا شیخ ابراہیم ذوقؔ نے کہا تھا ؂
اے ذوقؔ! تَکَلّف میں ہے تکلیف سراسر
آرام سے ہیں وہ جو تَکَلّف نہیں کرتے!

دِماغ کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ وہ لوگ آرام سے ہیں جو دِماغ کو تکلیف نہیں دیتے۔ ہم خوش نصیب ہیں کہ دِماغ کا استعمال ترک کرنے والی سرزمین پر آباد ہیں! ویسے یہ کوئی بالکل نیا تجربہ نہیں۔ ذرا یاد کرو۔ غالبؔ نے کہا تھا ع
دِل تو دِل، وہ دماغ بھی نہ رہا!
اور غالبؔ کے پاس تو ہنسنے کے لیے بھی دِماغ نہیں تھا۔ ع
مُجھے دِماغ نہیں خندہ ہائے بے جا کا!

پس ثابت ہوا غالبؔ کے دور تک دِماغ تقریباً متروک ہوچکا تھا۔ اب اگر غالبؔ کے اشعار ہمارے دِماغوں میں آسانی سے داخل نہیں ہوتے تو اِس میں حیرت کی کیا بات ہے؟ بے دِماغی کی حالت میں کہے ہوئے اشعار کو سمجھنے کے لیے بے دِماغی لازم ہے!‘‘

ہم نے تو سوچا بھی نہ تھا کہ مرزا بے دِماغی کی حالت میں خاصا طویل زمانی فاصلہ طرتے ہوئے غالبؔ کی دُنیا میں جا گُھسیں گے! خیر، جب دِماغ کو زحمتِ کار نہ دی جائے تو انسان کچھ بھی کرسکتا ہے۔

باقاعدگی سے ٹی وی دیکھتے رہیے، کچھ ہی دنوں میں آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ دِماغ کو زیادہ استعمال کئے بغیر کِس طرح اور زیادہ آسانی سے زندہ رہا جاسکتا ہے! ٹی وی چینلز پر کام کرنے والے ہرگز یہ خیال نہ کریں کہ ہم اُن کا مذاق اُڑا رہے ہیں۔ ہم تو اُنہیں خراجِ تحسین اور دِماغ کو خراجِ عقیدت پیش کر رہے ہیں!

آج کل ٹی وی ڈراموں کے گلشن میں بے دِماغی کی بہار آئی ہوئی ہے۔ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ کا دِماغ اب تک کام کر رہا ہے تو ذرا ٹی وی ڈراموں میں تھیم تو تلاش کرکے دکھائیے! چَھکّے چُھوٹ جائیں گے، ہاتھوں کے طوطے اُڑ جائیں گے۔ ایڑی چوٹی کا زور لگا لیجیے اور لاکھ پاپڑ بیل لیجیے، کوئی تھیم ویم ہاتھ نہ آئے گی!

اگر ڈرامہ نگاروں کو والوں کو مطعون کیجیے تو وہ کوئی اور ہی راگ الاپتے ہیں۔ اُن کی پہلی کوشش تو یہ ہوتی ہے کہ اپنی بے دِماغی کو میڈیا میں رُونما ہونے والے ’’انقلاب‘‘ کے کھاتے میں ڈال دیں! جب کوئی یاد دِلاتا ہے کہ جو کچھ وہ لِکھ رہے ہیں وہ عوام کی بے دِماغی سے ہم آہنگ ہوکر خوب رنگ جما رہا ہے تب وہ اپنی رائے سے رجوع کرتے ہیں!

ایک صاحب نے خواب میں سامری جادوگر کو شدید پریشانی کی حالت میں دیکھا۔ پوچھا کہ ایسا کیا ہوگیا جس سے پریشان ہوگئے۔ کیا طلسمات کی دنیا میں کوئی نیا جادوگر آگیا ہے؟ شعبدوں کی دُکانداری کمزور پڑگئی ہے؟ سامری جادوگر نے بمشکل حواس بحال کیے اور کہنے لگا۔ ’’کچھ دن پہلے دُنیا کی سیر کا اتفاق ہوا۔ تھوڑا سا کام تھا۔ اب تم سے چُھپانا کیا؟ میں جادو کے چند نئے کمالات سیکھنے گیا تھا۔ سُنا ہے کہانیاں لِکھنے والوں اور داستانیں سُنانے والوں نے طرح طرح کے کمالات میرے کھاتے میں ڈال دیئے ہیں! سوچا میں بھی کچھ جان لوں گا اور جو مجھے فیورٹ موضوع بنا بیٹھے ہیں اُنہیں بھی کچھ نیا لِکھنے کو مل جائے گا۔ چند روز پاکستان میں رہا۔ بس کچھ نہ پوچھو، دِل اور دِماغ کی کیا حالت ہوئی۔ جو چیز دیکھو اُس میں جادو ہی جادو بھرا ہوا دیکھا۔ بعض چیزیں تو میری سمجھ میں بالکل نہیں آئیں۔ مثلاً بجٹ۔ بہت غور کرنے پر بھی مجھے اندازہ نہ ہوسکا کہ جب وسائل برائے نام ہیں تو ملک کِس طور چلایا جارہا ہے! بجٹ دستاویزات کھول کر دیکھیں تو مجھے اپنے جادوگر ہونے پر شرم سی محسوس ہوئی۔ میں کیا اور میرا جادو کیا! بجٹ ایسا جادو ہے کہ میرے جیسے بیس تیس جادوگر بھی سمجھنا چاہیں تو پورا مال سال گزر جائے گا! جب متعلقین سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ بجٹ کی تیاری میں بھی اس نُکتے کو ذہن نشین رکھا جاتا ہے کہ عوام کو دِماغ استعمال کرنے کا موقع نہ ملے! میرا جادو دیکھ کر تو لوگ پھر بھی دِماغ استعمال کرنے کے قابل رہتے ہیں مگر سچی بات یہ ہے کہ بجٹ بنانے والے دِماغ کو ایسا رگڑا دیتے ہیں پھر وہ صرف جھٹکے وصول کرنے کے قابل رہ جاتا ہے!‘‘

سامری جادوگر نے حرف بہ حرف درست کہا۔ اگر ایسے بجٹ دنیا بھر میں عام ہوں تو حکومتوں کا کام آسان ہوجائے کیونکہ لوگوں کے دِماغ کام کرنا چھوڑ دیں اور کِسی کی سمجھ میں کچھ نہ آئے!

آپ ہمارے قاری ہیں اِس لیے بہت محترم ہیں۔ آپ ہی کے فائدے کے لیے ہم یہ مشورہ مُفت دے رہے ہیں کہ دِماغ کو کم کم استعمال کیجیے۔ اب دِماغ استعمال کرنے کا سیدھا سادہ مفہوم یہ ہے کہ آپ خود کو تماشا بنانے پر تُلے ہوئے ہیں۔ ہر معاملے میں دِماغ لڑاتے رہیں گے تو دوسروں کو چھوڑیے، اہلِ خانہ بھی مشکوک سمجھنے لگیں گے!

M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 524822 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More