قلم کی طاقت اور ادیب

قلم کی نوک جب قرطاس کے سینہ پر چلتی ہے تو الفاظ جنم لیتے ہیں اور ان الفاظ کا مجموعہ جملوں میں بدل جاتا ہے جو کسی بھی تحریر اور تقریر کی زینت اور زور ہوتا ہے۔ الفاظ اور جملے کی بناوٹ موقع محل کے مطابق استعمال ایسی قوت کو جنم دتی ہے جو قوموں کا رخ بدلنے کی قدرت رکھتی ہے۔ کبھی کسی کی تحریر ادب کا شہ پارہ بن جاتا ہے تو کسی کی تحریر کسی کے لئے مشعل راہ ۔ کسی کے کہے ہوئے الفاظ جینے کی امنگ پیدا کرتے ہیں تو کسی کی لفاظی اور زور بیان انقلاب کو جنم دے رہا ہوتا ہے۔ یہ ان الفاظ ہی کا گورکھ دھندہ ہےجس کی وجہ سے زمانہ نے اس نظام حیات کے مختلف رنگ و روپ دیکھے اور اب اس کی رنگینیاں اور تروتازگی مختلف روپ میں دکھ رہی ہیں جس پر زمانہ حیران اور انگشت بدنداں لئے ہوئے ہے۔

الفاظ تحریر کی شکل میں ہو یا تقریر کی شکل میں ہر انداز میں دلربائی لئے ہوئے ہوتے ہیں اور دونوں شکلیں مختلف طرح سے اثر انداز ہوتی ہیں ۔صاحب عقل چاہیے تحریر کی شکل میں ہو یا تقریر کی شکل میں ان کا استعمال کرکے ماحول کی سنگینیاں دور کر سکتا ہے۔ وہاں نا عاقبت اندیش اس سے جلتی پر تیل کا کام بھی لیتے ہیں زیادہ دور نہیں جاتے 20 ویں صدی کہ کا ایک سیاہ فام لیڈر "لوتھر کنگ " کو ہی دیکھ لے کہ صرف ایک جملہ سے اپنے ہم شکل اور ہم خیال لوگوں کی سوچ بدل کے رکھ دیا ۔ اور ان میں ایک ولولہ و جزبہ پیدا کیا اور ان کو اپنی ایک پہچان دی۔

"میرا ایک خواب ہے" کتنا مختصر اور عام سا جملہ ہے لیکن موقع کی مناسبت اور انداز بیان نے ہوری تاریخ کی کایا پلٹ دی اور جو انسان غلامی کا طوق ڈالے سسک رہے تھیں ایک دم سے اپنے حقوق کی خاطر کٹ مرے اور اپنی آئندہ کی نسل کو غلامی کی زندگی سے محفوظ کر بھیٹے ۔

الفاظ کے ساتھ کھیلنے والے کسی قوم کا قائد بھی ہو سکتا ہے ، استاد بھی اور ادیب بھی اور شاعر بھی ہو سکتا ہے ہر ایک کا اپنا انداز بیان اپنی سوچ اور اپنا تخیلاتی میدان ہوتا ہے۔لیکن اس کھیل کا شہسوار سمجھا جاتا ہے وہ ادیب کہلاتے ہیں جن کی اپنی ایک ماورائی دنیا ہوتی ہے جو خیالات کی روانی سے لفظوں کے کھیل سے اس دنیا کو ایسا بنا کر دکھاتے ہیں کہ ہر چیز حقیقی معلوم ہوتی ہے وہی پر اپنی زندگی کے تلخ و شیریں تجربات کو اس انداز میں پیش کرتے ہیں کہ دماغ عش عش کر اٹھتا ہے اور گہرے باریک فلسفہ کی گھتیاں کھیل کھیل میں سلجھات ہیں ۔

ادیب زندگی لکھتا ہے کیونکہ زندگی کی تلخیوں اور رنگینیوں سے زیادہ واقف ان سے کوئی نہیں ہوتا اس کا ہاتھ ماہر نبض شناس کی طرح قوم کے رگ پر ہوتا ہے حالات کی نزاکت کو پرکھتا ہے اور کسی بھی معاشرتی سوچ کو بدلنے میں ماہر ہوتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس پر ایک بھاری ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ ہی لکھے معاشرہ کی بیماریں کا ادراک کرے اور ان کا علاج بھی لکھے لوگوں کو جےنے کی امنگ دلائے اور اپنے وطن سے محبت کی شمع روشن رکھے اور اسے بجھنے نہ دے۔ ورنہ جہاں اس کی تحریر اس کی رہتی دنیا تک نام کو زندہ رکھنے کا سبب ہوگی وہی پر ہمیشہ کی ذلت و روائی کا سبب بھی بن سکتا ہے ۔ اور کوئی عقل مند کبھی کسی خسارہ کا سودا نہیں کرتا۔
majid salim afridi
About the Author: majid salim afridi Read More Articles by majid salim afridi: 3 Articles with 2419 views فی الحال تو پڑھائی چل رہی ہے یعنی ویلے لوک ہے .. View More