عوام کا اعتماد کھونے والے حکمرانوں کی داستان

پاکستان کے وزیر اعظم میاں محمدنوازشریف پر امید ہیں کہ ان کی حکومت اپنی پارٹی کے حمایت یافتہ صدرارتی امیدوار کومنتخب کرواکرملکی مسائل سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گی۔عوام کے منتخب کیے گئے نمائندوں پر مشتمل حکومت ہے ۔اس لئے کسی بھی جماعت سے مفاہمتی معاہدہ کرنے سے ان کی حکومت کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔اگرچندسال پہلے کی بات کی جائے تو یہی مسائل پاکستان مسلم لیگ ق(قائداعظم) کی ناکامی کا باعث بنے تھے۔اور پھرحالیہ الیکشن میں پاکستان پیپلزپارٹی کوبھی انہیں مسائل کی بناپر ناکامی کاسامناکرناپڑا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ وزیر اعظم میاں محمدنوازشریف صدراتی امیدوار کوکامیاب تو کرواسکتے ہیں۔لیکن عوام کا اعتمادحاصل کرنے کیلئے ماضی کے حالات کو مدنظر رکھناپڑے گا۔
تاریخ گواہ ہے کہ تنازعات اور تضادات سے بھرپور زندگی گزارنے والے لیبیا کے راہنماکرنل قذافی طویل ترین عرصے تک برسراقتدار رہنے والے عرب رہنما تھے۔41 برس پہلے ایک نوجوان فوجی افسر کی حیثیت سے حکومت پر قبضہ کر کے لیبیا کے حکمران بنے۔قذافی اوائل جوانی سے ہی عرب قوم پرستی کے پیروکار اور مصری رہنما جمال عبدالناصر کے شیدائی تھے۔ 1956 ء کے نہر سوئز کے بحران کے دوران مغرب اور اسرائیل کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں بھی وہ پیش پیش رہے تھے۔کرنل قذافی 7جون 1942ء کولیبیا کے شہرسرت کے نزدیک ایک صحرائی علاقے میں پیدا ہوئے۔1965ء میں آپ نے بن غازی ملٹری یونیورسٹی اکیڈمی میں داخلہ لیا اور 1966ء سے 1969ء تک اعلیٰ فوجی تعلیم کی غرض سے برطانیہ کی رائل ملٹری اکیڈمی میں تعلیم حاصل کی اور اسی سال واپس وطن آگئے۔1969ء میں جب قذافی ابھی جونئیر افسر ہی تھے تو اپنے دیگر ساتھی فوجی افسروں کا ساتھ مل کر فری آفیسرز موومنٹ چلائی اور لیبیا کے شاہ ادریس کے خلاف بغاوت کر دی اور بغیر خون بہائے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔کامیاب بغاوت کے بعد قذافی ریولیوشنری کمانڈ کونسل کے چیئرمین اور لیبین آرمی کے چیف آف دی آرمد فورسز منتخب ہوئے اور لیبیا کو عرب ریپبلک لیبیا کا نام دیا۔اقتدار پر قابض ہونے کے بعدقذافی نے لیبیا میں اپنے منفرد طریق حکومت کو متعارف کرایا۔ کرنل قذافی کا سیاسی فلسفہ اس لئے بھی منفرد تھا کہ وہ ان کا خود ساختہ تھا اور دنیا میں رائج کمیونزم اور سرمایہ دارانہ نظام سے الگ تھا۔ اس کو دنیا میں تیسری عالمی تھیوری کے طور پر دیکھا گیا۔ یہ طریق و انداز حکمرانی عرب نیشنل ازم اور سوشل ازم کا ملغوبہ تھا۔ عرب قوم پرستی کے اس سرپرست کو اپنے ابتدائی دور میں اسی وجہ سے مقبولیت بھی حاصل ہوئی۔ جبکہ ملک میں اسلامی اقدار کے خلاف سرگرمیوں کو بند کر دیا گیا، شراب اور جوئے پر پابندی لگا دی گئی۔ 1977ء میں جماہریہ کے نام سے ایک ایسا نظام بنایا جس میں بظاہر اختیارات عوام پر مشتمل ہزاروں پیپلز کمیٹیوں کے ہاتھ میں تھے لیکن عملا ماہرین کے مطابق کرنل قذافی ہی تمام اختیارات کا سرچشمہ تھے۔قذافی کے اپنے خظے کے ممالک میں بڑا اثر و رسوخ بھی تھا اور تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک میں بھی کرنل نے اپنے کافی حمایتی پیدا کر لئے تھے جس کی وجہ سے70 کی دہائی میں تیل کی پیداوار میں کمی کر کے امریکہ و یورپ کو توانائی کے بحران کا بھی شکار کر دیا تھا۔کرنل قذافی 70 کی دہائی سے ہی عرب قوم پرستی کے علمبردار رہے اور انہوں نے لیبیا کو اس وقت کے مصری ، شامی اور اردنی رہنماوں کے ساتھ کئی معاہدوں میں بھی منسلک کیا۔ 1988 ء میں جب لاکربی میں جہاز کو تباہ کرنے کا الزام لیبیا کے باشندوں پر لگا اور قذافی نے ان کو عالمی عدالت کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا تو اقوام متحدہ کی جانب سے لیبیا پر معاشی پابندیاں عائد کر دی گئیں۔ تو عرب ملکوں نے اس موقع پر لیبیا کی حمایت سے گریز کیا جس کی وجہ سے قذافی عرب قوم پرستی کے سحر سے نکل آئے اور انہوں نے افریقی اقوام کا بلاک تشکیل دینے کی کوششیں شروع کر دیں۔کرنل قذافی دنیا بھر میں مختلف آزادی کی تنظیموں کے بھی پشت پناہ اور مددگار رہے جن میں تنظیم آزادی فلسطین ، آئرش ریپبلکن آرمی اور افریقہ کے کئی تنظیمیں شامل ہیں۔ اپنے انداز حکمرانی کی وجہ سے مغربی طاقتیں قذافی کو عالمی امن کیلئے خطرہ سمجھتی تھیں اور اقوام متحدہ نے 1979 ء سے لے کر 2006ء تک لیبیا کو ان ممالک کی فہرست میں شامل کئے رکھا جو دہشتگردی کو اسپانسرز کر رہے تھے۔ 1986ء میں بھی اقوام متحدہ کی افواج نے برلن دھماکوں کے رد عمل میں کرنل قذافی کی رہائش گاہ اور لیبیا کے ایک بڑے علاقے پر بمباری کی تھی جس میں کرنل قذافی کی لے پالک بیٹی جاں بحق ہوگئی تھی۔2003 ء میں عراق میں صدام حکومت کے سقوط کے بعد کرنل قذافی نے اپنی عالمی تنہائی ختم کرنے کا فیصلہ کیا اور لاکربی واقعے کا مقدمہ اسکاٹ لینڈ کے قانون کے تحت ہالینڈ میں چلوانے پر رضامندی ظاہر کی۔ برطانیہ کے ساتھ ایک سمجھوتے کے تحت انہوں نے اپنے خفیہ ادارے کے ایک سابق اہلکار عبدالباسط المگراہی کو بھی ہالینڈ کے حوالے کر دیا۔ عدالت نے اس مقدمہ میں المگراہی کو مجرم قرار دیتے ہوئے عمر قید سنائی جبکہ لیبیا نے لاکربی واقعے میں مرنے والوں کے ورثا کو ہرجانے کے طور پر کئی ارب ڈالر بھی ادا کیے۔ چند ماہ بعد ہی کرنل قذافی نے لیبیا کے جوہری اور کیمیائی ہتھیاروں کے پروگرام کو ختم کرنے کا اعلان کیا جس کے بعد مغرب نے ان کو قبول کرنے کا اعلان کیاتو اقوام متحدہ نے لیبیا پر سے پابندیاں ہٹا دیں۔2011 ء کے آغاز میں بادشاہی نظام، آمریتوں اورانکے پیدا کردہ لوگوں کے اقتصادی مسائل کیخلاف تیونس سے شروع ہو کر مصر اور دیگر عرب ریاستوں تک پھیلنے والی عوامی تحریک جب مارچ میں لیبیا کے صدر کرنل قذافی کے اقتدار کے ساتھ ٹکرائی تو اس تحریک کو سخت ریاستی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور یہ تحریک ریاستی طاقت کے آگے عملاً بے بس نظر آنے لگی۔ لیکن امریکہ اور دوسرے نیٹو ممالک نے اقوام متحدہ کی حمائت سے لیبیا پر چڑھائی کردی اور باغیوں کو عسکری امدادفراہم کرنے کے ساتھ ساتھ خود بھی فضائی حملے شروع کردئیے۔30 اپریل2011ء کو باب العزیزیہ کمپاونڈ پر نیٹو کے فضائی حملے میں قذافی کے سب سے چھوٹے بیٹے اور ایک نواسی اور دوپوتے جاں بحق ہو گئے تھے۔29اگست کو کرنل قذافی کی اہلیہ صفیہ ،بیٹی عائشہ اور دوبیٹے ہنی بعل اور محمد سرحد عبور کرکے پڑوسی ملک الجزائر چلے گئے تھے۔عائشہ قذافی نے الجزائر کے ایک سرحدی قصبے میں آمد کے چند گھنٹے کے بعد بچی کو جنم دیا تھا۔ اس سے پہلے ان کے تین بچے تھے۔ان میں سے ایک بیٹی اپنے ماموں کے ساتھ طرابلس میں باب العزیزیہ پرنیٹو کے مزکورہ فضائی حملے میں ماری گئی تھی۔دنیا کی تاریخ میں شاہی خاندانوں سے باہر کسی ملک پر طویل ترین حکمرانی کرنیوالے لیبیا کے صدر کرنل معمر قذافی آخر کار 17اکتوبر 2011ء کو امریکی حمایت یافتہ باغیوں کے ہاتھوں شہید ہو گئے۔ اس طرح انہوں نے لیبین باغیوں کی حکومت مخالف تحریک کو امریکہ اور دیگر نیٹو ممالک کی حمائت اور عسکری کمک حاصل ہونے پر لیبین قوم کے ساتھ کیا گیا یہ عہد نبھا کر دکھا دیا کہ وہ جان دیدیں گے مگر اپنی سرزمین چھوڑ کر کہیں نہیں جائیں گے۔

Ghulam Murtaza Bajwa
About the Author: Ghulam Murtaza Bajwa Read More Articles by Ghulam Murtaza Bajwa: 272 Articles with 201349 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.