بلدیاتی انتخابات

عدالت نے تمام صوبائی حکومتوں کو بلدیاتی انتخابات کے لئے ستمبر تک کی ڈیڈ لائن دے دی ہے جس کے لئے تمام صوبائی حکومتیں اپنے معروضی حالات کے مطابق بلدیاتی اداروں کے لئے قوانین کے مسودے تیار کرکے اسمبلیوں میں پاس کروانے کے لئے بھیج رہے ہیں اب تک پنجاب اور سندھ کے بلدیاتی اداروں کے لئے جو خدوخال سامنے آئے ہیں سابق صدرضیاالحق کے دور 1979کا بلدیاتی نظام نافذ کئے جانے کے زیادہ امکانات نظر آرہے ہیں جس میں کارپوریشنوں کے مئیر اور شہروں کے لئے چیرمین جبکہ دیہات کے لئے ضلع کونسلز اور یونین کونسلز تشکیل دئیے جانے کا امکان ہے ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ بلدیاتی اداروں کے سربراہ سرکاری افسران ہوں گے اگر یہ سچ ہے تو پھر اتنی بڑی ایکرسائز کرنے کا کیا فائدہ ابھی تو پچھلے انتخابات کے نتیجے میں پیدا ہونے والی دشمنیاں بھگتی جارہی ہیں اور اوپر سے نئے بلدیاتی انتخابات جو جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام کریں گے اس سے بہتر ہے کہ نامزدگیوں سے کا م چلایا جائے لیکن اگر واقعی ہی مقامی حکومتوں کے انتخابات عوام کی فلاح و بہبود اور اختیارات کو گراس روٹ سطح تک لانے میں صوبائی حکومتیں مخلص ہیں تو انہیں عوام کے منتخب نمائندوں کو بلدیاتی اداروں کے سربراہ بنانا چاہیے نہ کہ بار بار تجربے کئے جائیں ہر حکومت اپنی مرضی کا نظام نافذ کرنے کی کوشش کرتی ہے جبکہ سابقہ تجربات کی روشنی میں سب سے بہتر اور قابل عمل مشرف دور کا ضلعی حکومتوں کا نظام تھا جس میں بلاشبہ کئی خامیاں بھی تھیں جن میں چیک ایند بیلنس،احتساب اور پرائس کنٹرول اتھارٹیز کا نہ ہونا تھا لیکن یہ نظام کی خرابی نہیں تھی بلکہ اس نظام کو اس کی اصل روح کے مطابق نافذ نہ کرنا تھا اگر اس نظام کو اس کی اصل روح کے مطابق نافذ کیا جاتا تو اس سے زیادہ ثمرات حاصل کئے جاسکتے تھے لیکن اس وقت کی صوبائی حکومتیں اور ممبران قومی و صوبائی اسمبلی درمیان میں دیوار بن گئے تھے جن کے مفادات کو اس وجہ سے ٹھیس پہنچ رہی تھی ان کے سارے تر قیاتی فنڈز تو یونین ناظمین،تحصیل ناظمین اور ضلعی ناظمین کے پاس چلے گئے تھے اور طاقتوربیوروکریسی منتخب نمائندوں کے ماتحت ہوگئی تھی۔پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلی دفعہ ہوا تھا ورنہ تو بیورو کریسی ہی ہمیشہ سے حاکم رہی ہے بلاشبہ اتنی بڑی تبدیلی کوئی جمہوری وزیر اعظم یا جمہوری حکومت نہیں لاسکی تھی بلکہ ایک فوجی جرنیل نے یہ کارنامہ انجام دیا تھاجس کی بدولت پورے ملک میں ترقیاتی کاموں کی ایک نئی تاریخ رقم ہوئی اور عوام کے مسائل ان کی دھلیز کے قریب حل ہونا شروع ہوئے تھے لیکن سیاسی قیادتوں جن میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی شامل ہے اسے سابق صدر پرویزمشرف کا منصوبہ جان کر اسے رد کرکے دوسرا نظام لا رہے ہیں حالانکہ وہ نظام بھی تو ایک آمر نے ہی تخلیق کروایا تھاجب کہ ضلعی حکومتوں کے نظام سے بحر حال عوام مستفید ہورہے تھے دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک میں تمام ترقیاتی کام مقامی حکومتوں کی ذمہ داری ہے جبکہ ممبران اسمبلی کا کام عوام کی فلاح و بہبود کے لئے آئین سازی کرنا ہے لیکن ہمارے ہاں تو سب کچھ ہی نرالہ ہے اگرمقامی حکومتیں اپنا کام متواتر کرتی رہیں تو نئے صوبوں کی بھی ضرورت پیش نہیں آئے گی جب کہ بلدیاتی ادارے سیاسی نرسری کی حیثیت رکھتے ہیں جس سے نئی قیادت معرض وجود میں آتی ہے اس لئے موجودہ حکومت کو جماعتی بنیادوں پر بلدیاتی انتخابات کروانے پر سنجیدگی سے غوراور اسمبلیوں سے مسودہ پاس کروانے سے پہلے اسے عوام الناس کے لئے مشتہر کرکے اپنی تجاویز پررائے مانگنی چاہیے۔

مسلم لیگ ن کی قیادت میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف سے بھی گزارش ہے کہ مشرف کی نفرت میں ایک اچھے نظام کو رد نہ کریں بلکہ اس میں سے خامیاں نکال کر اسے دوبارہ بحال کریں ۔جبکہ اپوزیشن جماعتوں کو بھی ان مسودوں پر پوری تیاری کرکے اپنی سفارشات شامل کروانا چاہییں ان سے بھی گزارش ہے کہ بلدیاتی انتخابات جماعتی بنیادوں پر کروانے میں اپنا بھر پور کردار ادا کریں۔
 

Ch Abdul Razzaq
About the Author: Ch Abdul Razzaq Read More Articles by Ch Abdul Razzaq: 27 Articles with 21434 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.