عالم اسلام ایک عرصے سے بے چینی
و اضطراب کی کیفیت میں مبتلا ہے۔ہر چڑھتے سورج کے ساتھ اس اضطراب کی شدت و
حدت میں اضافہ ہی ہورہا ہے۔ مستقبل قریب میں ان حالات کے سدھرنے کی مدہم سی
امید بھی سدھائی نہیں دیتی۔عالم اسلام کے حالات خراب کرنے میں ہمیشہ بیرونی
قوتوں نے کردار ادا کیاہے کیونکہ وہ کسی بھی اسلامی ملک کو طاقتور اور
پھلتا پھولتا نہیں دیکھ سکتیں۔ بیرونی قوتیںاسلامی ممالک میں کھل کر کھیل
کھیل رہی ہیں۔
شام کو ہی لے لیجیے۔ گزشتہ دو سال سے شام میں خانہ جنگی جاری ہے۔اس خانہ
جنگی میں تمام بیرونی قوتیں شامیوں کو استعمال کررہی ہیں۔ اپنے مفادات کی
خاطرروس اور چین بشار الاسد کی حکومت قائم رکھنے پر تلے ہوئے ہیں جبکہ
امریکا اور اسرائیل اسے ختم کرنے کے درپے ہیں۔ ایران، حزب اللہ اور عرب
ممالک پرانی رقابت اور مسلکی بنیادوں پر اس لڑائی کے فریق بنے ہوئے ہیں۔
شام میں اس وقت تین قسم کے گروہ برسرپیکار ہیں۔ پہلا گروہ تو بشارالاسد کی
حکومت اور فوج کا ہے۔ چین ، روس اور ایران اس گروہ کی مدد کررہے ہیں۔ دوسرا
گروہ حزب اختلاف کا ہے، جو لبرل ہے۔ یہ گروہ بشارالاسد کی حکوت سے چھٹکارہ
حاصل کرنا چاہتا ہے۔ امریکا، اسرائیل اور عرب ممالک اس کی پشت پر ہیں۔ جبکہ
تیسرا کٹر مذہبی گروہ القاعدہ کا ہے۔ اگرچہ کوئی ملک اس کی پشت پر نہیں ہے
بلکہ امریکا نے حزب اللہ کی طرح القاعدہ (النصرة)کو بھی دہشت گرد قرار دیا
ہے، لیکن القاعدہ کا گروہ بھی چونکہ بشارالاسد کی حکومت ختم کرنے کے لیے
لڑرہا ہے اس لیے حزب اختلاف اور القاعدہ کا آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ
تعاون چلتا رہتا ہے۔ عرب ممالک، امریکا اور اسرائیل کی جانب سے ملنے والی
امداد ان کے حصے میں بھی آتی ہے۔ ورنہ القاعدہ کا مقصد تو الگ سے اپنی
حکومت قائم کرنا ہے۔
شام میں دو سال سے جاری قتل عام میں ہر ملک اپنے مفاد کو سامنے رکھے ہوئے
ہے۔ کسی ملک نے اس خانہ جنگی کو رکوانے کی کوئی سبیل نکالنے کی کوشش تک
نہیں کی۔ شام میں جاری کشیدگی کے باعث ایک لاکھ سے زائد افراد مارے جاچکے
ہیں۔ ہر ماہ تقریباً پانچ ہزار افراد قتل کیے جارہے ہیں۔ صرف رواں سال کے
آغاز سے اب تک شام سے اٹھارہ لاکھ افراد نقل مکانی کرچکے ہیں جو اوسطاً
یومیہ چھ ہزار افراد پر مشتمل ہے۔ اس قدر نقصان کے باجود بھی بیرونی قوتوں
نے بس نہیں کی بلکہ وہ پوری طرح ”لڑاﺅ اور حکومت کرو“ کی پالیسی پر عمل
پیرا ہیں۔ انہوں نے اسلامی ممالک کو آپس میں لڑا کر اس قدر کمزور کردیا ہے
کہ جب چاہیں اسلامی ممالک پر قبضہ کرسکتے ہیں۔ وہ مسلسل عالم اسلام کو بے
سکونی کی کیفیت میں مبتلا رکھنا چاہتے ہیں۔ بے سکون اور بے چین عالم اسلام
ہی ان کے مفاد میں ہے۔
اگر شام میںگزشتہ دنوں رونما ہونے والے واقعات پر نظر ڈالی جائے تو ساری
حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے۔ پہلے گوشہ جگر بی بی فاطمة الزہرا کی
صاحبزادی اور نواسی رسول بی بی زینب کے روضہ مبارک کو مسمار کرنے کی کوشش
کی گئی، جس کا الزام ایک عقیدے کے لوگوں پر لگایا گیا اور مخالف فرقے کے
لوگوں کے خلاف نفرت کو ہوا دی گئی۔ ابھی اس حوالے سے احتجاج جاری اور صدمہ
تازہ ہی تھا کہ صحابی رسول اور نڈر سپہ سالاراسلام کے روضہ مبارک اور ملحق
مسجد کو بھی شہید کر دیا گیا، جسے دوسرے عقیدے کے لوگوں کی طرف منسوب کیا
گیا، جس سے ایک دوسرے کے خلاف نفرت کا جنم لینا ایک فطری عمل ہے۔ ان عظیم
ہستیوں کے مزاروں پر بمباری کا مقصد مسلمانوں کو کمزور کرنا ہے۔ اگر یہ کہا
جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ نواسی رسول سیدہ زینب اور جلیل القدر صحابی رسول
(رض)کے مزارات پر حملے دراصل مسلمانوں کی اجتماعیت پر حملہ ہے۔ یہ واقعات
امت مسلمہ کے اندر انتشار و افتراق پھیلانے اور فرقہ وارانہ و مذہبی ہم
آہنگی کو ختم کرنے کی سازش ہے۔ سامراجی قوتیں اور مسلم دشمن طاقتیں امت
مسلمہ کے اتحاد و اتفاق کو پارہ پارہ کرنا چاہتی ہیں اور مسلمانوں کی غیرت
و حمیت کا امتحان لے رہی ہیں۔ ایک دوسرے سے متنفر کرنے کے لیے گھٹیا حربے
استعمال کیے جا رہے ہیں۔ یہ سب کچھ اس قدر منظم انداز میں ترتیب دیا گیا کہ
عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ پورا عالم اسلام اس سوچ میں مبتلا ہے کہ کیا کوئی
مسلمان ایسی حرکت بھی کرسکتا ہے؟۔
دراصل دشمن طاقتیں مسلمانوں کو ہیجانی کیفیت میں مبتلا کرکے عالم اسلام کو
ایک ایسے بحران کی طرف دھکیلنا چاہتی ہےں جس سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں
ہے۔دشمن کا مقصد یہ ہے کہ ان واقعات سے ایسا اشتعال پیدا ہوکہ تمام اسلامی
ممالک میں لوگ ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑے ہوجائیں۔حالانکہ ہر مسلک کے نزدیک
قبروں کی بے حرمتی کرنا حرام ہے اور جن شخصیات کے مزارات کو نقصان پہنچایا
گیا ہے وہ شخصیات بھی سب کے نزدیک معتبر ہیں۔ سیدہ زینب قیامت تک کی مظلوم
انسانیت کے لیے مشعل راہ ہیں جبکہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ جہاد کے
وہ امام ہیں جن کو خود آپ علیہ السلام نے سیف اللہ کا لقب دیا ۔
اگر بیرونی قوتوں کو نظر انداز کر کے یہ بات مان لی جائے کہ ان دونوں
واقعات میں شام میں لڑنے والے گروہ ہی شامل ہیں جیسا کہ کہا جارہا ہے تو
پھر اسلام دشمن طاقتوں کو برا بھلا کہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ان کا مقصد تو
خود ہی پورا کردیا ہے۔یہ عمل اسلام دشمن قوتوں کی حقیقی ترجمانی ہے۔ اس سے
بڑھ کر پست ذہنی و اخلاقی کا مظاہرہ اور کیا ہوگا کہ اپنی لڑائی میں اپنی
ہی مقدس شخصیات کو نشانہ بنانا شروع کردیا جائے۔ یہ واقعہ سب کے لیے لمحہ
فکریہ ہے کہ باہمی لڑائی میں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے مزارات بھی محفوظ
نہیں رہے، آپس کی لڑائیاں بطور امت مسلمانوں کو کمزور کر رہی ہیں، مقدس
مقامات کی بے حرمتی مابین اتفاق و اتحاد کے رویوں کی نفی کر رہی ہے۔
تمام اسلامی ممالک کو چاہیے کہ کسی طرح شام میں جاری خانہ جنگی کا کوئی سد
باب نکالا جائے۔ آپس کے اختلافات سے بہت نقصان پہنچ چکا ہے ۔ دنیا کے قدرتی
وسائل کا 60 سے 70 فیصد حصہ مسلمان ملکوں میں ہے لیکن پھر بھی مسلمانوں کی
حالت نہایت پتلی ہے۔ 57اسلامی ممالک پر مشتمل آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس
کا کردار قابل رحم ہے۔ دنیا میں جہاں کہیں بھی مسلمانوں کا کوئی مسئلہ
سامنے آتا ہے تو او آئی سی ہاتھ پہ ہاتھ دھرے خاموش تماشائی کا کردار
نبھاتی ہوئی نظر آتی ہے۔ اس کے برعکس صرف 27 ممالک پر مشتمل یورپین یونین
ہر موڑ پر اپنے ممالک کا مکمل ساتھ دیتی ہے۔
دشمن آج بھی اپنی پرانی روش پر کاربند ہے کہ” لڑاﺅ اور حکومت کرو“۔ سامراجی
قوتیں یہی طریقہ کار استعمال کرکے عالم اسلام کے قدرتی وسائل پہ قبضہ جمانے
کی خواہاں ہےں اور مسلمان دنیا بھر کی سب سے زیادہ قدرتی وسائل اور سب سے
زرخیز زمین رکھنے کے باوجود ان سامراجی قوتوں کے ہاتھوں ذلیل ہورہے ہیں۔ اب
وقت آگیا ہے کہ مسلمانوں کو اپنے دشمنوں کے ناپاک عزائم کو سمجھنا ہوگا،
ورنہ اسی طرح سے تحقیر و تذلیل کا نشانہ بنتے رہیں گے۔ |