حیوا نوں کا انسانوں پر خفیہ حملہ

زوناسس
ZOONOSIS

وبائی بیماریوں کے حوالے سے مستقبل کا نیا منظر نامہ

ہزاروں سالوں سے انسان اور حیوان ملکر معاشرتی اورسماجی حیات کا بوجھ اٹھا رہے ہیں جس میں وہ کہیں ایک دوسرے سے متصادم ہیں تو کہیں یار غار ہیں ابتدائے آفرینش سے موجودہ عہد تک انسان کی حیات کا بنیادی چکر بھوک اور اسکے لوازمات کے گرد گھوم رہا ہے ۔ ایسے میں کہیں انسان حیوانوں کو شکار کر کے اپنے لذت و کام ودہن کا اہتمام کررہا ہے تو کہیں حیوانوں کی مدد سے زمین کاسینہ چیر کر اس کے دامن سے زندگی کی نازک کونپل کو تناور درخت میں تبدیل کرنے میں مصروف ہے۔ حیات کی اس بقاء کی دوڑ میں جہاں رونقیں 249 خوشیاں اور سہولتیں بڑھ رہی ہیں تو دوسری جانب کچھ ایسے نامعلوم اندیشے اور پریشان کن مظاہر بھی سامنے آرہے ہیں جس سے انسان کی بقا ء کو شدید خطرات لاحق ہیں دراصل انسا ن اور حیوان ( چوپائے249 چرند پرند249 حشرات وغیرہ)ایک ہی سکے کے دو ایسے رخ ہیں جو بظاہر علیحدہ علیحدہ ہیں مگر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اسی قربت کی نتیجہ ہے کہ آج انسانیت جانوروں کے ان امراض سے جو ماضی میں خالصتا حیوانوں کے امراض سمجھے جاتے تھے سخت دہشت ذدہ نظر آتی ہے کیوں کے یہ امراض مختلف وائرسوں اور بیکٹریاز کی شکل میں اپنی وضع قطع بدل کر جانوروں کے ذریعے مختلف طریقوں سے انسانوں میں فی الحال لا علاج امراض کی صورتوں میں منتقل ہوگئے ہیں متاثرہ حیوانوں کے اس حیاتیاتی حملے کو جس میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے ما ہرین حیاتیات "ZOONOSIS"کے نام سے پکارتے ہیں اور اس کے ذریعے پیداہونے والی مہلک بیماریوں کو Zoonosis Infection Disease کہا جاتا ہے۔

اگر ہم Zoonosisکو وسیع تناظر میں دیکھیں تو اس سے مراد ایسے متعدی یا وبائی امراض ( Infection Disease ) ہیں جو گھریلو یا جنگلی جانوروں249 پرندوں کے وبائی امراض کے وائرسوں یا بیکٹریاز کو Pathogenیا ان کے Infection agentکے زریعے میزبان(Host)جسم میں داخل کر کے مہلک امراض پیدا کرنے کاسبب بنتے ہیںیہاں یہ زکر کرنا بر محل ہوگا کہ Pathogenکیا ہے Pathogenسے مراد جانوروں اور پودوں کے ایسے انتہائی مختصر جسامت کے حیاتیاتی کارندے ہیں جو کثیر الخلیہ (Multicell)ہوتے ہیں مگر ان کی نارمل ہیت نامعلوم وجوہات کی بنا ء پر منتشر ہوجاتی ہے اور وہ نقصان کا باعث بنتے ہیں واضح رہے Panthogenیونانی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ’’ تکلیف کی وجہ بننے والا‘‘ ہے Panthogenخلیے کئی طریقوں سے دوسرے اجسام میں جنہیں میزبان اجسام کہا جاسکتا ہے میں داخل ہو کر خاموش قاتل بن کر ہلاکت آفرینی کا باعت بنتے ہیں۔

اگرچہ انسان کا اپنا قدرتی مدافعاتی نظام (Human Immune System)بہت مضبوط ہے اور ایسے مددگار بیکٹریاز سے لیس ہے جو ہر وقت چوکنا رہے کر انسانوں کو بیماریوں سے تحفظ فراہم کرتے ہیں لیکن چونکہ انسان کا مدافعاتی نظام صرف انسانی امراض کے حوالے سے ترتیب دیا گیا ہے لہذا جانوروں کے امراض کے مہلک وائرسوں کے انسانوں کے اند ر Pathogen Infection Agents کے ذریعے منتقلی کے دوران انسانوں کا مدافعاتی نظام ان وائرسوں سے عدم آشنائی کے باعث ان کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتا اور شائد یہی وجہ ہے کہ یہ مہلک وائرس سب سے پہلے اپنا میزبان انسان کے مدافعاتی نظام کے خلیوں کو بناتے ہیں یعنی دوسرے معنوں میں انسان کے مدافعاتی نظام کے کارندوں یعنی حفاظتی بیکٹریاز کو اپنا نشانہ بناتے ہوئے انہیں بری طرح کمزور کردیتے ہیں اس صورتحال کو طبی اصطلاح میں Opportunistic Infectionکہتے ہیں اور یہی زہر آلودہ حیاتیاتی سالمے یا وائرس ماضی اور موجودہ وقت میں انسانی صحت کے سخت دشمن بنے ہوئے ہیں جیسےYersinia Pestis بیکٹریا کا Pethogen Agentطاعون اور ملیریا کے ذریعے لاکھوں انسانی جانوں کو نقصان پہونچا چکا ہے اور ماہرین طب کے مطابق نسبتا نئے امراض جن میں HIV249SARSاور انفلوئنزا کے پھیلنے کی وجہ بھی یہی بیکٹریائی Pathegen Agents ہیں۔

جیسے کے ہم جانتے ہیں کہ دنیا میں امراض کی سب سے بڑی وجہ وائرس اور بیکٹریا کا پھیلاؤ ہے جو دنیا بھر میں مختلف ذرائع سے امراض پھیلا رہے ہیں مگر Zoonosisامراض کے حوالے سے جو وبائی بیماریاں اسوقت منظر عام پر ہیں وہ تقریبا لا علا ج ہیں جس کی بنیادی وجہ انسانوں کے مدافعاتی نظام کاجانوروں کی جانب سے منتقل کئے جانے والے وائرسوں سے نا بلد ہونے کے باعث ان کے خلاف موثر جنگ لڑنے سے قاصر ہونا ہے یونانی لفظ Zoon یعنی جانور اور Nososیعنی امراض سے ملکر بنے ہوئے اس لفظ کے دائرہ کار میں متعد د لا علا ج مرض ہیں اسی طرح ایسے گھریلو اور جنگلی جانوروں کی فہرست بھی خاصی طویل ہے جو Zoonoticامراض پھیلانے کا باعث ہیں ان میں چمگادڑ249 مختلف پرندے249بلیاں249 مویشی249 چمپنزی بندر249 کتے249 بطخیں249 بکرے249 مینڈھے249گھوڑے249 مختلف نسل کے بندر249 مچھر249 اڑنے والے حشرات249 سور249 خرگوش249 چوہے249 رینگنے والے جانور249 ہاتھی وغیرہ شامل ہیں دلچسپ بات یہ ہے کہ چند ایک جانورں کے چھوڑ کر اکثر جانور جو اایسے خطرناک وائرس یا بیکٹریا کو اپنے جسمانی نظام میں عرصہ دراز کر سنبھال کر رکھتے ہیں خود ان سے متاثر نہیں ہوتے مگر انسانوں میں منتقل ہوتے ہی یہ وائرس ہلاکت خیز بن جاتے ہیں۔

جانوروں کے توسط سے جانوروں کے Zoonosisوبائی امراض مختلف طریقوں سے پھیلتے ہیں مثلا جانوروں سے براہ راست تعلق رکھنے والے افراد جیسے مویشی بان یا قصاب وغیرہ اور پھر ان متاثرہ افراد سے دوسرے افراد میں مذکورہ وائرس منتقل ہوکر مرض وبائی صورت اختیار کرجاتا ہے249 آلودہ پانی جس میں متاثرہ طفیلیوں(Parasites)کے انسانی آنکھ سے نا دکھائی دینے والے انڈے ہوتے ہیں سخت بیماریوں کا باعث بنتا ہے اسی طرح متاثرہ جانور کا گوشت کھانے سے یا پھر حشرات کے ذریعے بھی یہ بیماریاں جنم لیتی ہیں جن میں سرفہرست ملیریا اور ڈنگی بخار ہیں جو مخصوص مچھروں کی وجہ سے وقوع پذیر ہوتے ہیںیا متاثرہ پسو یا چیچڑی (Tick) کی موجودگی والے جانور جو عموما دودھ دینے والے جانورں کے تھنوں سے چمٹی ہوتی ہیں ان سے قربت کی صورت میں بھی’’ Zoonsisانفیکشن کی بیماریاں‘‘( Zoonosis Infection Disease)انسانی جسم میں وقوع پذیر ہوجاتی ہیں۔

اٹلانٹا میں واقع امریکہ کے ادارے Centre for Disease Control (CDC) کے مطابق پچھلے 50سالوں میں عالمی سطح پر ظاہر ہونے والی انتہائی مہلک اور جان لیوا 10سے بارہ وبائی بیماریوں کا تعلق جانوروں کے امراض کاانسانوں میں منتقل ہونے والیZoonosis Infection Disease سے ہے ادارے کی ڈائرکٹر Julie Louise Gerberdingکے مطابق بہت سے ایسے جنگلی جانور جنہیں لوگ خرید کر گھروں میں پالتے ہیں وہ بھی ان بیماریوں کے جراثیم انسانوں میں نادیدہ طریقے سے منتقل کرنے کا ذریعے بن رہے ہیں کیونکہ اس کاروبار میں ملوث افراد زیادہ منافع کی خاطر نہ تو ان جانوروں کاکسی قسم کا طبی ٹیسٹ کراتے ہیں نہ ویکسینشن کراتے ہیں اور نہ ہی انکی خوارک میں ادویات کا استعمال کرتے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت (WHO)کے مطابق Zoonoticبیماریوں کے انسانوں میں سرایت کرنے کے پانچ بنیادی ذرائع ہیں جن میں پہلے نمبر پر Parasitesیعنی طفیلئے ہیں طفیلیوں سے مراد وہ جاندار جن کی زندگی کاانحصار دوسرے جاندار سے وابستہ ہوتا ہے اور وہ عموما اپنے میزبان جسم سے خوراک حاصل کرتے ہیں مثلا کیچوے249 مچھر 249 پسو249 جوں یا دیگر خون چوسنے والے طفیلئے 249 دوسرے نمبر پر بیکٹریاز یا جرثومے ہیں یہ یک خلوی جاندار جنکی طوالت چند مائیکرو میٹر ہوتی ہے گولائی249 لچھے دار اور چھڑی کی شکل میں ہوتے ہیں اور تقریبا ہر مقام پر پائے جاتے ہیں جن میں ریڈیو ایکٹو شعاعوں سے متاثر ہ فضلے سے لے کرمٹی 249کھولتے ہوئے گرم تیزابی پانی 249 میٹھے پانی 249 زمین کی انتہائی گہری پرتیں سب بیکٹریاز سے اٹی ہوئی ہیں ایک اندازے کے مطابق ایک گرام مٹی میں 40ملین بیکٹریاز ہوتے ہیں اسی طرح ایک ملین بیکٹریا ایک ملی لیٹر تازہ پانی میں بھی پائے جاتے ہیں مجموعی طور پر ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں پانچ نینو ملین (5X1030)بیکٹریا پائے جاتے ہیں جرثومے یا بیکٹریا اپنی تعداد بڑھانے کے لئے آذادانہ تقسیم پرعمل کرتے ہیں جسکے کے لئے وہ نامیاتی سالمات کو اپنی غذا کا حصہ بناتے ہوئے اپنی ذندگی متحرک رکھتے ہیں واضح رہے انسانی جسم میں موجود بیکٹریا انسان کے مدافعاتی نظام کا بنیادی کردار ہیں جو انسان کو متعددبیماریوں سے محفوظ رکھتے ہیں مگر کچھPathogenic بیکٹریاانسانوں میںZoonosis وبائی اور عام امراض کی وجہ بنتے ہیں جس میں Cholera249Syphilis249اینتھارکس249جذام 249Bubonic Plegue249 ٹی بی اور حبس دم جیسی بیماریاں شامل ہیں واضح رہے صحارا 249 افریقہ میں سالانہ بیس لاکھ افراد ٹی بی کے ہاتھو ں موت کی نیند سوجاتے ہیں جانورں یا حشرات سے انسانوں میں بیماریاں پھیلانے کا تیسرا زریعہ Virusesیا زہریلے مادے ہیں جو بیکٹریا کے مقابلے میں انتہائی مختصر اور برہنہ آنکھ سے ناقابل مشاہدہ ہوتے ہیں عموماان کی جسامت 15سے600نینو میٹر ہوتی ہے وائرس صحت مند خلیے کو متاثر کرنے کی صلاحیت بدرجہ اتم رکھتے ہیں اور اپنی ساخت کے لحاظ سے ایک پروٹین کے خول جسے Capsidکہتے ہیں میں DNAاور RNAدونوں پر مشتمل ہوتے ہیں وائرس اپنی تعداد بڑھانے کے لئے کسی جاندار کو اپنامیزبان بناتے ہیں ازخود افزائش کی ان میں صلاحیت نہیں ہوتی دوسرے لفظوں میں وائرس اپنے میزبان کے ساتھ اپنے DNAکے تال میل سے جنیاتی بنیاد پر اپنی تعداد بڑھاتے ہوئے متعدد بیماریو ں کا موجب بنتے ہیں جن میں عام بیماریوں میں سردی کا لگنا249خسرہ249 فلو249زکام کے علاوہ خطرنا ک بیماریوں میں ایبولا249 AIDS249ایون فلو اور SARSجیسی جان لیوا بیماریا ں شامل ہیں اسکے علاوہ طبی حلقوں میں یہ بحث بھی زور شور سے جاری ہے کہ Bornaوائرس جو گھوڑوں میں دماغی امراض پیدا کرنے کی وجہ ہے کیا انسانوں میں بھیZoonosis Infection Disease کی طرح دماغی خلل کی بیماریوں کاباعث بن رہا ہے Zoonosis Infection Diseaseکا انسانوں میں پھیلاؤ کاچوتھا ذریعہ نسبتا کم نقصان دہ ہے یہ ذریعہ فنجائی (Fungi)یا فنگس ہے اس سے ابھی تک نہایت مختصر پیمانے پر نقصانات سامنے آئے ہیں تاہم متاثرہ فنجائی سے انسانوں میں منتقل ہونے والی بیماریوں میں Opportunistic Pneumonia249داد249Candidacies249Histoplasmisisاور Cryptococcosis قابل ذکرہیں Zoonosis Infection Diseaseکے پھیلنے کاپانچواں اور اہم ترین ذریعہ Prionsوائر س ہے جو Protein Infection Particleکا مختصر نام ہے اس زریعے سے پیدا ہونے والی مہلک ترین بیماری Bovine Spongiform Encephalopathy (BSE)ہے جس کا عام فہم نام ’’ پاگل گائے ‘‘ یا Mad-Cow Diseaseہے میڈ کاؤ بیماری مویشیوں میں دماغی عارضے کا نام ہے اس بیماری کی تباہ کاریوں نے برطانوی ماہرین حیاتیات کو بری طرح پریشان کر رکھاہے صرف برطانیہ میں Mad-Cow Disease سے متاثرہ 179,000مویشی موت کا شکار ہوچکے ہیں جب کہ حفاظتی تدابیرکے طور پر چالیس لاکھ مویشیوں کو ماراجاچکا ہے اس بیماری کی تبا ہ کاری اس وقت نہایت گھمبیر صورت اختیار کر گئیں جب اس بات کا یقین ہو گیا کہ متاثرہ جانوروں کاگوشت کھانے سے یہ بیماری انسانوں میں بھی بطور Zoonosis Infection Disease کے منتقل ہورہی ہے جسے Variant Creutzfeldt-Jakob Disease (vCJD) کے خونی نام سے جانا جاتا ہے واضح رہے Prion کا وائرس بطور Zoonosis Infection Disease صرف دماغی صحت متاثر کرتا ہے-

Zoonosisوبائی امراض کے پھیلنے کے Clinicallyذرائع کے بعد ہم ذکر کرینگے کہ جانوروں کے امراض کی وہ کونسی متعدی یا وبائی بیماریاں ہیں جواپنا روپ تبدیل کرکے انسانوں کو متاثر کر رہیں ہیں یو ں تو ان کی فہرست خاصی طویل ہے مگر چونکہ ہمارا ملک میں بل خصوص کراچی اور لاہور کی عوام ڈینگی وائرس (Dengue Virus Fever)کے ہاتھو ں خاصے پریشان اور متفکر ہیں لہذا ڈینگی کا ذکر پہلے کرنا ضروری ہے تاہم ڈینگی بخار یا ڈینگی جریانی بخار (Dengue Hemorrhagic Fever)کو سمجھنے سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ’’ وائرل ہیمورجک بخار‘‘( Viral Hemorrhagic Fever) یا جریان خون بخار کیا ہے VHFsیا وائرل ہیمورجک فیورایسی بیماریوں کا مجموعہ ہے جس میں دوران بخار انسانی جسم کے مختلف مقامات سے خون بہنے لگتا ہے اس عمل کے زمہ دار چار جرثومے ہیں جن کے نام ’’ایرینا وائرس249Filoviridae249Bunyaviridaeاور Flavivirusوائرسز‘‘ہیں،وائرل ہیمورجک فیور کی اقسام میں لاسا فیور249 مورگبرگ وائرل انفیکشن249 ایبولا انفیکشن249 بولیوین ہیمورجک فیور249 ہنٹا وائرس (کورین ہیمورجک فیور)کریمین کانگو ہیمورجک فیور اور ڈینگی ہیمورجک فیور شامل ہیںBBCکی ایک خبر کے مطابق اگست 2007میں 103افراد جس میں 100بالغ افراد اور 3بچے شامل تھے Ebolaہیمورجک فیور کے ہاتھوں افریقہ کے ملک کانگو کے ایک گاؤں مواکا میں جاں بحق ہوئے جسکی تصدیق WHOنے متاثرہ افراد کے خون کے نمونوں میں Ebolaوائرس کی تصدیق کے بعد کی تھی اس سے قبل 1995میں اس گاؤں سے 200میل دور ایک دوسرے گاؤں Kikwitمیں 245افراد اسی بھیانک وائرس کے ہاتھوں لقمہ اجل بنے تھے جب کے 1998سے 2000کے دوران کانگو کے دو گاؤں’’ دوربا‘‘ اور’’ واستا‘‘ میں Marburg وائرل انفیکشن نے تباہی مچائی تھی۔

جہاں تک ڈینگی فیور یا ڈینگی ہیمورجک فیور (DHF) پھیلانے والے ڈینگی وائرس کا تعلق ہے تو یہ وائرسوں کے خاندان Flavivirdaeسے تعلق رکھتا ہے اور جسے وائرسوں کی درجہ بندی ٹیبل میں (Group IV(+ssRNAمیں رکھا گیا ہے Zoonosis Infection Diseaseسے وابستہ ڈینگی فیور کا وائرس بنیادی طور پر گرم ملکوں اور افریقہ میں پایا جاتا ہے اس وائرس کو پھیلانے کی ذمہ داری قدرت نے زیبرے کی مانند سفید دھار ی دار " ایڈیز ایجپٹا ئی" (Aedes Agypti) نامی مادہ مچھر کو دی ہے جو دن کی روشنی میں نہایت خاموشی سے انسانی خون نوش کرنے کے دوران ڈینگی وائرس جسم میں داخل کر دیتی ہے اس بخار کی علامات میں سب سے اہم تیز بخار کے ساتھ عضلات اور جوڑوں میں شدید دررکا ہونا ہے یہی وجہ ہے براعظم افریقہ کی سواحلی زبان میں ڈینگی کے معنی "ہڈی توڑ بخار" کے ہیں ان علامات کے علاوہ جسم پر چمکتے ہوئے سرخ دھبے ہاتھو ں سے لیکر سینے تک ظاہر ہوتے ہیں جب کے بعض صورتوں میں یہ دھبے مریض کے پورے جسم پر بھی آجاتے ہیں اس کے علاوہ درد شکم249 آنکھوں کے ڈیلے کا متاثر ہونا اور حلقوں کا گہرا ہونا249 شدید سر درد249 قے وغیرہ شامل ہے ڈینگی بخار میں کبھی کبھار جسم پر دھبے نہیں پڑتے جس کی بنیاد پر اسے عام بخار سمجھ کر مریض احتیاط نہیں کرتے نتیجتا مرض کی شدت میں اضافہ ہوجاتا ہے جب عام ڈینگی بخار 249 ڈینگی ہیمورجک فیور میں تبدیل ہوکر انتہائی تیز بخار کے ساتھ جریان خون کا باعث بنتے ہوئے ناک 249 مسوڑوں اور منہ سے خون بہنے کے ساتھ ساتھ جسم کے دیگر حصوں سے خون بہنے کا باعث بننے لگتا ہے اور جس کے نتیجے میں مریض کے خون کے Plateletsمیں کمی واقع ہونے لگتی ہے تو اس تشویش ناک صورتحال کو ڈینگی شاک سینڈروم (Dengu Shock Syndrome)کہتے ہیں یہ ہولناک کیفیت ذیادہ تر موت پر جاکر منتح ہوتی ہے ۔ اقوام متحدہ کے صحت کے معاملات سے متعلق ادارے WHOنے 1975میں ڈینگی ہیمورجک فیور کی تشخیص کے حوالے سے چاررہنما ہدایات جاری کیں تھیں جن کے مطابق ایک نمبر پر تیز بخار دوسرے نمبر پر جریان خون کے حوالے سےTourniquetٹیسٹ کا مثبت آنا اور اس دوران کھال پر دھبے ظاہر ہونا249 لعاب میں خون 249خون کی الٹی 249مسوڑوں کی سوجن اور ان سے خون کاآنا اور خونی اسہال تیسرے نمبر پر MM3کی خون کی مقدار میں پلیٹس لیٹس کا 100,000سے کم ہونا اور چوتھے نمبر پر خون میں موجودپلازما میں رخنہ پید ا ہونا جس میں پلازما کا Hematocritکی متوقع مقدار سے 20%فیصد زیادہ یا نچلی لائن سے 20%فیصد کم شدت کا ہونا شامل ہے ان چار علامتو ں کے علاوہ ڈینگی ہیمورجک فیور میں نبض فورا ڈوبنے لگتی ہے بلڈ پریشر انتہائی تیزی سے گرنے لگتا ہے اور بے چینی عروج پرہوتی ہے ۔

Zoonosis Infection Diseaseکی ایک اور خطرناک قسم Crimean-Congo hemorrhagic fever (CCHF)ہے جسے عام طور پر کانگو وائرس کے نام سے پہچانا جاتا ہے اس وائرس کے ہاتھو ں 1976میں راولپنڈی میں چار افراد موت کا شکار ہوئے تھے اسکے بعد 2000میں بھی یہ وائرس پنڈی میں ہی ظاہر ہوا تھاHyalomma Arginatumنامی چیچڑی وہ ذریعہ ہے جو Bunyaviridae وائرس کومتاثرہ حیوانوں سے انسانوں میں منتقل کرکے ہلاکت آفرینی کا باعث بنتی ہے کانگو وائرس سب سے پہلے 1945میں روس کے علاقے کریمیا (Crimea)میں تشخیص کیا گیا تاہم 1956میں وسطی افریقہ کے ملک کانگو میں اس Haemorrahagic Feverکی درست تشخیص کی گئی اس حوالے سے اسے کانگو وائرس کہا جانے لگاکانگو وائرس اب تک پاکستان کے علاوہ براعظم افریقہ کے جنوب مشرقی حصے کے ساتھ بحر ہند میں واقع دنیا کے چوتھے بڑے جزیرے مڈغاسکر اور دیگر ممالک میں سینگال249 کانگو249 ایتھوپیا249 کینیاء کے علاوہ وسطی یور پ کے ملک ہنگری کے علاوہ جنوبی مشرق یورپ میں واقع یونان اور ایشیائی ممالک میں چین249 عراق اور ازبکستان میں اپنی خون ریزی دکھا چکا ہے کانگو وائرس پھیلنے کی اصل جڑ Hyalomma Arginatumنامی وائرس سے متاثرہ چیچڑی سب سے پہلے پرندوں کے پروں اور پنجوں پر سوار ہوکر دنیا بھر میں سفر کرتے ہوئے خرگوشوں اور چوہوں کے ساتھ اپنا ناطہ جوڑ کر انسانی آبادیوں کا رخ کرتی ہے جہاں اس کے منظور نظر Live Stockیعنی بھیڑ249 بکری249 گائے249 بھینس اور دیگر مما لیہ جانور بنتے ہیں جن میں باآسانی سرایت کرنے کے بعدجب یہ متاثرہ چیچڑی کسی انسان کو کاٹتی ہے جو عموما دودھ دوہنے والے افراد249 قصائی یا مویشیوں سے متعلق کام کرنے والے ہوتے ہیں تو ایک سے تین دن کے اندر متاثرہ انسان کانگو وائرس کا شکار ہوجاتا ہے جس میں تیز بخار249 خون کی الٹیاں249 جوڑوں میں درد249 کمزوری249 پیٹ کا درد اور پھر مرض کی شدت بڑھ جانے کی صورت میں جگر میں سوجن249 آنکھ 249 منہ اور پھیپھڑوں سے خون کا اخراج شروع ہوجاتا ہے اس سطح پر آکر 30فیصد مریض موت کے منہ میں چلے جاتے ہیںZoonosis Infection Disease کی ایک اور انتہائی مہلک قسم Anthraxہے جس کی پھیلنے کی وجہ ایک سے لیکر نو مائیکرو میٹرکی جسامت اور چھڑی کی شکل کاBacillus anthracisنامی مہلک وائرس ہے Anthrax وائرس کا تولیدی خلیہ جو دنیا میں سوائے انٹارکیٹکا کے علاوہ ہر مقام پر مٹی(Soil) میں پایا جاتا ہے انتہائی سخت جان ہونے کے باعث ہزاروں سال تک زندہ رہنے کی سکت رکھتا ہے یہی وجہ ہے کے اسکا ذکر بائبل میں بھی آئیا ہے گھاس چرنے والے جانوروں میں گھاس اورپودوں وغیرہ کے ذریعے انکے جسم میں داخل ہوکر انہیں متاثر کرتا ہے یہ وائرس ذیادہ تر ان افراد کو متاثر کرتا ہے جو مویشیوں سے قربت کے کام کرتے ہیں اور اس وقت بھی ا نسان کو متاثر کرتا ہے جب متاثرہ جانور مر جائے اور اسکی لاش میں سے جراثیم فضاء میں پھیلنے لگیں یا پھر متاثرہ جانور کا گوشک کھایا جائے یا پھر متاثرہ جانور کی کھال سے بنی اشیاء استعمال کی جائیں یا زخم کے راستے وائرس انسانی جسم میں داخل ہوجائے عموما Anthraxوائرس وبائی شکل میں نہیں پھیلتا مگر مرض کی شدت کی صورت میں وبائی شکل بھی اختیار کرلیتا ہے ابتدائی علاج کے طور پر اینٹی بایوٹک ادویات کا کورس کرایا جاسکتا ہے اس مرض کی ابتدائی علامات میں سانس کی نالی میں انفیکشن اور ہلکے بخار کے ساتھ سانس لینے میں تکلیف شروع ہوجاتی ہے اور اگر اس کا فوری تدارک نہیں کیا جائے تو مریض موت کا شکار ہوجاتا ہے ایسے مریض کو مرنے کے بعد Isolate کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ محض دفن کرنے سے Anthrax وائرس ختم نہیں ہوتا Anthrax وائرس کی صفائی کے لئے WHOنے peroxides, ethylene Oxide, Sodium hypochlorite,Chlorine dioxide,Sandia Foam تجویزکئے ہیں Anthrax وائرس لیبارٹری میں بھی تیا ر کیا جاسکتا ہے اسی وجہ سے اسے حیاتیاتی جنگ میں فضا میں موجود انتہائی باریک فضائی زرات میں شامل کر کے بطور ہتھیار استعمال کیا جاسکتا ہے جیسے2001میں امریکہ میں پوسٹل سروس کے ذریعے Anthrax وائرس پھیلا کر تباہی مچانے کی کوشش کی گئی تھی۔

Zoonosis Infection Diseaseکی ایک اور شکل جو بہت شہرت کی حامل ہے وہ Avian influenzaہے جو Brid Fluکے نام سے جانی پہچانی جاتی ہے پرندوں میں پائے جانے والے اس وائرس کو جس سے انسان بھی متاثر ہو تے ہیںInfluenzavirus A (H5N1)کہا جاتا ہے جس میں مبتلا ہوجانے کے بعد مریض کو شدید کمزوری249 نظام تنفس میں بے اعتدالی249 سر درد249 جوڑوں اور عضلات کے درد249 ناک کا بہنااور آنکھوں کی دکھن کا سامنا کرنا پڑتا ہے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق2003سے لیکر اب تک دنیا بھر میں 194افراد Brid Fluکا شکار ہو کر موت کے منہ میں جا چکے ہیں واضح رہے متاثرہ افراد میں انڈونیشا249 ہانگ کانگ اور چین سے تعلق رکھنے والے افراد کی اکثریت ہے ممکنہ طور پر Zoonosis Infection Disease کی ایک اور قسم Severe Acute Respiratory Syndrome ہے جسے SARSکے نام سے بھی جانا جاتا ہے نومبر 2002میں جنوبی چین کے صوبے گوانگ ڈونگ کے دیہی علاقے فوشن میں میں ظاہر ہونے والی اس بیماری کو ایک قسم کی بلی جیسا جانور جس کی دم لمبی ہوتی ہے اور جسے Civet Catکہا جاتا ہے اس سے پھیلنے والے وائرس Coronavirusسے منسو ب کیا جاتا ہے WHOکی ایک رپورٹ کے مطابق 21اپریل 2004تک اس وبا کے ہاتھوں 1774اموات ہوچکی ہیں جب کہ 27ممالک میں 8096کیسزز رپورٹ ہوچکے ہیں جس میں صرف چین میں 349 249 ہانگ کانگ میں 299249 کینیڈا میں 43249 تائیوان میں37249سنگا پور میں 33اموات ہوچکی ہیں کینیڈا کے علاوہ کئی اور یور پین ممالک جن میں فرانس ایک فرد کی موت 249 جرمنی میں نو کیسزز249 سوئیڈن میں پانچ کیسزز249 اٹلی میں چار کیسزز249 برطانیہ میں بھی چار کیسززاور آئر لینڈ میں ایک کیس سامنے آئیا ہے۔

Zoonosis Infection Diseaseکے زمرے میں شامل ایک اور بیماری جسے Leishmaniasisکہتے ہیں بہت تیزی سے پھیل رہی ہے جنیاتی طور پر Leishmaniaگروہ سے تعلق رکھنے والی یہ بیماری جو Protozoanطفیلئے کی شکل میں Sand Flyمیں موجود ہوتی ہے اس کے کاٹنے سے انسانوں میں خون کی کمی249 کھال میں سوجن249 زخم 249 بدمزاجی249 جگر کی خرابی اور کھا ل کا سوج کر پھٹ جانا شامل ہے 1901میں اسکاٹش پیتھا لوجسٹ "ولیم بوگ لیشمین"کے نام سے منسوب یہ بیماری دنیا کے تقریبا 88ممالک میں بسنے والے 350ملین افراد کے درمیان موجود ہے مغربی ایشیاء کے صحراؤں سے لیکر وسطی اور جنوبی امریکہ کے بارانی جنگلوں میں اسکے مضروب موجود ہیں لیشمینائزز بیماری کے90فیصد کیسزز کا تعلق انڈیا249 پاکستان249 بنگلادیش249 نیپال249 سوڈان اور برازیل سے ہے جبکے باقیماندہ10فیصد علاقوں میں میکسیکو249 شمالی امریکہ249 جنوبی یورپ 249 مشرق وسطی 249 مشرقی اور شمالی افریقہ کے علاقے شامل ہیں واضح رہے براعظم آسٹریلیا لیشمینائزز سے محفوظ ہے 2003میں امریکی اور اتحادی افواج کی جانب سے عراق پر حملے کے بعد تقریبا 650فوجی اس سے متاثرہوئے تھے اور فرانسیسی پریس کے مطابق فوجی اس بیماری کو Baghdad Boilکے نام سے پکارتے تھے اسی طرح افغانستان بھی لیشمینائزز سے بہت متاثرہوا ہے WHOکے مطابق 2002میں کابل میں 200,000ہرات 249 قندھار اور مزار شریف کے علاقوں میں 70,000افرادSand flyکے کاٹنے سے بری طرح گھائل ہوئے تھےLeishmaiasisکی چار اقسام ہیں Visceral لشمینائزز 249 علاج نہ کرانے کی صورت میں خطرنا ک ہوجاتا ہے Cutaneous leishmaniasisسب سے عام صورت ہے جس میں زخم کے گرد سوجن اور درد ہوتا ہے اور زخم بھرنے میں چند مہینوں سے سالوں تک لگ جاتے ہیں تیسری قسم Diffuse Cutaneous لشمینائززجسم کو جذام کی طرح متاثر کرتی ہے اسکا علاج بھی مشکل ہے اور چوتھی قسم Mococutaneous لشمینائززسے پیدا ہونے والا زخم ناک اور منہ پر حملہ آور ہوکر ان کے ٹیشو تباہ کردیتا ہے۔

Zoonosis Infection Diseaseکے حوالے سے ایک اور بیماری Bolivian Hemorragic Feverہے جسے BHFبھی کہا جاتا ہے اور Black TyphusاورMachupo Virus بھی کہا جاتا ہے 1959میں جنوبی امریکہ کے وسط میں واقع ملک بولیویا میں ظاہر ہونے والی اس بیماری کی وجہ Machupoوائرس ہے جو Vesperچوہوں کے زریعے انسانوں میں منتقل ہو کر بیماری کا باعث بنتی ہے ایک اور بیماری جسے Yellow Fever یا زرد بخار بھی کہا جاتا ہے مچھروں کے کاٹنے سے Arbovirus وائرس کی وجہ سے انسانوں میں سرایت کرجاتی ہے نتیجتا یرقان جیسی کیفیات ظاہر ہوتی ہیں Yellow Feverطاعون کی وبا کی صورت میں ا فریقہ 249 ایشیا اور یورپ کی سیاسی تاریخ میں بھی بہت ا ہمیت کی حامل رہی ہےWHOکے مطابق جن علاقوں میں اسکے خلاف ویکسین نہیں کی گئی ہے وہاں سالانہ30,000سے 200,000افراد متاثر ہوتے ہیں واضح رہے جنوبی افریقہ کے ملک پریٹوریاکے Max Theilerجنہوں نے Yellow Fever کے خاتمے کے لئے کامیاب ویکسین بنائی تھی انہیں ان کی خدمت پر 1951میں میڈیسن کے شعبے Physiologyمیں نوبل پرائز ملا تھا Zoonosisکے زیر اثر ایک اور خطرناک اور عام بیماری Rabiesبھی ہے جو زیادہ تر پاگل کتے کے کاٹنے سے کتے کے اندر موجودوائرس Lyssavirus کے ا نسانوں میں منتقل ہوجانے سے ہوتی ہے اور ویکسین نہ کرانے کی صورت میں نہایت خطرناک نتائج ظاہر ہوتے ہیں جو عموما دماغی خلل کا باعث بنتے ہیں ۔

عہد جدید میں Zoonosisبیماریوں کی انسانوں میں منتقل ہونے کی سب سے اہم وجہ انسانوں کا حیوانوں کے ساتھ رابطے میں اضافہ ہے کیوں کہ بہت سے Scientist جنگلی حیات کی تحقیق میں جانورں کے قریب پہونچ جاتے ہیں اسی طرح ماحولیات کے حوالے سے کام کرنے والے بھی حیوانوں کی دنیا میں عمل دخل کرنے پر مجبور ہو تے ہیں نتیجے کے طور پر وہ اور انکی تحقیقاتی ٹیم اپنے ساتھ جانورں کی بیماریوں کے مہلک اور پے چیدہ وائرس اور بیکٹریاز انسانی آبادیوں میں منتقل کرنے کا باعث بنتے ہیں مثلا Swine Fluکا وائرس جو چڑیا گھروں میں کام کرنے والوں کو متاثر کرتا ہے اسی طرح 1994میں آسٹریلوی ریاست کوئنس لینڈ میں ریس کے گھوڑوں کے مشہور ٹرینر وک ریل اور ان کے ساتھی اچا نک بیمار ہوگئے اور چند دنوں بعد وہ خود اور اصطبل میں موجود 14گھوڑے بھی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جب آسٹریلین اینیمل ہیلتھ لیبارٹری (AAHL)نے ان کے خون کا تجزیہ کیا تو ان کی موت کی وجہ Paromyxoviridaeوائرس قرار پایا جو بعد میں تحقیق سے ثابت ہوا کہ چمگادڑوں میں موجود یہ وائرس گھوڑوں سے ہوتا ہوا انسانوں میں منتقل ہوکر اپنی تباہ کاری دکھا رہا ہے Zoonosis Disease سے تعلق رکھنے والے اس وائرس کو دنیا Hendraوائرس کے نام سے جانتی ہے ولچسپ بات یہ ہے یہ وائرس دو مختلف نوع سے منتقل ہو کر انسانوں کو اپنا نشانہ بنا رہا ہے جس میں مرکزی کردار چمگادڑ کا ہے جو خود تو اس وائرس سے بہت کم متاثر ہوتی ہے مگر وائرس انسانوں اور گھوڑوں کے لئے جان لیوا ثابت ہورہا ہے ۔مذکورہ بالا تمام Zoonosis Infection Diseaseمیں تشخیص کے حوالے سےPCR (polymerase chain reaction)ٹیسٹ کٹ کے خاطر خواہ نتائج سامنے آرہے ہیں جو مریض کے خون249 ٹیشو249 تھوک اور فضلے کی جنیاتی بنیاد پر جانچ کر کے مطلوبہ وائرس کی موجودگی کے بارے میں شواہد فراہم کر تا ہے۔
Zoonosis Infection Diseaseکی ہلاکت آفرینیاں صرف ان بیماریوں ہی تک محدود نہیں بلکہ انکے پہلوسے جنم لینے والی کئی ہلاکت خیز بیماریوں کاتعلق براہ راست یا بل واسطہZoonosis Infection Diseaseسے ہی ہے جن میں HIVاور ٹی بی جیسی خطرناک بیماریوں سے لیکر Ebola249گردن توڑ بخاراور کئی دیگر بیماریاں شامل ہیں مذکورہ بالا Zoonosisبیماریوں کے سرسری مطالعے اور مشاہدے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ نت نئی وبائی بیماریوں کے جنم لینے کی بنیادی وجہ دنیا کا سمٹ کر گلوبل ولیج بن جانا ہے جسکے باعث وبائی بیماریوں کو پھل پھولنے کا موقع مل رہاہے جس میں خصوصیت کے ساتھ حیوانوں کی بیماریوں کا انسانوں میں ظاہر ہو کر مہلک اور ناقابل علاج بن جانا نہایت توجہ طلب مسئلہ ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کہیں یہ انسانوں کی انسانوں کے خلاف حیاتیاتی جنگ تو نہیں یا پھر حیوانوں کی انسانوں کے خلاف غیر اعلانیہ جنگ ہے یا پھرہزاروں سال میں ترتیب پانے والا انسانوں کا مدافعتی نظام Human Immune System) (ایک مرتبہ پھر نئے سرے سے مرتب ہوگا یہی وہ اہم سوال ہیں جو شاید Zoonesis کاجواب بھی ہیں۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

ATEEQ AHMED AZMI
About the Author: ATEEQ AHMED AZMI Read More Articles by ATEEQ AHMED AZMI: 26 Articles with 109562 views I'm freelance feature essayist and self-employed translator... View More