اَب یہ بحث ختم ہونی چاہئے.....!
مُلک کے موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے کیا آپ کوبھی میری طرح ایسانہیں
لگتاہے..؟ کہ آج سرزمینِ پاکستان سیاستدانوں اور دہشت گردوں کے ناجائز
اقدامات اور عزائم کے لئے اکھاڑہ نہیں بن گئی ہے ...؟سیاستدانوں کاجب جی
چاہتاہے یہ آپس میںلڑلیتے ہیں اور دہشت گردوں کوبھی میرے دیس میں اتنی
آزادی حاصل ہے کہ یہ بھی جہاں چاہیںاور جب چاہیں بم دھماکوں، ٹارگٹ
کلنگ،اور خودکش حملوں سے اِنسانی خون سے اپنے ہاتھ رنگ لیتے ہیںاور اپنے
مزید عزائم کی تکمیل کے خاطر پہلے سے کہیںمنظم اور مربود ہوکر سرگرم رہتے
ہیں،اِس میں قصور کس کا ہے ...؟آج تک کوئی اِس کا تسلی بخش جواب نہیںدے
سکاہے، کہ صرف میرے ہی دیس میں یہ سب کچھ کیوں ہورہاہے...؟آج جسے دیکھ کر
انسانیت بھی اپنے کانوں کو ہاتھ لگانے لگتی ہے اور چھپنے کو کونا تلاش کرتی
ہے۔
میرے مُلک میںالزام لگاناسانس لینے سے بھی کہیںزیادہ آسان ہوگیاہے،جس کو
دیکھو سب ایک دوسرے پر الزام لگانے میں اِس طرح مصروف رہتے ہیں کہ جیسے یہ
اِن کاکوئی قومی فریضہ ہے، جودوسرے پر جتنازیادہ الزام اور بہتان لگائے گا
وہ اتناہی معتبر اور محترم ہوگا،ہماری سابقہ حکومت اور اِس سے بھی پچھلی
جتنی بھی حکومتیں گزری ہیں اِن سب کا بس یہی ایک کام تھا کہ اپنے پچھلوں پر
الزامات کی بھرمارکرنااور اپنی حکومتی مدت جیسے تیسے کرکے گزرجاناہوتاتھا۔
مگرآج بدقسمتی سے گیارہ مئی کے عام انتخابات سے جو حکومت وجود میں آئی ہے،
اِس کے لچھن بھی کچھ اپنے پچھلوں سے مختلف نہیں ہیں، اِس نے بھی آتے ہی اُس
ہی روش پر چلنے کی ٹھان لی ہے جس پر اِس کے پچھلے چلاکرتے تھے یعنی اِس نے
بھی قومی خزانہ خالی ہونے کا نعرہ لگایاہے اور غریبوں کی خون پیسے کی کمائی
پرٹیکس عائد کرکے اِسے بھرنے کا ڈھونگ رچانا شروع کردیاہے اِس حوالے سے
موجودہ حکومت نے حالیہ بجٹ میں جنرل سیلزٹیکس کی مد میں ایک فیصد اضافہ
کرکے غریبوں کو مہنگائی کے بوجھ تلے دباناچاہاتھا مگر وہ تو اللہ بھلاکرے
ہمارے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری صاحب کا جنہوں نے اِس پر فوراََ نوٹس
لیا اور یوں گزشتہ جمعے کو سُپریم کو رٹ نے بارہ جو ن کو پیش کئے جانے والے
وفاقی بجٹ 2013-14 میں جی ایس ٹی میں ایک فیصد اضافے کو کالعدم قراردے
دیاہے اور اَب اِس کے بعد یہ بحث بھی ختم ہوجانی چاہئے کہ جی ایس ٹی کا
نفاذقانونی تھا یا غیرقانونی...اَب کیوں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے نے یہ اچھی
طرح سے واضح کردیاہے کہ پارلیمنٹ سے بجٹ کی منظوری کے بغیر جی ایس ٹی
کانفاذ غیرآئینی ہے ،اورحکومت پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر کوئی ٹیکس وصول
نہیں کرسکتی ہے،تو پھر وزیرخزانہ سینیٹراسحاق ڈار کا کیا یہ کہنا مضحکہ خیز
نہیں ہے کہ” جی ایس ٹی کا نفاذ قانونی تھا ،عوام نے ہمیں مینڈیٹ دیاہے مجھے
کوئی معیشت سے متعلق کچھ نہ سمجھائے، ملک کو ٹھیک کرنے کے لئے تکلیف دہ
فیصلے کرنے ہوں گے اور(امیروں کو بچاکر غریبوں پر ٹیکسوں کی بھرمارکرے کے )ٹیکسوں
کے ذریعے ہی پیسے جمع کئے جائیں گے البتہ ..!اِن کا یہ سب کچھ کہہ لینے کے
بعد یہ بھی کہناتھا کہ” سُپریم کورٹ کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں“جبکہ اِن
کے برعکس اپوزیشن کی جماعتیں پی پی، تحریک انصاف، متحدہ قومی موومنٹ اور
جماعت اسلامی کا کہنا ہے کہ حکومت کو ہر حال میں سُپریم کورٹ کے فیصلے کو
تسلیم کرناہوگاکیوں کہ جی ایس ٹی کا نفاذ غیر آئینی تھا “ آج یقیناسپریم
کورٹ کے فیصلے سے مُلک کے غریب عوام کی فتح ہوئی ہے اور سُپریم کورٹ کے اِس
فیصلے سے اِن میں جینے کی اُمیدپیداہوگئی ہے ۔
سُپریم کورٹ کا فیصلہ یقیناایک تاریخی اہمت کا حامل فیصلہ ہے جہاں اِس کے
مستقبل قریب میں دوررس نتائج برآمد ہوں گے ،تو وہیں عوام میں یہ عنصر بھی
یقینا پروان چڑھے گا کہ آج مُلک میں عدلیہ آزادہے اور ہر غریب کے لئے بھی
انصاف کے دروازے کھلے ہیں جو ماضی میںغریبوں کے لئے شائد بند کردیئے گئے
تھے مگر اِس کے باوجود بھی میں اکثر یہ سوچتاہوں کہ میرے مُلک کے حکمران جو
غریبوں کے ہی ووٹ سے آتے ہیں ، اقتدار کی مسند پر قدم رکھتے ہی اِن کی ذات
میں منافقت اور جھوٹ و فریب اور مفادات کا عنصر کہاں سے غالب آجاتاہے
...؟کہ یہ اُن لوگوں کے لئے ہی کیوںجلاد بن جاتے ہیں جو اِنہیں ووٹ دے کر
اقتدار کی سیج تک پہنچاتے ہیں...؟یہ اور میری طرح آ پ کے ذہن میں بھی ایسے
کئی سوالات ضرورپیداہوتے ہوں گے مگر اِن کا کوئی جواب نہیں دے پاتا ہے کیوں
کہ ہم جن سے اپنے سوالات کا جواب چاہتے ہیںاُن کے پاس ہمارے اِن سوالات کے
جوابات نہیںہوتے ہیں یا وہ دانستہ طور پر دیناہی نہیں چاہتے ہیں۔
جبکہ آج یہ حقیقت ہے کہ میرے مُلک کا ہر سیاستدان اور حکمران نیاپاکستان
بنانے اور ایک نئی دنیاپیداکرنے کا عزم تو بہت کرتاہے مگروہ اپنے اِس عزم
میں اُن غریبوں کو بھول جاتاہے ، جو اِسے اِس کے خوابوں کی تعبیر کے لئے
تیار کرتے ہیں اور جو اِس کے ایک اشارے پر اپنا تن من اور دھن اور وہ سب
کچھ جو اِن کی ذات سے نتھی ہوتے ہیں اُنہیں قربان کرنے سے بھی دریغ
نہیںکرتے ہیںمگر اِس کے باوجود بھی اِن غریبوں کے حصے میں احساسِ محرومی
اور ٹھوکروں کے سواکچھ نہیں آتاہے۔
دانا کہتے ہیں کہ کسی بھی معاشرے میں زندگی کے اثار اور ترقی کی رفتار کا
انداز لوگوں کے طرززندگی اور معیشت سے لگایا جاسکتاہے ، مگر افسوس ہے کہ
گزشتہ کئی سالوں سے میرے ملک میں نہ کوئی ایسامعاشرہ موجود ہے جسے دیکھ کر
یہ انداز لگایاجاسکے کہ یہاں کون سی تہذیب پنپ رہی ہے اور اِس میںکس انداز
کی زندگی رواں دواں ہے اور اِسی طرح اِ س کی معیشت کا کیا معیار ہے...؟یہ
سب کچھ دیکھ کر افسوس ہوتاہے کہ ہم نے اغیار کی جنگ میں خود کو جھونک کر
اپنامعاشرہ ، اپنی تہذیب، اپنی طرززندگی اور اپنی معیشت کا بھی بیڑاغرق
کردیاہے،مگر ابھی وقت ہے کہ اگرہم آج بھی اغیارکی جنگ سے نکل جائیں تو
ہمارے دہشت گردی سمیت اور بہت سے اندرونی او ربیرونی مسائل حل ہوسکتے ہیں
اور ہمارا مُلک بھی ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوکر اُوج ثُریاکی
اُن بلندیوں تک پہنچ سکتاہے ، جس سے اغیار ہمیں روکنے کا ارادہ رکھتے ہیں،
اور چند کروڑ ڈالرز کی بھیک دے کرہمیں اپنی جنگ میںدھکیل کر مزہ لوٹ رہے
ہیں۔ |