کانچ کے گھر

 کانچ کے گھر
سابقہ رکن قومی اسمبلی
دانشور کہتے ہیں کہ کانچ کے گھر میں بیٹھ کر دوسروں پہ پتھر نہیں پھینکتے
لیکن کیا کیجئے کہ ملکی سیاست کا سارا دارو مدار سنگ باری پر ہی دیکھا ہے

آج تخت ۔۔۔ کل تختہ،آج ایوان اقتدار تو کل جیل کی کال کوٹھڑی ۔بیتے ماہ و سال گواہ ہیں کہ ملکی ہی نہیں بیرون ملک سیاسی منظر نامے بھی اسی رفتار سے تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ گزشتہ الیکشن میں منتخب ہونے سے پہلے موجودہ ملکی قیادت کے کٹھن ماہ و سال ، صعوبتیں ، عقوبتیں اور زبوں حالی کوئی پرانا قصہ نہیں لیکن اک ذرا ایوان اقتدار میں جانے کی دیر ہوتی ہے کہ چہرے ہی بدل جاتے ہیں ، آواز کے اتار چڑھاؤ تبدیل ہوجاتے ہیں ، ووٹ مانگنے کیلئے ووٹرز کے دروازے پر جانے والے اور حلف اٹھانے کے بعد ایوان میں داخل ہوتے قدموں کی رفتار میں اتنا ہی فرق آ جاتا ہے جتنا کہ زمین اور آسمان میں ہے۔

اور اگر کچھ نہیں بدلتا تو وہ غریب عوام کا دل ہے جو ہر مرتبہ ڈسے جانے کے بعد پھر انھی زہریلے ناگوں سے آس لگاکے ووٹ دے دیتے ہیں ، کتنی مہنگی پڑتی ہے یہ خوش فہمی کہ شاید اب کی بار ان کا نصیب بدل جائے ۔نصیب تو کیا بدلے گا رہی سہی جان بھی نکال لی جاتی ہے ، نئے سرے سے کھال کھینچی جاتی ہے ، جینے کے لوزمات ایک ایک کر کے مٹھی میں سے ریت کی طرح پھسلتے جاتے ہیں لیکن کوئی نہیں جو احتساب کرسکے کہ الیکشن کے بعد کس کا سرمایہ دوگنا ہوا، کس نے ایک غریب ملک میں رہ کر دنیا کے امیر تریں لوگوں کی صف میں اپنا نام شامل کروایا اور کیسے ان کی نسلوں کی نسلیں رئیس بن گئیں ۔محدود کاروبار کی شاخیں لامحدود ہو کے بیرون ملک مہنگی ترین رئیل اسٹیٹ تک کیسے پہنچیں ، غریب عوام کو ڈیویلپمنٹ کے نام پر چند لولی پاپ تھما کے ان کی فلاح کے نام پر کتنے مالی مفاد حاصل کئے گئے ، اپنے لئے موٹروے بنا کے اپنے دور اقتدار کے سفر اور ماحضر کو پرکشش بنانے والوں کی آنکھیں شاید پتھر کی ہیں ، نظر نہیں آتا کہ ملک میں سڑکوں کی صورتحال کیسی ہے ، اپنے لئے رائیونڈ اسٹیٹ بنا کے لاہور سے باہر جابسنے والوں کے تو پارٹی دفتر تک بھی کسی غریب کی رسائی نہیں ، شنوائی کیا خاک ہوگی ، انھی غریبوں میں سے کوئی انھی جیسا سامنے آئے گا تو منظر بدلے گا، ابھی تو بین الاقوامی بھکاریوں نے بھوکے ننگے عوام کی حالت بد سے بدتر کرنے کا بیڑہ اٹھا رکھا ہے ۔ اس کار بد میں بیرون ملک سے امداد دینے والے ادارے بھی شامل ہیں کیونکہ وہ بھی دیکھتے سنتے ہوئے ان کاروباری خادموں کو فنڈز دئے جارہے ہیں یہ جانتے بوجھتے ہوئے کہ پاکستانی عوام پیچھے اور پیچھے اور پیچھے جارہے ہیں ، ان کی بلا سے کہ یہ بھی ایک حربہ ہے سر اٹھانے والوں کو جھکانے کا ۔ جو بھی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ انقلابات زمانہ سے کچھ بعید نہیں ، ممولے سانپ سے لڑنے کیلئے تیار ہیں ، پنچھی جال سمیت اڑنے کیلئے بے تاب ہیں کہ اب تاب نہیں برداشت کی اور حوصلہ نہیں مزید لٹنے کا ۔اب سامان سمیٹ لیں سب تیر انداز ، سارے تلوار باز ، سارے شکاری کہ اب ہے ان کی باری ،۔،
تیر لوٹیں گے سب کمانوں کو
ظلم ۔۔۔ کوئی نہ اب سہا جائے
بشریٰ حزیں
About the Author: بشریٰ حزیں Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.