عراق میں جہادی سات ہزار قیدی چھڑوالے گئے

عراق کی ابو غریب جیل کا نام تو آپ نے سنا ہی ہوگا بلکہ اس خوفناک او بدنام زمانہ جیل کا نام سن کر شاید آپ کانپ بھی گئے ہوں۔بغداد کے مغرب میں واقع 280 ایکڑ پر محیط اس جیل میں قیدیوں سے ہر انسانیت سوز سلوک کیا جاتا رہا۔ 2004 میں امریکی فوجیوں کی جانب سے عراقی قیدیوں سے انسانیت سوزسلوک اور ان کی عریاں تصاویرمیڈیا کے ذریعے عام ہونے کے بعد ایک عالمی اسکینڈل کا موضوع بنی رہی۔ قیدیوں سے ناروا سلوک کی ننگی تصاویر منظرعام پر آنے کے بعد عراق میں مزاحمتی سرگرمیوں اور امریکا کے خلاف نفرت میں اضافہ ہوا تھا۔ یہاں ہونے والے ظلم کی داستانیں سن کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔

امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کا اس جیل میں ہونے والے ظلم کے بارے میں کہنا تھا کہ اس حوالے سے سینکڑوں ایسی تصاویر اور ویڈیوز دیکھی گئی ہیں جن میں ٹارچر کے ایسے نئے طریقے سامنے آئے ہیں جو اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھے گئے۔ اپنے حلفیہ بیانات میں عراقی قیدیوں نے بتایا کہ انہیں مارا پیٹا گیا اور جنسی طور پر ذلیل کیا گیا۔ انہیں سور کا گوشت کھانے اور شراب پینے پر مجبور کیا گیا۔ ایک تصویر میں دکھایا گیا کہ انسانی نجاست سے لتھڑے ہوئے ایک قیدی کو راہداری میں چلایا جا رہا ہے۔ ایک قیدی جس کے چہرے پر غلاف چڑھا ہوا ہے، تقریباً بے ہوش ہونے والا ہے اور ایک قیدی زمین پر گرا ہوا ہے اور اسے ایک امریکی فوجی مار رہا ہے۔ ایک ویڈیو میں ایک قیدی کو جیل کے دروازے کی سلاخوں سے باندھا دکھایا گیا۔ وہ بار بار اپنا سر سلاخوں میں مارتا ہے اور بالآخر بے ہوش ہوکر کیمرہ مین کے پیروں پر گر جاتا ہے۔ امین سعید الشیخ نامی ایک قیدی کا کہنا تھا کہ ایک امریکی سپاہی نے اس سے پوچھا کہ تمہیں کس چیز پر یقین ہے؟ قیدی نے کہا کہ اسے اللہ پر یقین ہے۔ امریکی فوجی نے کہا لیکن مجھے تو ٹارچر پر یقین ہے اور میں تمہیں ٹارچر کروں گا۔ اس پر ایک اور سپاہی نے اس کی ٹوٹی ہوئی ٹانگ پر ضربیں لگائیں اور اسے اسلام کو گالیاں دینے پر مجبور کیا۔ کئی قیدیوں نے بتایا کہ جیل پہنچنے پر انہیں ننگا کیا جاتا تھا۔

ابو غریب جیل میں ہونے والے بے شمار انسانیت سوزمظالم کے منظر عام پر آنے کے بعد امریکی عوام بھی کہہ اٹھے کہ عراقی قیدیوں پر تشدد نہایت ہی بہیمانہ حرکات ہیں۔ ہم امریکی اس پر بہت ہی شرمسار ہیں۔ ایک امریکی کا کہنا تھا کہ عراقی قیدیوں پر تشدد میں سپاہیوں اور افسروں سے زیادہ بہت ہی اوپری سطح پر بیٹھے ہوئے ملوث ہیں اور ان لوگوں میں رمز فیلڈ اور بش جیسے لوگ بھی آ جاتے ہیں۔ خود امریکی صدر بش نے ابوغریب جیل میں قیدیوں پر ہونے والے تشدد کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ابوغریب جیل میں قیدیوں پر ہونے والے تشدد کے منظر عام پر آنے سے امریکا کی ساکھ متاثر ہوئی ہے۔ قیدیوں سے بدسلوکی کے اسکینڈل کے بعد امریکی حکام نے 2006 میں ابوغریب جیل کو بند کردیا تھا۔ اس کے بعد غالباً 2009 میں اس جیل کو عراق کے دارالحکومت بغداد کے قریب تزئین اور تعمیر نو کے بعد نئے نام کے ساتھ دوبارہ کھول دیا گیاتھا جس میں 12 سے 15 ہزار قیدی رکھنے کی گنجائش موجود تھی۔

گزشتہ دنوں عراقی مجاہدین نے عراق میں انہی ابوغریب اور تاجی جیلوں پر حملے کر کے سات ہزار قیدیوں کو رہا کراولیا ہے۔ عراق میں فورسز نے کئی برس سے گرفتار قیدیوں کو جیلوں میں تشددوتعذیب اور سزائے موت دینے کا سلسلہ شروع کررکھا تھا۔ عراق میں جہادیوں کے امیر ابوبکر البغدادی نے گزشتہ برس جولائی 2012 میں ایک آڈیو بیان جاری کرکے جہادیوں سے جیلوں کی دیواریں گرا کرقیدیوں کو آزاد کرانے کے لیے سرگرم ہونے کا اعلان کیا تھا۔ پورے ایک سال بعد 21 جولائی 2013 رمضان المبارک کی تیرہویں رات کو رات کے 9 بجے عراقی مجاہدین نے بیک وقت عراق کی سب سے سخت سیکورٹی والی دو جیلوں ”بغداد المرکزی جیل (ابو غریب) اور الحوت جیل (التاجی)“ پر زبردست حملہ کیا۔ بارود سے بھری ہوئی 12 گاڑیوں کو چلاتے ہوئے جیلوں کے مرکزی دروازوں اور بیرونی دیواروں کے پاس لے کر گئے، جہاں ان گاڑیوں کو دھماکوں سے اڑا کر حملہ آوروں کے لیے راستہ صاف کیا گیا۔ اسی دوران مجاہدین نے دونوں جیلوں کی طرف جانے والی مرکزی شاہراہ اور سڑکوں (بغداد ابو غریب سڑک اور بغداد موصل سڑک) پر واقع تمام چیک پوسٹوں اور ناکوں پر حملہ کرکے فوجی اہلکاروں کو نشانہ بناتے ہوئے ان میں سے بعض کو ہلاک کردیا جبکہ بعض جان بچاتے ہوئے بھاگ گئے۔ اس کے بعد مجاہدین نے جیلوں کی طرف جانے والی سڑکوں کو بلاک کرتے ہوئے فوج کی زمینی سپلائی اور امدادی لائن کاٹ کر پورا ایریا اپنے کنٹرول میں کرلیا جبکہ پولیس کی مدد کے لیے آنے والے فضائی فوجی طیاروں کو بھی نشانہ بناکر ان کی نقل وحرکت کو بھی مفلوج کردیا۔ اس کے ساتھ ہی مجاہدین نے دونوں جیلوں کے قریب واقع حکومتی فوج کے دو فوجی کیمپ المثنی بریگیڈ اور التاجی کیمپوں پر میزائلوں اور مارٹر گولوں سے حملے کرنا شروع کردیے۔ اس طرح فورسز کی تمام زمینی وفضائی نقل وحرکت کو مجاہدین نے مکمل طور پر مفلوج بنادیا۔ اس کے بعد حملہ آوروں نے دونوں جیلوں میں گھستے ہوئے تمام پہرے دار فوجی اہلکاروں سے جھڑپ کرنا شروع کردی۔

اطلاعات کے مطابق مجاہدین نے کارروائی سے پہلے ہی قیدیوں کو اسلحہ، بارودی جیکٹیں اور ہتھیار پہنچادیے تھے۔ اس کارروائی کے آغاز کے ساتھ ہی قیدیوں نے جیل کے اندر سے ہی حملہ کرکے جیل کی تمام عمارتوں اور فوجی پوائنٹوں پر کھڑے تمام فوجی اہلکاروں اور جیلروں کو ہلاک کردیا تھا۔ اس طرح مجاہدین نے دونوں جیلوں کا کنٹرول سنبھال کر 7000 سے زائد مسلم قیدیوں کو رہا کروایا جبکہ امریکی و حکومتی افواج اپنی تمام زمینی قوت اور فوجی طیاروں کا استعمال کرنے کے باوجود بھی مجاہدین کو ناکام کرنے میں ناکام رہی۔ اس کارروائی میں مجاہدین نے دونوں جیلوں میں سے 500 سے زائد ایسے بہترین تربیت یافتہ جنگجو قیدیوں کو رہا کرایا ہے، جو عرب خطے کے سب سے بہترین شہسوار ہیں۔ ان 500 جنگجوﺅں اور دیگر تمام قیدیوں کو محفوظ مقام پر منتقل کردیا گیا ہے۔ اس کارروائی میں دونوں جیلوں پر تعینات حکومتی فوج کے 120 سے زائد اہلکاروں کو ہلاک کیا اور بیسیوں کو زخمی کیا۔ اس کارروائی میں جہادیوں نے بڑی تعداد میں اسلحہ بھی چھینا جبکہ جیل کی عمارتوں کو تباہ اور فوجی گاڑیاں جن کو اپنی جگہ سے لیکر جانا ناممکن تھا، انہیں نذرآتش کردیا۔

مغربی مبصرین اس کارروائی کو القاعدہ کی نائن الیون سے بھی زیادہ بڑی کارروائی قرار دیں رہے ہیں کہ جس میں القاعدہ نے تمام افواج، اس کے جہازوں اور تمام جنگی سازوسامان کو ناکارہ بناکر قیدیوں کو انتہائی سخت سیکورٹی والے فوجی ایریے سے نکال کر لے گئے اور افواج گھٹنے ٹیکنے کے سوا کچھ کرنہ پائیں۔ انٹرپول نے رہا ہونے والے قیدیوں میں سزائے موت کے 2006 اور2007 سے قید مطلوب ترین مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے مجاہدین کے رہا ہونے پر عرب خطے میں سیکورٹی ہائی الرٹ کرتے ہوئے انہیں عالمی امن کے لیے خطرہ قرار دیا ہے۔ عراق کی وزارتِ داخلہ کا کہنا ہے کہ بغداد کے قریب واقع دو جیلوں پر حملے اور اس کے نتیجے میں قیدیوں کے فرار ہونے کے واقعات میں جیل محافظین ملوث تھے۔ وزارتِ داخلہ کی ویب سائٹ پر جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ جہاں حملہ آوروں نے باہر سے جیلوں پر مارٹر گولے برسائے، وہیں جیل کے اندر قیدیوں نے بلوہ کر دیا تھا۔ عراقی پارلیمان کے سینیئر رکن حکیم الزمیلی کا کہنا تھا کہ فرار ہونے والوں میں سے بیشتر القاعدہ کے اہم ارکان تھے جنہیں سزائے موت سنائی گئی تھی۔ انٹرنیٹ پر جاری کیے گئے ایک بیان میں القاعدہ کا کہنا ہے کہ یہ حملہ قیدیوں کو رہا کروانے اور عدلیہ کے اہلکاروں کو نشانہ بنانے کے سلسلے کی آخری کڑی ہے۔ القاعدہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ تنظیم نے ان حملوں کی تیاری میں کئی ماہ لگائے اور فرار ہونے والوں میں تقریباً پانچ سو افراد تنظیم سے تعلق رکھنے والے تھے۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 701548 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.