فیصل آباد میں زہریلی شراب
22افرادکو نگل گئی اور درجن سے زائد افراد زندگی وموت کی کشمکش میں
مبتلامختلف ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں ۔جن کی حالت ڈاکٹروں کے مطابق
تشویشناک ہے۔پولیس نے شراب فرو ش نائیکہ اور مرکزی ملزم بابر سمیت 6ملزموں
کو گرفتار کر لیاہے۔زہریلی شراب پی کر ہلاک ہونے والوں کے ورثا کے مطابق
چند ماہ قبل بھی 4افراد زہریلی شراب پینے کی وجہ سے ہلاک ہوگئے تھے مگر
پولیس نے کوئی کارروائی نہیں کی اور اب بھی پولیس کی طرف سے اس سنگین
معاملے کو دبانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمدشہبازشریف
نے واقع کانوٹس لیتے ہوئے آر پی او فیصل آباد کو جلد رپورٹ پیش کرنے کی
ہدایت کردی ہے ۔یہ خبر یقینا آپ کی نظر سے گزری ہوگی اور آپ نے ہمیشہ کی
طرح یہی سوچا ہوگا کہ یہ کون سی نئی بات ہے ۔لیکن اس طرح کی خبریں نظر
انداز کرنے والی نہیں کیونکہ میں اور آپ بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان کے
شہری ہیں ۔اسلام میں شراب نوشی سختی کے ساتھ منع ہے جبکہ اسلامی جمہوریہ
پاکستان کے اندر اس زہرکے بنانے ،بیچنے یاپینے پر کسی قسم کی کوئی پابندی
نہ ہے ۔ اگر ہم نے شراب سمیت دیگرجان لیوا منشیات کے استعمال اور خریدو
فروخت کے خلاف آوازاُٹھا کر اس لعنت کی روک تھام نہ کی تو کل میرے اورآپ کے
جگرگوشے بھی منشیات کی لت میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔جب لوگ کہتے ہیں کہ زہریلی
شراب پینے کی وجہ سے اتنے افراد ہلاک ہوگئے ہیں تو مجھے بہت عجیب لگتا ہے
کہ اگر شراب پینے والے فوری طور پر ہلاک ہوجائیں تو شراب کو زہریلی قراردے
دیا جاتا ہے لیکن جب یہی زہر شراب نوشی کرنے والے افرادکودوتین سال بعد موت
کی اندھیری وادی میں دھکیلتا ہے تب شراب کوزہریلی کیوں نہیں کہاجاتا ؟ٖفیصل
آباد میں پیش آنے والے تازہ ترین واقع میں ہلاک ہونے والے افراد کے ورثا سے
میرا سوال ہے کہ جب وہ جانتے تھے کہ شراب پینے سے چند ماہ پہلے بھی 4افراد
ہلاک ہوچکے ہیں تو پھر اُنہوں نے اپنے پیاروں کو شراب یعنی موت کے قریب
کیوں جانے دیا؟مان لیا کہ چند ماہ قبل پیش آنے والے واقع کے ملزمان کے خلاف
پولیس نے کوئی کارروائی نہیں کی ہوگی ۔مان لیا کہ شراب سرعام دستیاب ہے ،مان
لیاکہ پولیس منشیات فروشوں کے ساتھ ملی ہوئی ہے ،مان لیاکہ منشیات فروشوں
کی پشت پناہی کرنے والے معززین علاقہ وزیروں اور سفیروں کے قریبی ہیں ،یہ
بھی مان لیا کہ ملک میں عدل وانصاف نام کی کوئی چیز دستیاب نہیں ،چلو یہ
بھی مان لیا کہ حکومت منشیات کی کھلے عام خرید و فروخت کو روکنے کے لئے کچھ
نہیں کرے گی ۔لیکن یہ کیسے مان لیا جائے کہ ہمیں اس بات کا علم نہیں کہ
شراب یا دیگر منشیاب کا استعمال کرنے سے موت کے علاوہ کچھ حاصل نہیں
ہوسکتا؟کیا پولیس یا حکومت پر تنقید کرنے سے مرنے والے زندہ ہوسکتے ہیں ؟
چند ماہ قبل زہریلی شراب پی کر4افراد ہلاک ہوئے تھے اور اب اس زہر نے 2درجن
افراد کی جان لے لی ہے اور مزید کی حالت تشویشناک ہے پھر بھی فیصل آباد
سمیت پورے ملک میں شراب کی فروخت اور شراب نوشی بدستور جاری ہے ۔ٹھیک ہے کہ
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حکمران اور محکمہ پولیس انتہائی بے حس ہوچکے ہیں
۔لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکومت یا پولیس نے گھر جاکر اُن افراد
کو شراب نوشی کا مشورہ دیاتھا؟ قارئین محترم اپنی اور اپنے پیاروں کی
زندگیوں کو نشے کی لعنت سے محفوظ رکھنے کے لئے ہمیں خود ہی احتیاط کرنا
ہوگی ۔حکمران بیچارے کیاکریں آپ کے سامنے وزیر اعلیٰ پنجاب نے فیصل آباد
میں زہریلی شراب پی کر 22افراد کی ہلاکت کا نوٹس لے کر رپورٹ جلد طلب کرلی
ہے پھر بھی فیصل آباد میں منشیات کی فروخت کھلے عام ہوتی رہے گی ۔وہ اس لئے
کے وزیر اعلیٰ پنجاب نے صرف حالیہ واقع کا نوٹس لیا ہے منشیات فروشوں کے
خلاف اعلان جنگ نہیں کیا۔وزیراعلیٰ بیچارہ کیا کرسکتا ہے جب ہم خود منشیات
فروشی کے اڈوں پر جاکر شراب ،ہیروئن اور چرس طلب کرتے ہیں ۔ہم اگر منشیات
کا استعمال ترک کردیں تو پھر نہ تو وزیر اعلیٰ کے نوٹس کی ضرورت رہے گی اور
نہ ہی پولیس کی کارروائی کاانتظار۔ |