چاند میری زمین : پھول میرا وطن

پاکستان میں رہتے ہوئے ہمیں اس کی قدر نہیں آتی ۔ ہر طرف مسائل ہی مسائل نظر آتے ہیں ۔ ہر بات اور عمل کو ہم زیادہ تنقیدی پہلو سے دیکھتے ہیں ۔ ہم نے کتنی ذمہ داری نبھائی ہے اور وطن کی محبت کی سر شاری میں مسائل کم کرنے کے لئے کتنی جدوجہد کی ہے اس سوال کی طرف تو ہم آتے ہی نہیں ہیں اور اگر کبھی کوئی یہ سوال کرہی لے تو ہم بہت ناگواری سے کندھے جھٹک کر صرف اتنا جواب دیتے ہے کہ میرے بس میں تو کچھ ہے نہیں یہ تو حکومت کاکام ہے۔ یہ سوال ہمیں پسند ہی نہیں ہے کہ ہم اپنے ملک و قوم کی تعمیر و ترقی اور خوشحالی کے لئے انفرادی اور اجتماعی طور پر کیا کر سکتے ہیں ۔ کیا اس طرح خاموش ہونے سے یا بڑھ چڑ ھ کر تنقید کرنے سے ملکی حالات بہتر ہو سکیں گے؟ کیا تقدیریں ہاتھ پر ہاتھ دھرے رکھنے سے بدل سکتی ہیں ؟

قیام پاکستان کی بنیاد میں ایک سوچ تھی آزادی کی۔ ایک جذبہ تھا الگ وطن حاصل کرنے کا جہاں سب کچھ اپنے مذہب اپنے نظریات ، اپنے معاشرتی رکھ رکھاؤ اور اپنی تہذیب کے مطابق ہو۔ وطن تو مل گیا اور ہم سب نے مل کر اسے بنانے سنوارنے کی کوشش بھی کی لیکن اندرونی اور بیرونی عناصر اور کچھ ناقدر شناس جن کی تنگ نظری اُنہیں خودی اور انا سے آگے دیکھنے ہی نہیں دیتی اپنے ذاتی مفاد کو قومی مفاد پر ترجیح دی ۔ وہ معاشرہ جہاں چالیس گھروں تک حقوق ہمسائیگی کا حکم تھا اپنے ساتھ والے گھر سے بے خبر رہنے لگا ہے کہ وہاں کون مقیم ہے اور کس حال میں ہے۔ دہشت گردی کی اس فضا نے ایک بے حسی سی پیدا کر دی ہے ۔ اپنی آنکھوں کے سامنے اغوا یا چوری کا واقعہ ہوجائے تو لوگ خاموشی سے دوسری طرف نکل جاتے ہیں۔ اچھائی اور برائی کے فرق کو اسی بے حسی اور قوت برداشت کی کمی نے کم کر دیا ہے ۔ لوگ گھروں میں بھی خود کو محفوظ نہیں سمجھتے ۔ نہ جانے کس وقت کیا ہوجائے ۔ بہت سے خود ساختہ حادثات اور تشدد کے واقعات اس امر کے غماز ہیں کہ آہستہ آہستہ ماحول کا زہر ذہنوں میں سرایت کرنے لگا ہے۔ گھروں میں اپنایت اور رواداری کم ہوتی چلی جارہی ہے ۔ ایک ایسی فضا بن رہی ہے جس میں اجتماعی محبت کے بجائے انفرادی مفادات زیادہ اہم ہوتے جارہے ہیں ۔ گھر کے افراد کی ضرورتوں کو پورا کرنے اور بہتری کے بجائے اپنے لئے کچھ کرنے کا رجحان شروع ہوگیا ہے۔کیا اس طرح الگ ہوکر ہم ایسے عناصر کی خواہشات تو پوری نہیں کررہے جو ہمیں تنہا کرکے کمزور کرنا چاہتے ہیں۔ مذہب کے مضبوط رشتے کے بعد ہمارے پاس اپنا مضبوط معاشرہ اور خوبصورت گھریلو ماحول ہے جہاں خاندان مل جل کر رہتے ہیں ۔ اگر اس معاشرتی نظام کو کمزور کر دیا جائے تو قوم تو کمزور ہوہی جائے گی۔ اگر الگ الگ سوچ پروان چڑھے گی تو اختلافات اورغلط فہمیاں پیدا کرنا آسان ہوگا ۔ قوموں کو ایسے ہی کمزور کیا جاتا ہے ۔

ہر محب وطن شہری فکر مند اور پریشان ہے کہ وہ کس کا یقین کرے اور کس طرح بگڑتے ہوئے حالات کو سنبھالے۔ مثبت رویے انقلاب لاسکتے ہیں ۔ یہی ابتداء ہے کہ ہم جہاں جو کام کررہے ہیں اُسے اپنی استعداد کے مطابق ایمانداری سے کریں ۔ دوسروں پر تنقید کا حق صرف اُس کو ہوتا ہے جووہی کام اس سے بہتر کرکے دکھائے۔ اور جو بہتر کرے گا وہ فخر کرئے گا اور اس کے اندر سے حسد و کینہ ختم ہوجائے گا ۔ ہم فرشتے نہیں ہیں اور نہ ہمیں بننا ہے ۔ ہم انسان ہیں جس کا درجہ اﷲ تعالیٰ نے سب سے بلند کرکے فرشتوں سے سجدہ کروادیا ۔ اسی انسان کو سوچنے سمجھنے اور عمل کرنے کی قوت سے نوازہ ۔ جب تک ہمارے ساتھ ہماری مثبت سوچ ہے عمل کے راستے بھی بنتے جائیں گے اور ہم اپنے مسائل کو حل کر لیں گے۔ بس ان منفی قوتوں کو سختی اور تدبر سے روکنے کا یہی حل ہے۔ تبدیلی ہمیشہ اپنے گھر سے شروع ہوتی ہے ۔ ہر سطح پر اگر ہم شعور و آگاہی دیں تو بہت سے مسائل پر قابو پا یا جا سکتا ہے۔ پھر سے ہمارے پاکستان کی ہواؤں میں وطن سے محبت کے یہ نغمے گونج سکتے ہیں جن کی وجہ سے خون جوش مارتا ہے ۔
Anwar Parween
About the Author: Anwar Parween Read More Articles by Anwar Parween: 59 Articles with 43600 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.