برطانیہ کے ایک بڑے اخبار گارجین
نے ایم کیو ایم کے بارے میں ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے۔ اس رپورٹ میں
انکشاف کیا گیا ہے کہ برطانیہ کے دو ججز نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ ایم
کیو ایم تشدد پسند جماعت ہے ۔
سپریم کورٹ پاکستان نے کراچی بدامنی کیس کی سماعت کرتے ہوئے یہ ریمارکس بھی
دے چکی ہے کہ 1992 میں ایم کیو ایم کےخلاف آپریشن باالکل درست ہوا تھا۔
ایم کیوایم اپنے وجود کے ابتدائی دنوں یعنی 1984 میں جس طرح بین الاقوامی
میڈیا کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی تھی باالکل اسی طرح ان دنوں انٹرنیشنل
میڈیا کی زد پر ہے۔ فرق یہ ہے کہ اس وقت تعریفیں ہوتی تھیں اور اب تنقیدیں۔۔۔۔۔۔۔۔
بی بی سی ایم کیو ایم پر چند روز قبل ایک دستاویزی فلم دکھا چکی ہے ، یہ
فلم اگرچہ ایم کیو ایم اور اس کے حمایتوں کو آئینہ دکھانے کے مترادف تھی
لیکن اس کے باوجود اس کے لیڈرز ڈاکومینٹری کے منفی نکات کو تسلیم کرنے پر''
بظاہر '' تیار نہیں ہیں ۔
ایم کیو ایم اور اس سے تعلق رکھنے والوں کی یہ مجبوری ہے کہ وہ اپنی تحریک
اور الطاف حسین کے بارے میں کھل کر مخالفت تو کجا ان کے بارے میں برائی تک
نہیں سن سکتے۔ کچھ دن قبل مقامی ٹی وی چینل کے اینکر شاہ زیب خانزادہ نے
ایک سوال کے ضمن میں ایم کیو ایم کے دوسرے درجے کے رہنما حیدرعباس رضوی سے
یہ دریافت کیا تھا کہ '' یہ سیاسی تنظیم ہے یا کوئی مافیا ہے '' حیدرعباس
رضوی نے اس سوال کے جواب میں انتہائی غصے سے جواب دیا تھا کہ '' یہ پوچھتے
ہوئے آپ کو شرم آنی چاہیئے''۔
میری سمجھ میں آج تک نہیں آیا کہ حیدرعباس رضوی نے اس طرح کے جارحانہ ردعمل
کا اظہار کیوں کیا تھا ۔ شرم تو ان ہی کو آنی چاہیئے تھی جن سے شاہ زیب نے
سوال کیا تھا۔ جب ان کو شرم اور جھجک محسوس نہیں ہورہی تو کسی صحافی یا
اینکرکو یہ سوال کرتے ہوئے کیوں شرم آئے گی۔۔۔۔؟
بہت سارے قارئین مجھ سے کہتے ہیں کہ '' احتیاط کریں، ماشاءاللہ بہت زبردست
لکھتے ہو '' میرے چاہنے والے مجھے احتیاط کا مشورہ کیوں دیتے ہیں اس کی
تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں ہے ۔
میری تحریر پر مجھے شرم کبھی نہیں آئی بلکہ ہر مرتبہ میرا حوصلہ بڑھا ہے
لیکن اگر ان کالمز پر حیدرعباس رضوی ذہن کے لوگ مجھ سے ہی سوال کریں کہ ''
آپ کو شرم آنی چاہئے ایسا لکھتے ہوئے'' تو میں ان کے اس طرح کے جملے پر صرف
ہنس سکتا ہوں ۔
ایم کیو ایم جس بھرم میں آگے سے آگے بڑھتی جارہی تھی اورقوم کو سب اچھا
اچھا دکھارہی تھی، اپنے اطراف خوف کی دیواریں پختہ کرتے جارہی تھی ، وہ عمل
اب دم توڑ رہا ہے۔۔۔۔ وہ بھرم تھا خوف کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ظلم کا ۔۔۔۔۔۔۔۔ظلم بڑھتا
ہے تو خود ہی مٹ جاتا ہے۔۔۔۔ ایم کیو ایم کی قیادت نے جو اسلحہ اپنے دفاع
یا مخالفین کے لیے جمع کیا تھا اس اسلحہ کے خوف سے وہ خود ہی پریشان رہی۔۔۔۔۔۔۔۔
الطاف بھائی ذہین ہیں اور تھے۔۔۔۔۔۔ پہلے ہی نکل پڑے ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں آپ کو
بتائوں کہ ایم کیو ایم کو چلانے والے وہ کبھی نہیں رہے جو عوام کا سامنا
کرتے رہے بلکہ ایم کیو ایم کی اصل روح ہمیشہ ہی اس کے وہ کارکن رہے جو ''
پیار کرنے اور پیار کیسا ہوتا ہے اسے سمجھانے کے ماہر رہے ہوں''۔۔۔۔ ایم
کیوایم کے ابتدائی دنوں میں یہ کام '' شرفا کمیٹی'' کیا کرتی تھی لیکن کچھ
دن پہلے تک یہ کام کراچی کے حوالے سے منسوب ایک کمیٹی کا تھا اس کے کرتا
دھرتا حماد صدیقی ہوا کرتے تھے ، کو الطاف حسین ماہ مئی میں انتخابات کے
بعد اپنی نئی لیکن پرسرار حکمت عملی کے تحت فارغ کرچکے ہیں اور اس کمیٹی کو
بھی توڑ ڈالا تھا لیکن اسے توڑنے سے 24 گھنٹے پہلے اس سے وہ کام لیا گیا
تھا جو ایم کیو ایم کی تاریخ میں کھبی'' اجتماعی '' طور پر نہیں ہوا تھا
۔۔۔۔۔۔۔ 90 پر مرکزی رہنمائوں کو زد و کوب کرایا گیا اور نہ جانے کیا کچھ
کیا گیا ۔۔۔۔۔ ایم کیو ایم کے قائد کی حکمت عملی اپنی جگہ لیکن شائد وہ یہ
بات بھول چکے تھے کہ سب سے بڑا حکمت والا اور چال چلنے والا تو'' اوپر والا
ہے جو سب کچھ دیکھ رہا ہے وہ کبھی سوتا بھی نہیں اور اسے کبھی اونگھ تک
نہیں آتی ''۔ مئی کے مہینے میں جو چالیں طاقت کے نشے میں چلی گئیں اس کے
نتائج جنگی بنیادوں پر نکلیں گے۔۔۔۔۔ اس کی کسی کو توقع نہیں تھی ، کوئی
بھی نہیں جانتا تھا ایسا کچھ ہوجائے گا جو اب ہورہا ہے ۔۔۔۔۔۔لیکن مجھے
یقین تھا اللہ کی ذات سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قائد تحریک نے ایم کیو ایم میں تطہیر
کا اعلان کیا اور ادھر اسکاٹ لینڈ یارڈ غیر معمولی طور پر حرکت میں آگیا
۔۔۔یہ اتفاق ہے یا کچھ اور لیکن آپ کو یقین کرنا پڑے گا کہ کئی اہم ترین
چہرے اس دن کا انتظاربرسوں سے کررہے تھے ۔۔۔۔۔اور وہ یہ بات تسلیم کرنے لگے
تھے کہ ''طاقت کا توازن بگڑ چکا ہے '' ۔
مجھے نہیں معلوم کہ جیسمین خان کے ساتھ کیا ہوا کہ وہ وزیراعظم ہاوس جاکر
رونے لگیں لیکن مجھے اللہ کی ذات سے یہ یقین ہے کہ طاقت کا بھرم ٹوٹ چکا ،
ڈرانے والے شدید ڈرنے لگے ہیں ۔ اور الٹے سیدھے مضحکہ خیز نعرے لگانے والوں
کا طاقت کا نشہ اتر چکا ہے ۔
مجھے کئی سال بعد دل سے خوشی ہورہی ہے کہ میرے شہر میں، قائد اعظم کے کراچی
میں اس بار رمضان میں الحمد اللہ کچھ ایسا نہیں ہوا جو گزشتہ کئی رمضان
المبارک میں ہوا کرتا تھا،نہ احتجاج ہوا نہ احتجاجی ہڑتالیں، نہ کوئی سوگ
منایا گیا۔ 19 روزے گزر گئے۔ اب انشاءاللہ ماہ اگست بھی بہت اچھا گزرے گا
14 اگست سے پہلے اور نہ ہی اس کے بعد کہیں کسی علاقوں میں لڑکیوں سے بالیاں
اتارنے کی اطلاعات نہیں آئیں گی۔۔۔واقعات تو ایسے کبھی رونما ہوئے بھی نہیں
تھے جس طرح بیان کیا جاتا رہا تھا۔
ایم کیوایم نے غیر مشروط طور پر مسلم لیگ نواز کے صدارتی امیدوار ممنون
حسین کی حمایت کردی ۔ مسلم لیگ کا وفد وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی قیادت میں
90 پہنچا ، 90 پر موجود نئی قیادت سے بات کی اور بات پکی ہوگئی کوئی بھی
شرط نہیں لگائی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔لیکن کیوں ؟ کیا ملک کے اور کراچی والوں کے
سارے مسائل ختم ہوگئے ؟ کیا کوٹہ سسٹم پر بھی ایم کیو ایم نے کوئی بات نہیں
کی ۔۔۔حیرت ہے حالانکہ یہ وہی کوٹہ سسٹم ہے نا جس کی وجہ کی ایک وجہ ایم
کیوایم کا قیام بھی رہی ۔۔۔۔جس کی وجہ سے 1979 میں الطاف حسین نے مزار قائد
سے پاکستان کا پرچم اتاردیا تھا اور اس الزام میں مارشل لاء کورٹ سے انہیں
نو ماہ قید کی سزا بھی ہوئی تھی جو بعد میں کالعدم قرار دیدی گئی تھی۔ اتنے
اہم ایشو کومسلم لیگ کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے اسی طرح نظرانداز کیا گیا جسے
گزشتہ دس بارہ سال سے اقتدار میں حصہ دار ہونے کے باوجود متحدہ اسے نظر
انداز کرتی رہی۔۔۔ لیکن یہ سوال پوچھا جاسکتا ہے کہ آخر کیوں کوئی شرط نہیں
رکھی گئی یا جو شرط رکھی گئی۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔وہ ایسی نہیں ہے جسے بیان کیا جاسکے
؟ چلیں چھوڑیں میں بات کررہا تھا طاقت کے بھرم کی جس کا زور ٹوٹ رہا ہے۔۔۔۔۔
۔۔۔ مسلم لیگ سے متحدہ کو توقع ہے کہ بغیر کسی شرط پر وہ اس کے سندھ میں
گزشتہ گیارہ سال سے مسلط گورنر کو فارغ نہیں کرے گی اور یہ بھی خوش فہمی ہے
کہ حساس اداروں کے مہمان دو خاص افراد کو برطانیہ کے حوالے نہیں کرے گی
۔۔۔۔۔۔اگر کسی کو خوامخواہ خوش فہمی ہوجائے تو کون کیا کرسکتا ہے؟ ۔۔۔۔۔خیال
تھا کہ ممنون حسین کے صدر منتخب ہوتے ہی مسلم لیگ '' واحد ملاقات '' کو
بھول کر اپنے انتخابی ایجنڈے پر عمل شروع کردے گی لیکن ۔۔۔یہ کیا رانا
ثناءاللہ نے پہلے ہی انکشاف کردیا کہ ایم کیو ایم سے کوئی اتحاد نہیں ہوا
اور پرانی مخاصمت بدستور ہے۔ بہرحال قوم کو توقع ہے کہ میاں نواز شریف
کراچی میں سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگ ختم کرنے کے وعدے کو نہیں بھولیں گے
اگر انہوں نے یہ وعدہ بھلا دیا تو سندھ سے مسلم لیگ کی رہی سہی ساکھ ممنون
حسین کے صدر بننے کے باوجود ختم ہوجائے گی ۔ |