مظفر گڑھ کے زمیندار نے چارسالہ بچی پر کُتے چھوڑ دیئے،شہباز شریف کا نوٹس..

آج دنیا وی دولت کا پجاری اِنسان کیااتناظالم بھی ہوسکتاہے کہ وہ اپنی دولت اور طاقت کے نشے میں مبتلاہوکر اپنے غصے کو بھی قابونہ رکھ سکے اِس ہی وجہ سے ایک غریب مزدور کی چار سالہ بچی کے ہاتھوں اپنے کھیت سے صرف ایک پیاز توڑے جانے پر اِس پر اپنے خونخوار کُتے بھی چھوڑسکتاہے...؟ ایساتو کبھی سوچا بھی نہیں جاسکتاہے کہ کسی دور کے دولت منداتنے ظالم بھی رہے ہوں گے کے جیسے مظفر گڑھ کا زمیندار جاوید جوئیہ ہے اِس واقعہ پر میں یہ سوچ رہاہوں کہ یہ ضرور ہے کہ آج دنیا کے کونے کونے اور چپے پچے میں جتنی بھی تہذیبیں اور اِن تہذیبوں میں جتنی بھی سوسائیاں آباد ہیںاِن سب تہیذیبوں اور سوسائیوں میں دوطبقات پائے جاتے ہیں ایک لوگوںکا وہ طبقہ ہے جن کے بارے میں یہ خیال کیاجاتاہے کہ اِن کے پاس دولت اور سامان خورونوش کی وافر مقدار تو موجود ہوتی ہے مگراِنہیں بھوک کم لگتی ہے اور دوسراطبقہ اُن لوگوں پر مشتمل ہوتاہے جن کے پاس دولت بھی نہیں ہوتی ہے تو اُن کے پاس سامان خورونوش بھی کم ہوتاہے مگر اِسے بھوک امیروں سے زیادہ لگتی ہے اِس طبقے کے لوگ امیروں جیسے خواب تو بہت دیکھتے ہیں مگر اپنی غربت کے خاتمے کے لئے تدابیر کرنے سے بھی کتراتے ہیںاِن کی اِس نااہلی اور سوچ پر کسی دانا نے خُوب کہا ہے کہ بھوک غربت کا سب سے خُوف ناک اور ظالم تحفہ ہے اور بھوک جہاں اور جس معاشرے میں بھی آتی ہے وہ اپنے ساتھ بے شمار سماجی، اخلاقی اور ذہنی بیماریاں لے کر ہی آتی ہے اور اِس کے ساتھ ہی ساتھ دانشوروں کا یہ بھی خیال ہے کہ اتنے لوگ جنگلوں میں نہیں مرے جتنے غذائی قلت کا شکارہوکر اِس ہری بھری اور چکا چوندہ دنیا سے راہِ عدم کو سِدھار گئے ہیں اور ہمارے شاعر مشرق حضرت علامہ اقبال ؓ نے توغربت کو ”غربت ام الخبائث“ تک قرار دے دیاہے اور غربت سے متعلق ایسے بہت سے محاروے اور ضرب المثل بھی ہمارے معاشرے میں موجود ہیں جیسے یہ کہ”غریب اِس دنیا میں بے بس اور بے کس ہے“ میںیہ ساری باتیں تو بچپن سے ہی سُنتاچلاآرہاتھا۔

آج مگرمجھے اِس کا تجربہ ہو گیااورمجھے بڑارنج پہنچاہے کہ غریب اِس دنیا میں بے بس اور بے کس صرف اپنی نااہلی کی وجہ سے غربت اور افلاس میں مبتلا ہے مگراِس کے ساتھ ہی مجھے یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ آگئی ہے کہ آج ہمارے اِس معاشرے میں جس میں ، میں اور آپ سانس لے رہے ہیں اِس میں ” غربت ام الخبائث ہے اور بھوک و افلاس کے معنی اتنے وسیع ہیں کہ اِس کا احاطہ لفظوں و جملوں اور احساسات سے بھی نہیں کیا جاسکتاہے یعنی بھوک و افلاس صرف محرومی اور مصیبت کا نام ہی نہیں ہے بلکہ اِس کے معنی توہین اور غم کے سمندر سے بھی کہیں زیادہ گہرے ہیں،اِس پر آج مجھے یہ نہیں معلوم کہ میں غربت و بھوک اور افلاس کے ہاتھوں پریشان حال انسانوں کی زندگی کا کیسانقشہ کھینچ پاتاہوں مگر مجھے اِس بات کا پورایقین ہے کہ آج دنیا میں جتنے بھی انسان موجود ہیں اِن میں اکثریت کی تعداد اُن لوگوں پر ضرورمشتمل ہے جن کی زندگیوں کا زیادہ تر حصہ غربت اور افلاس کی آغوش میں گزراہے مگراِن کی جہد مسلسل نے اِنہیں اِس قابل کردیا ہے کہ آج اِن کے آنگن سے غربت اور بھوک و افلاس روٹھ کر میلوں دور چلی گئی ہے یوں آج اِن کے آنگن میں بھوک وافلاس کی جگہہ خوشیاں اور آسائشوں کا رقص جاری ہے یعنی آج بھی میرے معاشرے کے غریب لوگ اپنے اندر غربت سے لڑنے اور اِس سے ہر حال میں نبردآزماہونے کا عزم کرلیں توکوئی ممکن نہیں ہے کہ میرے مُلک کاہر غریب شخص اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر نہ صرف اپنے گھر، اپنے محلے، اپنے شہر بلکہ سارے مُلک سے بھی غربت ختم کر سکتاہے بس ضرورت صرف اِس امر کی ہے کہ میرے مُلک کا ہر شخص اپنی کاہلی اوراحساسِ محرومی کا لبادہ اُکھاڑپھینکے اور ایک ایسے روشن ستارے کے طور پر اُبھرکر سامنے آئے جودوسروںکے لئے مشعلِ راہ بن کر اپنے مُلک سے غربت کا خاتمہ کردے۔

مگریہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ آج میرے معاشرے میں جِسے اللہ نے اپنی ہر قسم کی نعمتیں عطاکی ہوئیں ہیں وہ اللہ کی زمین پر اپنی دولت اور طاقت کے گھمنڈ میں متبلاہوکر فرعون اور ایساظالم اِنسان بن بیٹھاہے کہ اِس کے گھناؤنے کرتوتوں کو دیکھ کر انسانیت بھی رورہی ہے میں یہ بات اِس لئے کہہ رہاہوں کہ میرے وطنِ عزیز پاکستان ایک علاقے مظفرگڑ ھ کی تحصیل جتوئی کے علاقے لنڈی پتافی میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا ہے کہ جس سے مجھے یہ لگ پتاگیاکہ غربت ہی معاشروں میں احساسِ محرومی اور فساد کو جنم دینے کی اصل وجہ ہے واقعہ کچھ یوں ہے کہ ”مظفرگڑھ کی تحصیل جتوئی کے علاقے لنڈی پتافی ہے جہاں کھیتی باڑی کرنے والے غریب گھرانے کی ایک چار سال کی زبیدہ نامی معصوم بچی نے بغیراجازت کھیت سے پیاز کیاتوڑی اِس پر دولت اور اپنی زمینداری کے گھمنڈمیں مست زمیندار جاوید جوئیہ نے غصہ میں آکر مبینہ طور پر اپنے خونخوار اور آدم خور کُتے چھوڑدیئے، یوں خداکی زمین پر دنیاکی شیطانی دولت کے غرور میں غرق زمیندار جاوید جوئیہ کے کُتوں نے چار سالہ معصوم بچی زییدہ کی ناک کو کاٹ کھایا،جب خونخوار کُتے اِس معصوم بچی کی ناک کھارہے تھے شیطان کا چیلااور دولت کا پجاری زمیندار جاوید جوئیہ کھڑاتماشہ دیکھ رہاتھا اور چار سالہ معصوم زبیدہ کا نازک اور پھول ساجسم خونخوارکُتوں کے پنجوں اور ان کے منہ میں تھااور کُتے اپنے مالک کے اگلے اشارے تک اِس کو بھنبوڑرہے تھے،پچھلے دِنوں ہی خبر آئی ہے کہ پندہ دن تک بچی کی مرہم پٹی مقامی ڈاکٹرہی کرتارہامگرناک کا زخم ٹھیک نہ ہوا کیوں ٹھیک نہ ہوا...؟اِس لئے کہ یہ ایک غریب کی بچی تھی اور وہ غریب جو روٹی کھاتااور اپنی اِس زخمی بچی کو کھلاتایا اِس کا مہنگاعلاج کرواتا، بس اِس کی جو روزانہ کی آمدنی تھی اُس میں وہ اپنی بچی کا علاج کرواتارہااور روکھی سوکھی کھاکر خود بھی سوجاتااور اپنی زخمی بچی کو بھی سُلادیتایوں پندرہ دن گزر جانے کے باوجود بھی کُتوں کا کاٹا گہرازخم ٹھیک نہ ہوااور دن گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ المناک واقعہ جو ایک غریب مزدور کی چارسالہ بچی پر زمیندار جاوید جوئیہ کے ظلم کی وجہ سے پیش آیا تھا ۔اِس کی خبر جب وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہاد شریف تک پہنچی تو اُنہوں نے معصوم زیبدہ کو نشترہسپتال منتقل کرنے کا حکم دیا اور اِس چارسالہ معصوم بچی زییدہ پر زمیندار جاوید جوئیہ کے ڈھائے جانے والے انسانیت سوز ظلم کا فوری طورپر نوٹس لیا اور اِس واقعہ کی رپورٹ طلب کرکے اِس واقعہ میںملوث شیطان کے چیلے اور ظالم زمیندار جاوید جوئیہ کے خلاف کارروائی کا حکم دیا جبکہ اطلاعات یہ ہیں کہ بیٹ میر ہزار پولیس نے مقدمہ درج کرکے ملزمان کے خلاف کارروائی شروع کردی ہے وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف نے اپنے عہدے اور انسانیت کی لاج رکھتے ہوئے ملزمان کے خلاف نوٹس لے لیا ہے مگر اَب دیکھنا یہ ہے کہ ہماری پولیس اِس ملزمان کے خلاف کیا کارروائی کرتی ہے، وہ اِس زمیندار کو اِس کے کئے کی سزادلواتی ہے یا اپنی مجبوریوں کا روناروتے ہوئے، اِس کی رہائی کے عوض کچھ لے کر اپنی غربت کی آگ ٹھنڈی کرلیتی ہے کیوں کہ یہ بھی غریب ہے۔**
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 973968 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.