چھوڑیں اس بات کو ہندوستانی جنگی
طیارہ سیالکوٹ سیکٹر میں ہماری حدود میں کیوں داخل ہوا، بس ہمارئے حکمراں
اپنے لیےایک جنگی نغمہ "جنگ کھیڈ نئیں ہوندی زنانیاں دی" سنیں گے اور پھر
ہندوستان کو کہہ دینگے اب دوبارہ برداشت نہیں کرینگے، ٹھیک اسطرح ہی جیسے
ایبٹ آباد آپریشن جو تقریبا دو گھنٹے پینتالیس منٹ تک امریکی ہماری سرزمین
پر کرتے رہے اور دو دن بعد ہمارئےحکمران بولے آئندہ برداشت نہیں کرینگے۔
جناب اپنے سابق اور موجودہ دونوں حکمرانوں کوسلام پیش کریں کہ اپنے سےبڑی
طاقت کو یہ کہہ دیتے ہیں ورنہ چند ہزار طالبانی دہشت گردوں کے معاملے میں
حضرت یسوع مسیح کی اس بات کو مانتے ہیں کہ اگر کوئی تمارئے ایک گال پر تھپڑ
مارے تو دوسرا گال بھی آگے کردو۔ اس کی تازہ مثال یہ ہےکہ بنوں کے بعد دہشت
گرد ڈیرہ اسمٰعیل خان جیل پر حملہ آور ہوئے، دہشت گرد عدنان رشید کی قیادت
میں آئے بھی پوری بارات کے ساتھ تھے، ڈیڑھ سو کی تعداد، 13 بڑی گاڑیاں اور
کئی موٹر سائیکلیں۔ پانچ خودکش دھماکوں اور پچاس راکٹ میزائل سے حملہ کی
ابتدا کی ، پورا شہر دھماکوں اور فائرنگ سے گونج اٹھا۔ دہشت گردوں کا ہدف
اپنے سزا یافتہ 35 دہشت گردوں چھڑانا تھا۔ وہ لاؤڈ سپیکرز پر اپنے ساتھیوں
کےنام پکارتے رہے۔ چار گھنٹے تک جیل میں اطمینان سے کارروائی کرتے رہے اور
بعد ازاں تین سو کے قریب قیدیوں کو آزاد کروا کراور چار قیدیوں کو نشاندہی
کے بعد موقعے پر موت کے گھاٹ اتار کراپنا بغیر کچھ نقصان کیے واپس لوٹ گئے۔
ایک لیڈی پولیس کانسٹیبل گلاب بی بی کوبھی اپنے ہمراہ لے گے۔ جیل پر حملہ
میں 16 افراد ہلاک ہوئے ان میں 6 پولیس اہلکار شامل ہیں۔ دہشت گردوں
کےسرغنہ عدنان رشید کے بقول پہلے اس پوری کارروائی کی منصوبہ بندی کی گی
پھر اس پر عمل کیااور اس پر ایک کروڑ روپے کے اخراجات آئے۔ اس دہشت گردی کا
نام "آپریشن مرگ نجات" رکھا گیا تھا۔ آپریشن میں 18 خصوصی دہشت گرد کمانڈوز
نے حصہ لیا اور ان کے پاس نائٹ وژن آلات اور جدید اسلحہ موجود تھا، شمالی
وزیرستان سے ڈیرہ اسمٰعیل خان آنے اور واپس جانے کےلیے دو راستوں درازندہ
اور پینرو کو استعمال کیا گیا۔ ہمارے ہاں دہشتگردوں کی پہنچ سے تھانہ اور
جیلیں تو کیا جی ایچ کیو، آرمی، آئی ایس آئی، فضائیہ اور بحریہ کی تنصیبات
تک محفوظ نہیں۔ بس ابھی تک وزیراعلی ہاوس، وزیراعظم ہاوس اورایوان صدر باقی
رہ گے ہیں۔
ڈیرہ اسماعیل خان کی سینٹرل جیل میں جو کچھ ہوا وہ خیبرپختونخوا کی صوبائی
اور مرکزی حکومت کی بدترین ناکامی ہے۔ عمران خان جو یورپ کے ممالک کی
مثالیں دیتے ہوئے تھکتے نہیں ہیں انکو یہ تو معلوم ہوگا کہ وہاں کوئی وزیر
اپنی ذرا سی غلطی پر استعفی دے دیتا ہے۔ مگر اس پاکستان میں ایسی کوئی مثال
نہیں ہے اسلیے صوبہ خیبرپختونخواکے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے بجائے استعفی
دینے کہ ڈیرہ اسماعیل خان سینٹرل جیل پر دہشتگردوں کے حملے کو انٹیلیجنس
اور دیگر متعلقہ محکموں کی ناکامی قرار دیا۔ جبکہ انٹیلیجنس
ایجنسیزانٹیلیجنس اداروں کی جانب سے وزیر اعظم نواز شریف کو پیش کی جانے
والی رپورٹ کے مطابق خفیہ ایجنسیوں کی ایک روز پہلے ہی ڈیرہ اسماعیل خان
جیل پر متوقع حملے اطلاع کے باوجود خیبر پختونخواہ حکومت حفاظتی انتظامات
کرنے میں مکمل ناکام رہی۔ رپورٹ کے مطابق وزارت داخلہ نے باقاعدہ اجلاس
منعقد کیا اور حملے کی پیشگی اطلاع دی تھی لیکن اس کے باوجود دھشتگرد جیل
پر حملہ کرنے میں کامیاب رہے. حملے کی اطلاع ایک ہفتہ پہلے ہی مل چکی تھی۔
اجلاس میں بتایا گیا تھا کہ ایک کالعدم تنظیم جیل میں اپنے ساتھ قیدیوں کو
رہا کروانے کے لئے 29 جولائی کو سنٹرل جیل پر حملہ کر سکتی ہے اور اس حملے
سے ایک روز قبل کالعدم تنظیم کے قیدی جیل میں ہنگامہ بھی کریں گے۔ لیکن
تمام تر ہدایات کے باوجود پولیس، جیل انتظامیہ اور سول انتظامیہ حملہ نہ
روک سکے اور فوج کی مدد بھی حملہ ہونے کے بعد طلب کی گئی۔ نیشنل کرائسیز
مینیجمنٹ سیل نے بھی حملے سے ایک دن پہلے خیبر پختونخوا حکومت کے اعلی
افسران، ایڈیشنل آئی جی وغیرہ کو بھی خط لکھا تھا جس میں جیل اور ڈی پی او
ڈیرہ اسماعیل خان کو حملے کی خبر دی گئی تھی۔
عمران خان جن کو گذشتہ انتخابات میں صرف صوبہ خیبرپختونخوا میں اتنی اکثریت
ملی تھی کہ وہ دوسروں کو ملاکر حکومت بنالیں۔ افسوس یہ ہے وہ لیڈر تو بن گے
ہیں مگر اُن کو لوگوں کی پہچان نہیں ہے، اور اسکا ذکر وہ انتخابات کے وقت
یہ کہکر قبول کرچکے ہیں کہ انہوں نے کافی غلط لوگوں کو ٹکٹ دیئے ہیں، اور
شاید ان میں سے ایک خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک بھی ہیں۔ یہ کس
نوعیت کی گورننس ہے؟ انٹیلی جنس ایجنسی کی جانب سے تین چار روز قبل ملنے
والی رپورٹس کے باوجود دہشت گرد اپنے منصوبے میں کامیاب رہے۔ خیبرپختونخوا
حکومت کی بدترین درجے کی نااہلیت اور حاصل معلومات پر شرمناک غفلت ، نہ
وفاقی حکومت سے اور نہ ہی فوج سے کوئی مدد مانگی اور نہ ہی خود کچھ کیا۔ اے
این پی کی حکومت جیسی بھی تھی کم از کم دہشت گردوں کے مقابلے میں ہر جگہ
کھڑی نظر آتی تھی۔ صوبے کے ریونیو وزیر نے جس قسم کا بیان میڈیا پر دیا وہ
ایک آقا کا تو ہوسکتا ہے کسی عوامی نمائیدے کا نہیں ، فرمایا ”جیل گارڈز
اور پولیس کے پاس فائر کے لئے اسلحہ ختم ہو گیاتھا“ پھر سیکوریٹی پر مامور
پولیس کے لیے فرمایا ”یہ چوہوں کی طرح گٹروں میں چھپ گئے۔ صرف چار پانچ نے
مقابلہ کرکے جان دی۔ کوئی پچاس ساٹھ جان دیتے تو میرا بھی سینہ فخر سے
پھولتا“۔کیا عمران خان نے خیبرپختونخوا کی انتظامیہ کی اس بدترین نااہلی پر
وزیراعلیٰ پرویز خٹک سے کوئی جواب طلب کیا؟ کیا عمران خان نے صوبے کے
ریونیو وزیر کے شرمناک بیان پر کوئی نوٹس لیا؟ یقینا نہیں، شاید تحریک
انصاف میں ایسا کوئی نظام نہیں ہے۔
جہاں تک صوبائی حکومت کا تعلق ہے یقینا وہ ناکام رہی مگر ملک میں امن و
امان کے مسلئے کی ذمیداری مرکزی حکومت کی صوبائی حکومت سے زیادہ ہے، وفاقی
وزیر داخلہ چوہدری نثار نے اس واقعے پر جسطرح مجرمانہ خاموشی کا مظاہرہ کیا
ہے وہ ایک شرمناک عمل ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کے وقت موصوف سب سے پہلے
بیان داغا کرتے تھے لیکن اس واقعہ کے بعد وہ خاموش ہیں، حالانکہ یہ براہ
راست انکی ذمیداری ہے۔ شمالی وزیرستان سے آنے والے دہشت گرد جو 13 بھاری
گاڑیوں اور کئی موٹرسائیکلوں میں سوار تھے راستے کی متعدد چیک پوسٹوں سے
کیسے آئے اور کیسے واپس چلے گے۔ ان چیک پوسٹوں پر خاصہ دار بھی متعین ہیں
اور فوجی بھی۔ جہاں قبائلی علاقہ نہیں ہے جیسا کہ ٹانک اور ڈیرہ اسمٰعیل
خان وغیرہ ، وہاں پر پولیس موجود ہے مگر اتنے بڑےجلوس کو کسی ایک جگہ بھی
روک کر نہیں پوچھا گیا، مان لیتے ہیں یہ سب پولیس کی وردیوں میں تھے تب بھی
کاوٴنٹر چیکنگ تو کی جانے چاہئے تھی کہ قبائلی علاقے میں پولیس کہاں سے
آگئی؟ ، کیونکہ اس علاقے میں پولیس نہیں فوج کارروائی کرتی ہے۔ اگروزارت
داخلہ نے صوبائی حکومت کو حملے کے بارئے میں مطلع کیا تھا تو لازمی مرکزی
وزیر داخلہ چوہدری نثار کو بھی معلوم ہوگا پھر سوال یہ ہے کہ دہشت گردوں کا
جلوس کی صورت میں ایک طویل سفر کرکے ڈیرہ اسمٰعیل خان کیسے پہنچ گیا؟ دہشت
گرد ایک کامیاب کارروائی جو چار گھنٹے تک جاری رہی کو مکمل کرکے واپس شمالی
وزیرستان پہنچ گے یہ یقینا مرکزی حکومت کی بھی بدترین ناکامیابی ہے۔
گذشتہ دور حکومت جو دہشت گردی ہوتی رہی اُس کی ذمیداری لازمی پیپلز پارٹی
اور اُس کے اتحادیوں پر جاتی ہے۔ اس وقت بلوچستان کے علاوہ کوئی اتحادی
حکومت نہیں ہے۔ عمران خان اور نواز شریف دونوں گذشتہ اتحادی حکومت کی طرح
طالبان مخالف بھی نہیں ہیں۔ جبکہ طالبان نے ایک موقعے پر مذکرات کےلیے منور
حسن اور مولانا فضل الرحمان کے ساتھ ساتھ نواز شریف کو بھی ضامن کے طور پر
تسلیم کیا تھا۔ مگر افسوس کہ نواز شریف کے اقتدار میں آنے کے بعد طالبان
دہشت گردوں نے اپنی دہشت گردی میں اضافہ کردیا ہے۔ پندرہ جون کو کوئٹہ میں
بس دھماکے میں 14 طلبہ ہلاک جبکہ بعد میں کوئٹہ کے ہسپتال پر حملے میں دس
افراد ہلاک ہوئے، 23 جون کو نانگا پربت بیس کیمپ کے ایک ہوٹل میں دہشت
گردوں نے نو غیر ملکی کوہ پیما سمیت دس افراد ہلاک کردیے، 30 جون کو کوئٹہ
اور پشاور میں دھماکوں میں کم از کم 56 افراد ہلاک، 10 جولائی کو صدر آصف
علی زرداری کے چیف سکیورٹی آفیسر بم دھماکے میں ہلاک ہوئے، 24 جولائی
کوسندھ کے شہر سکھر میں خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے دفتر پر دہشت گردوں نے
حملہ کیا اور 27 جولائی کو پاڑہ چنار میں دہشت گردوں کے بم دھماکوں میں 57
افراد ہلاک ہوئے۔ اب دہشت گردوں کے ڈیرہ اسمٰعیل خان جیل پر حملے نے پورے
ملک کی سیکورٹی پر سوالیہ نشان کھڑا کر دیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ
خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک اور مرکزی وزیر داخلہ چوہدری نثار
ڈیرہ اسماعیل خان کی سینٹرل جیل کے واقعے کے بعد اپنی انتظامی ناکامی کے
سبب استعفی دئے دیتے۔ پاکستان کے عوام نواز شریف اورعمران خان کےشکر
گذارہوں یا نہ ہوں مگر پاکستان کی دہشتگرد تنظیمیں انکی بے انتہا شکرگذار
ہیں، دہشت گرد جو مرضی چاہئے کریں مرکزی اور صوبائی حکومت کی طرف سے اُن کو
کھلی چھٹی ہے۔ دہشت گردوں نے نواز شریف اور عمران خان سمیت تمام حکمرانوں
کو واضع پیغام دے دیا کہ وہ کسی صورت پاکستان میں امن قائم نہیں ہونے
دینگے۔ کیا اب بھی نواز شریف یہ ہی سوال دہرایں گے کہ کیا میں مذاکرات نہ
کروں؟ یا عمران خان ڈرون حملوں کی آڑ لیکر اپنے ملک کو برباد ہونے دینگے۔
اگر نہیں تو پھر طالبان دہشت گردوں کی زبان میں ہی اُنکو جواب دیجیے اور
اگر نواز شریف اور عمران خان ایسا نہیں کرسکتے تو پھر واقعی کہنا پڑئے گا
کہ "جنگ کھیڈ نئیں ہوندی زنانیاں دی"۔ |