شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے میں حکمرانوں کا کردار

پاکستان میں روزانہ کروڑروپے کے ڈاکے اور دس پندرہ افراد کو قتل کرنے واقعات معمول بن چکے ہیں۔حالانکہ حکومت وقت اربوں روپے کے فنڈ شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے جاری کرتی ہے۔یہ بات درست ہے کہ کسی بھی ریا ست کی سب سے اہم ذمہ داری اپنے شہریوں کو تحفظ فراہم کرنا ہوتا ہے۔شہریوں کے جان و مال اور عزت و آبرو کی حفا ظت حکو مت کی اولین ترجیح ہو تی ہے اگر چہ حکومت لوگوں کو روزگار مہیا کرنے اور ان کے لئے معاشی مواقع پیدا کرنے کی بھی پابند ہو تی ہے لیکن ا نھیں بنیا دی حقوق کے زمرے میں شامل نہیں کیا جا سکتا یہ الگ بات کہ یورپ عوام کے معاشی مسائل کو بھی بنیادی حقوق میں شامل کرتا ہے اور بے روز گاری کی صورت میں اپنے شہریوں کو بے کاری ا لا ونس کا حقدار قرار د یتا ہے تاکہ انکی بنیادی ضروریات پوری ہوتی رہیں۔ امن و امان،بھا ئی چارے اور باہمی یگانگت کی فضا کسی بھی ملک کی ترقی کی سب سے بڑی ضامن ہو تی ہے لہٰذا اسے ہر حال میں قائم کیا جانا چائیے جو معاشرے خانہ جنگی میں مبتلا ہو جاتے ہیں مختلف گرو ہوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں ان معاشروں میں ترقی کا عمل مفقود ہو جاتا ہے۔ باہمی سر پھٹول اور لڑائی مار کٹائی ایسے معاشروں کی پہچان بنتی ہے جسے عوامی حلقوں میں غیر پسندیدگی کی نظر سے دیکھا جا تا ہے اور یوں وہ قوم اقوامِ عالم سے کٹ کر تنہا ئی کا شکار ہو جا تی ہے اور اسکی ترقی کا پہیہ جام ہو جا تا ہے۔

بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ جب کہیں افراتفری حد سے بڑھ جائے تو کہا جاتا ہے کہ وہاں جنگل کا قانون آگیا ہے مگر میرے خیال میں یہ مثال دینا بالکل غلط ہے۔ جنگل میں جو قانون ہمیشہ سے لاگو ہے اور ہمیشہ ہی رہے گا وہ اٹل اور ناقابل ترمیم ہے چاہے جنگل کے سارے جمہوریت پسند پارٹی لیڈر یا افہام و تفہیم کا پرچار کرنے والے جانور ایک عالیشان اتحاد بنالیں۔ دنیا کا کوئی آئین اور قانون جنگل کے قانون کا مقابلہ نہیں کرسکتا یعنی یہ ناممکن ہے کہ جنگل میں کوئی بندر جنگل کا بادشاہ بن جائے یا گِد اور چیل کوے شکار کریں اور شیر آکر کھائے یا اپنے کسی اکاؤنٹ میں یا غار میں سارا گوشت فرج میں رکھ لے جنگل میں کوئی جانور اپنی جائز ضرورت اور حق سے زیادہ شکار نہیں کرتا کسی نے کبھی نہیں سنا ہوگا کہ کسی بھی ملک کے شیر نے چاہے وہ افریقہ میں ہو یا برازیل میں ایک دن میں 10 ہرن شکار کرلئے اور اٹھا کر اپنے بچوں کے لئے لے گیا۔ ہر شیر کو روز اپنی پیٹ کی بھوک مٹانے کو ایک شکار چاہئے اور جب اس کا پیٹ بھر جاتا ہے تو وہ باقی سب دوسروں کے لئے چھوڑ کر چل دیتا ہے یعنی جنگل میں ذخیرہ اندوزی نہیں کی جاتی۔ اسی قانون کے مطابق ریچھ گرمیوں میں زیادہ خوراک کھاتا ہے اور چربی چڑھا لیتا ہے اور پھر سردیوں کے مہینوں میں لمبی تان کر مہینوں کے لئے سوجاتا ہے اور وہ چربی کام آتی ہے۔ تو جنگل کے قانون کے تحت کوئی کسی دوسرے کا حق نہیں مارسکتا۔یہ تو ایک عام جنگل میں ہوتا ہے مگر اس قانون کو کو اگر توڑ دیا جائے تو کیا صورت بنے گی فرض کریں بجائے شیر کے بندر کو بادشاہ بنادیا جائے اور سب سے بڑے شاہ بندر کو اختیار دے دیا جائے کہ وہ اپنی پارٹی کے سب سے وفادار بندروں کو استرے دے کر روانہ کردے کہ جاؤ بچو جس کا گلہ کاٹنا ہے کاٹو جس کی جیب بھاری نظر آئے لوٹ لو جہاں کسی نے شکار کرکے رکھا ہو ہڑپ کرلو یا قبضہ کرلو۔ اس جنگل کے شیر اور باقی طاقتور طبقے اپنے اپنے بلوں میں یا ہیڈ کواٹرز میں چھپ کر بیٹھے ہوں اور صرف شام کو پارٹی کرکے، کچھ تھوڑا سا ٹن ہوکر بندروں کو صرف گالیاں دیں اور جو بچا کچھا ملے کھاکر سو جائیں۔ تمام گد اور بھیڑیئے بندروں کے حلیف بن جائیں اور یوں ایک نیا نظام قائم ہوجائے۔ان حالات میں اکثر دل بیٹھنے لگتا ہے کہ یہ سب کہاں جاکر رگے گا اور کیا کوئی روکنے والاہے بھی یا نہیں۔ کیا ملک میں اچھے لوگ بالکل ناپید ہوگئے ہیں یا سب چوروں کے ٹولوں میں شامل ہوگئے ہیں اور سب بھیڑے گد چیلیں اور کوے مل کر لوٹ کھسوٹ یا نوچ کھوچ میں لگ گئے ہیں یہ سب کو معلوم ہے کہ نجی محفلوں میں اور ذرا غم غلط کرنے کی وارو کے گھونٹ لے کر سب جنگل کے حکمرانوں کو لاکھ لاکھ گالیاں دیتے ہیں مگر بڑے بڑوں میں ہمت نہیں کہ سامنے آکر کلمہ حق کہیں۔ سوائے بیان بازی اور لوگوں کو بیوقوت بنانے کے بڑے بڑے سورما لیڈر عملاً کچھ نہیں کرتے اور حالات کو اس ڈگر تک لاکھڑا کیا ہے کہ ابھی تک کسی نے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ ملک لوٹنے اور ڈبو نے والوں کو روکا جائے اور ملک سے بھاگنے نہ دیا جائے۔ کئی دفعہ نام بھی چھپ چکے اور عدالتوں سے سزائیں بھی ہوچکیں مگر کوئی ٹھوس قدم کسی نے نہیں اٹھایا۔ لگتا ہے سب نے ہمت ہار کر ناکامی تسلیم کرلی ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان میں قانون کی حکمرانی کو یقینی بنا نے اور ملک میں ا من و امان بحال کرانے کی صر ف ایک ہی راہ ہے کہ پاکستان کو اسلحے سے پاک کیا جائے۔ قتل و غارت گری کو روکنے کی اس سے بہتر تجویز نہیں ہو سکتی کہ لو گوں سے اسلحہ واپس لے لیا جا ئے تا کہ ان میں اعتدال کا مادہ پیدا ہو سکے۔ مختلف واردتوں اورچھوٹی چھوٹی باتوں پر طیش میں آنا اور اپنے مخالفین کا قتل کر دینا محض اس وجہ سے ممکن ہے کہ لوگوں کے پاس اسلحہ ہے۔ جب ان کے پاس اسلحہ نہیں ہو گا تو لو گوں کی زندگیوں سے کھیلنے کے رحجان میں کمی واقع ہو جائے گی۔حکومت کو بلا تخصیص ہر شہری سے اسلحہ واپس لینے کے لئے حکمت عملی ترتیب دینی ہو گی تاکہ لوگ امن و امان کی دولت سے مستفیض ہو سکیں اور پاکستان کی موجودہ دہشت گرد ملک کی پہچان ختم ہو سکے اور دنیا ایک ایسے امن پسند پاکستان کا چہرہ دیکھے جو اس کے تخلیق کاروں کا خواب تھا۔ مجھے علم ہے کہ یہ راہ بہت کٹھن ہے لیکن عزم مصمم جواں ہو تو ناممکن کو ممکن بنا یا جا سکتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ ہم امید کے دامن کو مضبوطی سے تھا مے رکھیں۔
Ghulam Murtaza Bajwa
About the Author: Ghulam Murtaza Bajwa Read More Articles by Ghulam Murtaza Bajwa: 33 Articles with 21289 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.