مقامی حکومتیں ایک جمہوری معاشرے
میں انتہائی اہمعیت کی حامل ہوتی ہیں کیونکہ شہریوں کے بنیادی اہم مسا ئل
جیسے صحت وصفائی کے معاملات ،پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور گندے پانی کی
نکاسی ،ماحول کا تحفظ ، معیاری خوراک کی فراہمی ونگرانی ، قیمتوں کا کنٹرول
،گلیوں اور سڑکوں کی تعمیر وترقی ، نئی رہائیشی بستیوں وسکیموں کی منصوبہ
بندی ،مکانات و عمارات کی تعمیر وکنٹرول ،ابتدائی تعلیم اور شہری ٹرانسپورٹ
کی فراہمی جیسے لا تعداد شہری اور میونسپل فریضوں کی ادائیگی میں مقامی
حکومتیں ہی مرکزی حیثیت رکھتی ہیں ۔مقامی حکومتوں کا نظام پہلی مرتبہ
انگریز نے برصغیر میں متعارف کرایا اور بڑے شہروں میں بلدیاتی ادارے قائم
کیئے گئے ۔قیام پاکستان کے بعد باقاعدہ پہلامقامی حکومتوں کا نظام ایوب خان
نے 1960میں متعارف کرایا جسے بنیادی جمہوریتوں کے نظام کا نام دیا گیا
۔1972میں ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں دوسرا ایکٹ پیپلز ایکٹ کے نام سے
منظور کیا گیا لیکن 1979تک اس نظام کے تحت الیکشن کی نوبت نہیں آئی ۔
1979میں ضیاء الحق نے ایک نیا نظام متعارف کرایا جس کے تحت 4چار بار
انتخابات ہوئے اور مقامی حکومتوں کی تشکیل ہوئی ۔اس طرح سے ہم دیکھیں تو
پاکستان میں مقامی حکومتوں کے نظام کی تاریخ ہمیں تاریک نظر آئے گی ہر آنے
والے حکمران نے ایک نیا تجربہ کیا اور بلدیاتی اداروں کو ایک نئے تجربے میں
ڈالا مقامی حکومتوں کے کسی بھی نظام کو اپنی جڑیں پکڑنے نہیں دیا گیاجبکہ
1998میں تو حکمرانوں نے محصول چونگی اورضلع ٹیکس کو ختم کرکے سیلز ٹیکس لا
کردیا اورمقامی حکومتوں کو یہ یقین دہانی کرائی گئی کہ انھیں محصول چونگی
اور ضلع ٹیکس کے برابر وفاقی حکومت کی طرف سے گرانٹ ملے گی اس طرح سے مقامی
حکومتوں سے ان کے مالیاتی زرائع چھین کر انھیں وفاق کا محتاج بنادیا گیا ۔
سول سوسائٹی کے اداروں کا ہمیشہ سے یہ مطالبہ رہا کہ پاکستان میں ایک ایسا
مقامی حکومتوں کا نظام متعار ف کرایا جائے جو کہ محروم اور پسے ہوئے طبقات
کی ترجمانی کرتا ہو اور اس نظام میں خواتین اقلیتوں کسانوں اور مزدوروں کی
موثر شرکت ہو کیونکہ بلدیاتی ادارے ہی ایک جمہوری معاشرے کی بنیاد ہوتے ہیں
اس لیئے اختیارات بھی انھی مقامی حکومتوں کے اداروں کو منتقل کیئے جائیں
اور افسر شاہی کو عوامی مقامی نمائیندوں کا جواب دہ بنایا جائے ۔ان مطالبات
کے لیئے اور ایک ایسے نظام کی تشکیل کے لیئے سول سوسائٹی نے ایک منظم تحریک
چلائی جس میں خواتین اقلیتوں کسانوں اور مزدوروں کی ایک طویل جدوجہد بھی
شامل ہے ۔مقامی حکومتوں کے سابقہ تمام نظام جو پاکستان میں نافذ کیئے گئے
تھے ان میں وفاق اور افسر شاہی ہی کے تمام اختیارات تھے اور عام طبقے اس
نظام میں اپنے مسائل کے لیئے رسائی حاصل نہیں تھی جسکی وجہ سے وہ محرومی
اور پسماندگی کا شکا ر تھے اس لیئے سول سوسائٹی اور تبدیلی کا خواب دیکھنے
والے تمام طبقات کا یہ مطا لبہ رہا کہ ایک ایسانظام لا یا جائے جو کہ حقیقی
معنوں میں محروم اور پسماندہ طبقات کی ترجمانی کرتا ہو ۔
2001میں جب جنرل پرویز مشرف نے ڈیولوشن پلان کے نام سے نیا بلدیاتی نظام
متعارف کروایا تو یہ نظام سابقہ ماڈلوں سے بالکل مختلف تھا ۔اس نظام میں
ضلعی سطح پر طاقت کا مرکز افسر شاہی کے نمائندوں کے بجائے عوامی منتخب
نمائندوں کے پاس رکھا گیا ،کئی محکمے صوبے اور صوبائی حکومت کے بجائے ضلع
کی سطح پر ضلع ناظم کے دائرہ اختیار میں لائے گئے، دیہی کونسلوں اور شہری
کونسلوں کا امتیاز ختم کیا ، عوامی نمائندگی میں وسعت لا ئی گئی اور خواتین
کی 33فیصد نشستیں ،کسان مزدوراور اقلیتوں کی موثر نمائیندگی کے لیئے مخصوص
نشستیں رکھی گئیں ،پبلک،پرائیوٹ پارٹنرشپ کے کاموں کے لیئے CCB,sسی سی بیز
کا سسٹم متعارف کرایا گیا اور ہر کونسل کے ترقیاتی بجٹ کا 25فیصد CCB,sسی
سی بیزکے لیئے مختص کرنا لازمی قرار دیا گیا ، نگرانی اور احتساب کے لیئے
مختلف کمیٹیاں اور کونسلوں کا قیام شامل کیا گیا ،اختیارات کی درجہ بندی کی
گئی ،ضلع ،تحصیل اور یونین کونسل میں اختیارات و فرائض تقسیم کیئے گئے ۔ اس
طرح سے یہ نظام ایک مختلف نظام ہے جو کہ ایک فوجی آمر کے دور میں نافذ ہو ا
لیکن اس کے پیچھے سول سوسائٹی کی ایک منظم تحریک کی جدوجہد تھی ۔ان اہم
باتوں کی وجہ سے سول سوسائٹی اس نظام کی مضبوطی اور حقیقی معنو ں میں تشکیل
کے لیئے کوشاں رہی اس نظام میں موجود ابہامات ، خا میوں اور کمزوریوں کی
نشاندہی اور ان کے حل کے لیئے تجاویز بھی پیش کی جاتی رہیں ۔اس نظام نے
بمشکل اپنی جڑیں پکڑنا ہی شروع کی تھی اوراس کے ثمرات ظاہر ہوناہی شروع
ہوئے تھے کہ سابقہ حکمرانوں نے اس نظام کو بھی ختم کردیا اور دوبارہ 1979کے
جیسا نظام متعارف کرکے دوبارہ اختیارات افسر شاہی کو منتقل کردیئے ۔
اس نظام میں بھی کئی ابہامات موجود تھے کئی کمزوریاں اس میں موجود تھیں جن
میں بہتری لانے کی ضرورت تھیں لیکن باوجود اس کے کہ انھیں دور کیا جاتا
حکومت نے ملک میں پا ئی جانے والی بد امنی کرپشن اور سارے مسائل کا زمہ دار
ان اداروں کو قرار دے دیا اور بلدیاتی ادارے ختم کردیئے لیکن اس کے باوجو د
تین سال سے زائد کا عرصہ حکومت کو ملا لیکن اس دوران بھی کوئی تبدیلی
دیکھنے میں نہ آئی اور مسائل میں بہتری کے بجائے اضافہ ہوتا رہا ۔اس دوران
سابقہ حکومت نے بلدیاتی الیکشن کرانے کی ضرورت تک محسوس نہ کی موجودہ حکومت
بھی کوئی خاص دلچسپی بلدیاتی اداروں کے قیام میں نہیں دکھائی بالآخر سپریم
کورٹ آف پاکستان نے اس بات کو محسوس کیا کہ بدامنی اور دوسرے مسائل کے حل
کے لیئے اور جمہوریت کے استحکام کے لیئے بلدیاتی اداروں کا قیام عمل میں
لایا جائے ۔جناب چیف جسٹس آف پاکستان کہ اس خصوصی نوٹس پہ کہ ملک میں قائم
بد امنی کو ختم کرنے کے لیئے کیوں نا لوکل باڈیز الیکشن کرائے جائیں ۔
سابقہ حکومت کے اس الزام کا جواب ہے کہ ملک میں کرپشن اور بدامنی کا ذمہ
دار لوکل باڈیز سسٹم تھا لیکن آپ نے دیکھ لیا کہ لوکل باڈیز کے نظام کے
خاتمے کے بعدمسائل کنٹرول ہونے کے بجائے بڑے ہیں اور چیف جسٹس صاحب بھی اس
بات کی ضرورت محسوس کر رہے ہیں کہ بدامنی اور دیگر شہری مسائل کا حل کے
لیئے اور جمہوری اداروں کے استحکام کے لیئے فوری طور پر مقامی حکومتوں کا
قیام عمل میں لایا جائے ۔اس لیئے فوری طور پر ستمبر تک بلدیاتی الیکشن
کرانے کا کہا گیا ہے ۔سپریم کورٹ آف پاکستان کا یہ ایک بہتر اقدام ہے لیکن
الیکشن سے قبل حکومت کو ایک ماہ کا وقت دے کہ وہ ایک بہتر نطام لانے کے
قانون سازی کریں اور اس پر پھر ایک ماہ کے اندر اندر الیکشن کرائے تاکہ
ھقیقی معنوں میں جمہوری اداروں کو استحکام ملے ۔
اس وقت بلوچستان میں چونکہ ایک عوامی حکومت ہے بلوچستان کے وزیر اعلی ایک
عوامی پارٹی کے سربراہ اور عوامی شخصیت ہیں انکی جڑیں عوام میں ہیں اور
عوام کے مسائل کو بہتر طور پر سمجھتے ہیں اس لیئے سابقہ حکومت کے دور میں
منظور ہونے والے بلدیاتی نظام پر الیکشن کرانے کے بجائے اس میں ضروری
ترامیم کی جائیں،بلدیاتی اداروں میں محروم اور پسے ہوئے طبقات کی موثر اور
منصفانہ نمائندگی کو یقینی بنائے ، یونین کونسل کے فرائض کا دائرہ کار بڑ
ھاکر، خدمات کے چند شعبے یونین کونسل کو منتقل کیئے جائیں ،پبلک،پرائیوٹ
پارٹنرشپ کے کاموں کے موثرسسٹم بنایا جائے،افسر شاہی کو منتخب نمائندوں کا
جواب دہ بنایا جائے ، وسائل اور اختیارات دیئے جائیں تاکہ عوام کو مسائل کے
حل اور رسائی میں آسانی ہو ، بلدیاتی اداروں کی نگرانی اور احتساب کا بھی
موثر نظام بنایا جائے ۔ایک ایسا نظام لایا جائے جس سے بلدیاتی ادارے مضبوط
ہوں، اس سے حکومت مضبوط ہوگی جمہوریت کو استحکام ملے گا ۔ ضرورت اس امر کی
ہے کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ جوکہ خود ایک ایسی پارٹی
کے سربراہ بھی جو کہ محروم اور پسے ہوئے طبقات کی نمائندہ جماعت ہے اور
ڈاکٹر صاحب خود بھی متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اس لیئے لوگوں کی توقعات
بھی ان سے زیادہ ہیں کہ مشکلات کے باوجود انکی موجودہ صوبائی حکومت بلدیاتی
اداروں کے استحکام کے لیئے ایک موثر ،محروم اور پسے ہوئے طبقات کا نمائندہ
اور عوام کی ترجمانی کرنے والا نظام لانے کے سابقہ حکومت کے نظام کو فوری
اسمبلی میں لاکر اس میں ضروری ترامیم کے بعد صاف اور شفاف بلدیاتی انتخابات
کو یقینی بنائے گی۔ |