انتہائی محترم چیف جسٹس آف
پاکستان جناب افتخار محمد چوہدری نے عمران خاں توہینِ عدالت کیس میں
ریمارکس دیتے ہوئے فرمایا ’’روزانہ ہزاروں لوگ ہرزہ سرائی کرتے ہیں لیکن ہم
اُس کا کوئی نوٹس نہیں لیتے لیکن عمران خاں صاحب چونکہ قد آور شخصیت ہیں
اور اُن کے بیان کی اہمیت ہے اِس لیے اُنہیں عدالت میں طلب کیا گیا‘‘۔کپتان
صاحب کے ثنا خواں سینئر لکھاری تو عرصۂ دراز سے چیخ رہے تھے کہ خاں صاحب کے
قد کاٹھ کا کوئی لیڈر قائدِ اعظم کے بعد پیدا ہی نہیں ہوااور خیال ہمارا
بھی یہی تھا لیکن’’ نون لیگیے‘‘ مانتے تھے نہ ’’پپلیے‘‘ ۔شکر ہے کہ آج
منصفِ اعلیٰ نے بھی خاں صاحب کو بڑا لیڈر تسلیم کرکے ہماری باتوں پر مہرِ
تصدیق ثبت کر دی۔اب اگر اُنہیں توہینِ عدالت پر جیل بھیج بھی دیا جائے تو
کوئی غم نہیں کہ بڑے لیڈرجیلوں میں جایا ہی کرتے ہیں۔چیف صاحب کے ارشادات
سے پہلے ہم پریشان تھے کہ یہ ساری چھیڑ خوانی تو پیپلز پارٹی کے اکابرین نے
کی اورعدلیہ کے خلاف کھُلم کھلا زہر اُگلا جبکہ خاں صاحب تو محض لہو لگا کر
شہیدوں میں شامل ہونے والوں میں سے تھے لیکن اب عقدہ یوں وا ہوا کہ سپریم
کورٹ کے نزدیک اعتزاز احسن ، سیّد خورشید شاہ ، مخدوم امین فہیم اوررضا
ربانی بھی اُن ہزاروں ہرزہ سرائی کرنے والوں میں شامل ہیں جن کا سپریم کورٹ
کوئی نوٹس نہیں لیتی ۔یا پھریہ بھی ہو سکتا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ نے یہ سوچا
ہو کہ پیپلز پارٹی کے یہ جیالے تو ناقابلِ اصلاح ہیں اور خربوزے کو دیکھ کر
خربوزہ رنگ پکڑتا ہے اِس لیے حفظِ ما تقدم کے طور پرکم از کم خاں صاحب کو
توبگڑنے سے بچایا جائے ۔شاید اسی لیے جناب جسٹس جواد ایس خواجہ نے فرمایا’’
خاں صاحب بس لفظوں کا چناؤ درست کر لیں ‘‘۔غالباََ جسٹس خواجہ صاحب یہ کہنا
چاہتے تھے کہ
گرمی سہی کلام میں لیکن نہ اِس قدر
کی جس سے بات اُس نے شکایت ضرور کی
ہم بھی چونکہ ہرزہ سرائی کرنے والے اُن ہزاروں لوگوں میں شامل ہیں جنہیں
توہینِ عدالت کا کوئی خطرہ نہیں اِس لیے کہے دیتے ہیں کہ ایسا ممکن نہیں
کیونکہ ’’کپتان‘‘ کی اسی ادا پر تو ہم جیسے ’’سونامیے‘‘ فدا ہیں۔اگر اُنہوں
نے اپنا یہ دبنگ لہجہ چھوڑ دیا اور اپنے ’’بلّے‘‘ سے پھینٹی لگانے کے ارادے
سے توبہ کر لی تو پھرہم بھی مایوس ہو کر تحریکِ انصاف سے مُنہ موڑ لیں
گے۔جسٹس خواجہ صاحب نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ’’ہم تو شیشے میں بند تیرنے
والی وہ مچھلیاں ہیں جِن پر سب کی انگلیاں اُٹھتی ہیں لیکن ہم جواب بھی
نہیں دے سکتے ‘‘۔اﷲ رے ایسی بے بسی ۔۔۔۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ مچھلیاں ڈبے
میں بند ہونے کے باوجود بھی اتنی طاقتور ہیں کہ ڈبے کے اندر تیرتی ،
اٹھکیلیاں کرتی بھی ایک وزیرِ اعظم کو گھر بھیج سکتی ہیں اور دوسرے وزیرِ
اعظم کی جان بھی تب چھوٹتی ہے جب وہ اِن مچھلیوں کے آگے زانوئے تلمذ تہ کر
دیتا ہے ۔انہی مچھلیوں کے ڈر سے کئی لوگ بیرونی ممالک کے کونوں کھدروں میں
چھپے بیٹھے ہیں اور جو ہتھے چڑھ جاتا ہے اُسے یہی ’’مچھلیاں‘‘ مگرمچھ بن کر
ڈکاربھی جاتی ہیں۔اِن مچھلیوں کی اِس ادا پر تو پوری قوم فدا ہے ۔بخدا ہمیں
اِن مچھلیوں سے بہت پیار ہے لیکن اِن کی آئینی طاقت کی خوفناکی سے ڈر بھی
بہت لگتا ہے ۔اگر ہم ڈرتے نہ ہوتے تو بَرملا کہہ دیتے کہ ہمارے لیڈر نے
کونسی ایسی قیامت ڈھا دی تھی جو اُنہیں دھر لیا گیا ۔اگر دبنگ خاں صاحب نے
کوئی غلط سلط بات کہی ہوتی تو وہ کبھی نہ کہتے کہ ’’ جیل چلا جاؤں گا لیکن
جھکوں گا ، نہ معافی مانگوں گا اور ضرورت پڑی تو اعتزاز احسن کی پیش کش سے
فائدہ اٹھاؤں گا‘‘۔
سپریم کورٹ میں پیشی کے موقع پر خاں صاحب نے یہ باور کروانے کی کوشش بھی کی
کہ وہ عدلیہ بحالی تحریک میں پورے’’ آٹھ دن ‘‘جیل میں رہے ۔بھولے بھالے خاں
صاحب کو پتہ ہونا چاہیے کہ جب سپریم کورٹ نے اعتزاز احسن کی نظر بندی اور
’’ڈرائیوری‘‘ کو بھی کوئی لفٹ نہیں کرائی تو پھر خاں صاحب کے’’ آٹھ دن‘‘ کس
کھیت کی مولی ہیں۔ اعتزاز احسن کے اسی عدلیہ بحالی کے زعم نے یوسف رضا
گیلانی کو گھر بھیجا اور اب عمران خاں اور حامد خاں کو بھی سرِ عام شرمندگی
اُٹھانی پڑ رہی ہے۔ اعلیٰ عدلیہ نے عدلیہ بحالی تحریک میں قربانیوں کی
’’لازوال‘‘ تاریخ رقم کرنے والے عمران خاں صاحب کے تحریری جواب کومایوس کُن
قرار دے کر مسترد کر دیا اور اٹھائیس اگست کو تفصیلی جواب داخل کرنے کا حکم
صادر فرما دیا۔ہم جانتے ہیں کہ اعلیٰ عدلیہ تفصیلی جواب میں کسی ’’معافی
نامے‘‘ کی توقع لگائے بیٹھی ہے لیکن ہمارے دبنگ کپتان صاحب ایسا ہر گز نہیں
کریں گے۔
دروغ بَر گردنِ راوی عدلیہ سے مایوس ہو کراب محترم کپتان صاحب عنقریب ملتان
کے ’’گدی نشیں‘‘ سے ملاقات کرنے والے ہیں تاکہ عدلیہ کے موڈ کے بارے میں
اُن کی صلاحیتوں سے مستفید ہو سکیں ۔ہم دست بستہ عرض کریں گے کہ گدّی نشیں
سے کہیں بہتر ’’راجہ رینٹل‘‘ ہیں کیونکہ راجہ صاحب نے معافی بھی نہیں مانگی
اور اپنا دامن بھی صاف بچا گئے جبکہ گدّی نشیں چراغِ رُخِ زیبا لے کر اب
بھی اپنی وزارتِ عظمیٰ ڈھونڈتے پھرتے ہیں ۔ ہم اپنے قائد کو یہ مفت مشورہ
دینا چاہتے ہیں کہ وہ اعتزاز صاحب کی باتوں میں آ کر
کہیں اُنہیں اپنا وکیل نہ کر بیٹھیں کیونکہ یہ اعتزاز صاحب ہی کی کرشمہ
سازی تھی جس کی بدولت آج ملتان کا سیّد زادہ میر تقی میرکے شعر
پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں
اِس عاشقی میں عزتِ سادات بھی گئی
کی عملی تصویر بنا نظر آتا ہے۔
کپتان صاحب کا معاملہ تو اٹھائیس اگست تک لٹک ہی گیا اِس لیے اسے یہیں
چھوڑتے ہوئے اب ذرا صدارتی انتخاب پر بات ہو جائے ۔مسلم لیگ نواز کے ممنون
حسین 432 ووٹ لے کر صدرِ مملکت بن گئے۔جبکہ جسٹس (ر) وجیہہ الدین کے حصّے
میں صرف 77ووٹ آئے ۔صدارتی انتخاب کی تکمیل کے ساتھ ہی چیف الیکشن کمشنر
فخرالدین جی ابراہیم المعروف ’’فخرو بھائی‘‘ مستعفی ہو کر گھر چلے گئے ۔لوگ
کہتے ہیں کہ چیف الیکشن کمشنر صاحب نے اپنے ساتھیوں کے عدم تعاون کی بنا پر
استعفیٰ دیا جبکہ ہم سمجھتے ہیں کہ ’’فخرو بھائی ‘‘ایک دفعہ پھر مستعفی ہو
کرگینز بُک آف ورلڈ ریکارڈ میں اپنا نام لکھوانا چاہتے تھے۔ہم نے تو بہت
پہلے اپنے ایک کالم میں لکھ دیا تھا کہ فخرو بھائی کی صداقت ، دیانت اور
امانت پر کوئی اُنگلی نہیں اُٹھا سکتا لیکن اگر وہ بیچ منجھدار الیکشن کمشن
کی کشتی کے پتوار چھوڑ کر گھر چلے گئے تو پھر۔۔۔؟ شکر ہے کہ اب کی بار وہ
کم از کم الیکشن تو کروا گئے یہ الگ بات ہے کہ ہمارے قائد یہ کہتے ہیں کہ
یہ پاکستان کی تاریخ کی عظیم ترین دھاندلی والے الیکشن تھے ۔
محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبد القدیر خاں فرماتے ہیں ’’دودھ جلیبیاں بیچنے والے
صدر بَن گئے ‘‘۔ممنون حسین صاحب کی دودھ جلیبیوں اور دہی بھلّوں نے بڑے
بڑوں کا ہاضمہ خراب کر دیا ہے ۔وجہ شاید یہ ہے کہ ہمارے ہاں سوائے اشرافیہ
کے اور کسی کو ایسے مناصب کا اہل سمجھا ہی نہیں جاتا۔ویسے بات تو دل کو
لگتی ہے کہ کہاں کھرب پتی آصف زرداری صاحب اور کہاں سادہ و معصوم ممنون
حسین، جنہیں محترم نواز شریف صاحب نے بیٹھے بٹھائے شناسائے محبت کرتے ہوئے
وقفِ مصیبت کر دیا ۔ |