حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلوی
ؒ اپنی تصنیف حیات الصحابہ ؓ میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت حسین بن علی ؓ
فرماتے ہیں میں نے ایک مرتبہ دیکھا کہ حضورؐ اپنے صحابہ ؓ میں کھڑے ہو کر
بیان فرما رہے ہیں آپؐ نے ارشاد فرمایا ہمارے طرز عمل سے ایسا معلوم ہوتا
ہے کہ جیسا موت ہمیں نہیں آئے گی ۔بلکہ دوسروں کے مقدر میں موت لکھی ہوئی
ہے اور حق کو قبول کر کے اس پر عمل کرنا ہمارے ذمہ نہیں ہے بلکہ دوسروں کے
ذمہ ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جن مردوں کو ہم رخصت کر رہے ہیں وہ چند
دن کے لیے سفر میں گئے ہیں اور تھوڑے ہی دنوں میں ہمارے پاس واپس آ جائیں
گے اور مرنے والوں کی میراث ہم اس طرح کھاتے ہیں کہ جیسے ان کے بعد ہم نے
یہاں ہمیشہ رہنا ہے ہم ہر نصیحت کو بھول گئے ہیں اور آنے والی مصیبتوں سے
ہم اپنے آپ کو امن میں سمجھتے ہیں خوشخبری ہو اس آدمی کے لیے جو اپنے عیبوں
کو دیکھنے میں اس طرح سے لگے کہ اسے دوسروں لوگوں کے عیب دیکھنے کی فرصت نہ
ملے اور خوشخبری ہو اس آدمی کے لیے جس کی کمائی پاکیزہ ہو اور اس کی
اندرونی حالت بھی ٹھیک ہو اور ظاہری اعمال بھی اچھے ہو ں اور اس کا راستہ
بھی سیدھا ہو اور خوشخبری ہو اس آدمی کے لیے جس میں کوئی دینی اور اخلاقی
کمی نہ ہو اور پھر وہ تواضع اختیار کرے اور اس مال میں سے خرچ کرے جو اس نے
بغیر کسی گناہ کے حلال طریقہ سے جمع کیا ہے اور دین کی سمجھ رکھنے والوں
اور حکمت و دانائی والوں سے میل جول رکھے اور کمزور اور مسکین لوگوں پر ترس
کھائے اور خوشخبری ہو اس آدمی کے لیے جو اپنا ضرورت سے زائد مال دوسروں پر
خرچ کرے اور ضرورت سے زائد بات نہ کرے اور ہر حال میں سنت پر عمل کرے اور
سنت چھوڑ کر کسی بدعت کو اختیار نہ کرے پھرآپؐ منبر سے نیچے تشریف لے آئے ۔
قارئین اپنے کالموں میں ہم سائنسی معلومات سے لے کر سیاسیات تک ،معیشت سے
لے کر معاشرت تک اور اپوزیشن سے لے کر حکومت تک ہر طرح کے مصالحہ جات سے
بھرپور باتیں یا یوں کہہ لیجیے کہ باتوں کے دہی بھلے اور چٹ پٹی چاٹ آپ کی
خدمت میں پیش کرتے رہے ۔آج سمجھ نہیں آ رہا کہ کس طریقے سے ہم وہ بات کہہ
گزریں جو ہمارا فہم ابھی تک نہ تو ہضم کر پایا ہے اور نہ ہی ہم دل سے چاہتے
ہیں کہ ہم اسے سمجھ سکیں ۔کہتے ہیں کہ ’’ لا علمی ہزار نعمت ہے‘‘ یہ محاورہ
یا ضرب المثل آج ہمیں بالکل درست نظر آ رہی ہے کیونکہ واقعتا بعض حقیقتیں
ایسی ہوتی ہیں کہ ان کا نہ جاننا سکون کے قائم و برقرار رہنے کے لیے ضروری
ہوتا ہے ۔پاکستان میں گیارہ مئی سے پہلے کی حکومت ہو ،جنرل مشرف او ر
چوہدری شجاعت کی کاک ٹیل کے نتیجے میں مارشل لاء اور جمہوریت کے بطن سے جنم
لینے والا عجیب الخلقت حکومتی سیٹ اپ ،آزاد کشمیر میں گزشتہ پانچ سے زائد
ادوار حکومت کے دوران ’’ مفاہمت اور عوام کے وسیع تر مفاد ‘‘ کی خاطر
سیاستدانوں کی بندروں کی طرح لگائی جانے والی الٹ بازیاں اور قلابازیاں ہوں
ہم ہر طرح کی سچویشن کو انتہائی دیانتداری کے ساتھ آپ کے سامنے پیش کرتے
رہے اور کوشش کرتے رہے کہ حتیٰ الا مکان ہمارا دامن ہر طرح کی آلائش سے پاک
رہے آزاد کشمیر میں گزشتہ چھ ماہ کے دوران الزامات در الزامات اور صفائی در
صفائی کی ایسی ایسی مہمات دیکھنے میں آئیں کہ کبھی تو یوں لگتا تھا کہ
حکمرانوں سے بڑھ کر کرپٹ ،بدمعاش،بدعنوان اور گئی گزری شخصیات تو شاید کبھی
تاریخ کشمیر میں گزری ہی نہیں اور جب حکمرانوں کی صفائیوں کی طرف دیکھتے تو
یوں لگتا کہ جیسے یہ ابوزر غفاریؓ کے سچے پیروکار ہیں اور ان سے بڑھ کر
عوام کا درد رکھنے والا تاریخ کشمیر میں آج تک کوئی پیدا ہی نہیں ہوا ۔ہم
نے ایف ایم 93میرپور ریڈیو آزاد کشمیر کے مقبول ترین پروگرام ’’ لائیو ٹاک
ود جنید انصاری ‘‘ میں 26 جون 2011کے الیکشن سے پہلے اور اس کے بعد سینکڑوں
انٹرویوز کے دوران صدر ،وزیراعظم ،سابق صدور و وزرائے اعظم ،وفاقی وزراء ،اراکین
قومی اسمبلی و قانون ساز اسمبلی سے لے کر ماہرین معاشرت ،معیشت ،صنعت و
حرفت ،سماجی تنظیموں کے سربراہا ن اور ان سب سے بڑھ کر فخر امت مسلمہ ڈاکٹر
عبدالقدیر خان مایہ ناز ایٹمی سائنسدان اور پاکستان میں جدیدتعلیمی انقلاب
کے بانی سابق چیئرمین ہائیر ایجوکیشن کمیشن و وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی
ڈاکٹر عطاء الرحمن کا انٹرویو بھی کیا اور اپنے استاد محترم راجہ حبیب اﷲ
خان کے ہمراہ سائنسدانوں سے لے کر سیاستدانوں ہر کسی سے یہ جاننے کی کوشش
کی کہ ایک عام آدمی کی فلاح اور بہتری کے لیے ہر شعبہ زندگی کا ماہر اپنا
کردار کس طریقے سے ادا کرے کہ جس کے نتائج عملی طور پر سامنے آئیں اور اﷲ
کا کنبہ مخلوق خدا ان سے مستفید ہو یہ تمام سلسلہ جاری و ساری رہا اور ہم
نے سات سو سے زائد سائنسدانوں ،ماہرین تعلیم ،سیاستدانوں ،ماہرین معیشت ،حکمرانوں
اور اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے ارباب اختیار کے انٹرویوز کر ڈالے ۔شاعری
کے میدان میں ہمارے استاد گرامی سید مسعود اعجاز بخاری جو ماہر تنقید نگار
او ر شاعر ہیں انہوں نے ہمیں انتہائی قیمتی مشورہ دیا کہ ہم ان تمام
انٹرویوز کو قلمی یاداشتوں کی شکل بھی دیتے چلے جائیں ۔ان کے اس مخلصانہ
مشورے کا نتیجہ یہ نکلا کہ ’’ انصار نامہ ‘‘ کے پلیٹ فارم سے سینکڑوں کالمز
اس انتہائی قلیل عرصے میں نوکِ قلم سے نکل گئے جن کو اخبار میں اور گوگل
(Google) کے ذریعے پوری دنیا میں اردو پڑھنے والے احباب نے پڑھنے کے بعد
سند مقبولیت بخش دی ۔یہ اﷲ تعالیٰ کا ہم پر خصوصی فضل و کرم اور احسان ہے
کہ انتہائی کم وقت میں انتہائی کم علم ہونے کے باوجود اﷲ تعالیٰ نے ہم پر
خصوصی فضل و کرم اور مہربانی کی کہ اپنے تئیں دیانتداری کے ساتھ جو بھی بات
ہم نے سچ سمجھتے ہوئے لکھی وہ عوام میں پذیرائی حاصل کرتے ہوئے آج اس سٹیج
پر ہے کہ ارباب بست و کشاد سے لے کر اپوزیشن تک ،اراکین قومی اسمبلی سے لے
کر اراکین قانون ساز اسمبلی تک اور خواص سے لے کر ہماری اصل جگہ یعنی عوام
تک ہر سطح سے دوست احباب مختلف ایشوز پر ہماری رہنمائی کرنے کے لیے سامنے
آتے ہیں اور مختلف موضوعات پر لکھنے کے لیے ہمیں مواد مہیا کیا جاتا ہے ۔آج
کا کالم بھی ایک ایسے ہی ان دوہناک واقعہ کے متعلق ہے ۔رضوانہ طارق نام کی
ایک پچیس سالہ نوجوان لڑکی کو باغ کے نواحی علاقے میں جلا کر قتل کر دیا
گیا یا وہ جل کر راکھ ہو گئی پاک لوگوں کے اس پاک دیس میں اور آزاد
مسلمانوں کے اس آزاد کشمیر میں 31جولائی کو خالق حقیقی سے جاملنے والی پچیس
سالہ رضوانہ کی ڈیڑھ سال قبل شادی ہوئی اور 25جولائی کو انتہائی پر اسرار
انداز میں آتش زدگی کا ایک واقعہ پیش آیا اور اپنے سسرالی گھر میں یہ معصوم
بچی بری طرح جھلس گئی ۔مرحومہ کے لواحقین نے ہم سے رابطہ کرتے ہوئے ہمیں
بتایا ہے کہ رضوانہ کو اس کی ساس اور نندو ں کی طرف سے کم جہیز لانے کے اور
صرف ڈیڑھ سال قبل ہونے والی شادی کے بعد بے اولادی کے طعنے دیئے جاتے تھے
اور ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ رضوانہ پر شوہر ،ساس اور نندوں کی طرف سے تشدد
بھی کیا جاتا تھا ۔آتش زدگی کے اس واقعہ کے بعد رضوانہ کے اہل خانہ نے اس
کے شوہر سجاد ،ساس اور دو نندوں کے خلاف رپورٹ بھی درج کروانے کی درخواست
دے دی ہے یہ اندوہنا ک واقعہ آزادکشمیر کے خوبصورت ضلع باغ کے ایک نواحی
گاؤں میں پیش آیا ہے ۔31جولائی کو تھب باغ سے تعلق رکھنے والی رضوانہ اپنے
سسرالی گھر جو جگلڑی باغ میں واقع ہے میں پراسرار آتش زدگی کا شکار ہونے کے
بعد خالق حقیقی سے جاملی ۔31جولائی کو رمضان کا آخری عشرہ شروع ہو چکا تھا
ہمیں سمجھ نہیں آرہا کہ اﷲ اور رسول ؐ کا نام لینے والے مسلمانوں کے اس دیس
میں رمضان کے آخری عشرے میں خالق حقیقی سے جاملنے والی بے گناہ رضوانہ کے
خون کے حساب کس سے طلب کریں ۔پولیس کی طرف دیکھیں تو وہ اپنے رونے روتی ہے
،سماج کی طرف دیکھیں تو کوئی بھی دشمنی مول لینے کے لیے تیار نہیں اور اگر
حکومت اور اپوزیشن کی طرف دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ وہ تو کائنات کی گتھیاں
سلجھانے میں مصروف ہیں بھلا رضوانہ کے خون جیسے چھوٹے معاملے پر انہیں توجہ
دینے کی کیا ضرور ت ہے ۔ہم ہر گز یہ الزام عائد نہیں کر رہے کہ مرحومہ
رضوانہ کے لواحقین کی جانب سے اس کے شوہر ،ساس اور دو نندوں پر جو الزامات
لگائے جا رہے ہیں وہ بالکل درست ہیں اور انہیں کی بنیاد پر تحقیقات کی
جائیں ہم صرف یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ آزاد حکومت ریاست جموں کشمیر اور
محکمہ پولیس کے ساتھ ساتھ ’’ ڈومیسٹک وائلنس‘‘کا شکا رہونے والی خواتین کے
لیے بننے والے محکمے اور سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کو بھی یہ ثابت کرنا ہوگا
کہ وہ جاگ رہے ہیں اور عوام کے خون پیسنے سے ملنے والی حلال کی رقم کو حرام
نہیں کر رہے جب تک معصوم رضوانہ کے قتل یا حادثاتی موت کے واقعہ کا دودھ کا
دودھ اور پانی کا پانی نہیں ہو جاتا یہ خون ناحق تمام سماج ،ریاستی اداروں
اور حکومت و اپوزیشن سے جواب طلب کرتا رہے گا ۔
قارئین کالم کے آخری حصے میں سیاست کی چھوٹی سے چٹکی دوبارہ پیش کرتے جائیں
۔راقم نے استاد محترم راجہ حبیب اﷲ خان کے ہمراہ ایف ایم 93میرپور ریڈیو
آزاد کشمیر کے مقبول ترین پروگرام ’’ لائیو ٹاک ود جنید انصاری ‘‘ میں
گزشتہ چند ماہ کے دوران جو خصوصی انٹرویوز کیے ان میں پاکستان مسلم لیگ ن
کے مرکزی چیئرمین راجہ ظفر الحق ،پاکستان مسلم لیگ ن کے مرکزی ترجمان صدیق
الفاروق ،آزادکشمیر کے ڈپٹی اپوزیشن لیڈر چوہدری طارق فاروق ،موجودہ مستعفی
وزراء عبدالماجد خان ،افسر شاہد ایڈووکیٹ ،چوہدری قاسم مجید اور دیگر کے
انتہائی اہم انٹرویوز کیے ۔ڈراپ سین کے طور پر ہم نے موجودہ سینئر وزیر
چوہدری محمد یاسین ،سابق وزیراعظم بیرسٹر سلطان محمود چوہدری اور موجودہ
لڑکھڑاتی ہوئی عدم اعتماد کے ڈرون حملے یا خود کش حملے کی شکار ٹائی ٹینک
نما حکومت کے آخری سہارے وزیرحکومت چوہدری پرویز اشرف کے بھی انٹرویوز کیے
اور سب سے اہم بات ہمارا تازہ ترین انٹرویوثابت ہوئی جو ہم نے آزا دکشمیر
نیوز پیپر زسوسائٹی کے صدر عامر محبوب کا کیا ۔عامر محبوب نے انتہائی
باوثوق ذرائع کے حوالے سے انکشاف کیا کہ آزاد کشمیر میں تحریک عدم اعتماد
کے بعد صدر پاکستان آصف علی زرداری اور محترمہ فریال تالپور کے علاوہ دیگر
مرکزی قیادت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ آزاد کشمیر میں پیپلزپارٹی کی حکومت کو
بچانے کے لیے موجودہ وزیراعظم سے استعفیٰ لے کر کسی ایسی شخصیت کو وزیراعظم
بنا دیا جائے جس پر پیپلزپارٹی کے ’’ نظریاتی اراکین اسمبلی ‘‘اور ’’
فارورڈ بلاکی اراکین اسمبلی ‘‘اتفاق کر جائیں ۔ ہم نے دانتوں تلے انگلیاں
دباتے ہوئے عامر محبوب سے استفسار کیا کہ جناب ان شخصیات کے نام بھی بتا
دیں جن کے سر پر آزاد کشمیر کی وزارت عظمیٰ کا تاج رکھا جا سکتا ہے تو
انہوں نے بیرسٹر سلطان محمود چوہدری ،چوہدری محمد یاسین اور چوہدری لطیف
اکبر کے اسمائے گرامی ہمارے سامنے آن ایئر دوہرا دیئے ۔
قارئین کچھ بھی ہو چاہے چوہدری عبدالمجید کی حکومت قائم رہے اور چاہے
بیرسٹر سلطان محمود چوہدری ،چوہدری یاسین اور چوہدری لطیف اکبر کی شکل میں
کوئی تبدیلی آ جائے ہم تو تبدیلی اسے ہی تسلیم کریں گے کہ جس سے عوام کو
انصاف ملنا شروع ہو جائے ،بیروزگاروں کو روزگار ملنے لگے ،لوگ خود کشیاں
کرنے سے باز آجائیں او ر باغ کی پچیس سالہ رضوانہ کی آتش زدگی کے نتیجہ میں
ہونے والی پر اسرار موت کی اصل حقیقت بھی سامنے آجائے اور اگر کوئی مجرم اس
واقعہ کے پیچھے ہے تو اسے بھی کیفر کردار تک پہنچا دیا جائے اس کے بغیر
کوئی تبدیلی بھی تبدیلی نہیں کہی جا سکتی ۔
آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے ۔
مسافر نے بس ڈرائیور سے انتہائی غصے سے کہا ’’ تم اتنی تیز رفتاری سے گاڑی
کیوں چلا رہے ہو ‘‘
ڈرائیور نے انتہائی معصومیت سے جواب دیا ’’ جناب میں پیٹرول ختم ہونے سے
پہلے آپ کو منزل پر پہنچانا چاہتا ہوں ‘‘
قارئین یوں لگتا ہے کہ گزشتہ 65سالوں کے دوران ہمیں بھی ایسی حکومتیں ملتی
رہی ہیں جو پیٹرول ختم ہونے سے پہلے عوام کو منزل تک پہنچانا چاہتی تھیں
لیکن کریش لینڈنگ در کریش لینڈ نگ کے نتیجہ میں عوام کی حالت زار بتا رہی
ہے کہ کس پرکیا کیا گزری ہے ۔اﷲ ہمارا حامی و ناصر ہو۔ |