رمضان ا لمبارک کے بابرکت مہینے
سے فراغت کے بعد اﷲ پاک کی طرف سے مسلمانوں کے لیے عید ا لفطر کی صورت میں
ایک انعام دیا جاتا ہے ۔ جسکا اہتمام تمام دنیا کے مسلمان بڑے ذوق و شوق سے
کرتے ہیں ۔ عیدین کا انتظار عموما بڑوں سے زیادہ بچوں کو رہتا ہے، کیونکہ
انکی جیب بھرنی اور بڑوں کی کٹنی ہوتی ہے اور عموما یہ ڈائیلاگ بھی سننے کو
ملتا ہے کہ جی بس عید تو بچوں کی ہوتی ہے، ہماری یعنی بڑوں کی کیا عید۔ عید
کی تیاریاں عموما چاند رات کو ہی شروع ہوجاتی ہیں۔ اگر چاند صاحب بے وقت کی
بجائے بر وقت نظر آجائیں ( جیسا کہ اکثر نہیں ہوتا )، تو لوگ بازاروں میں
ایسے امڈ آتے ہیں جیسے آجکل لوگ سستا آٹا اور چینی کے لیے رمضان بازاروں
میں بھاگے دوڑے چلے آتے ہیں۔ بازاروں میں رش کا یہ عالم ہوتا ہے کہ خاتون
کا مونڈھا مردسے اور مرد کا خاتون سے چھل رہا ہوتا ہے، مجال ہے کوئی ایک
دوسرے کی طرف دیکھے ۔ کہ رش اور جلدی میں کس کے پاس اتنا ٹائم۔ کچھ خواتین
و حضرات تو حقیقی شاپنگ کے لیے آتے ہیں، جبکہ کچھ لونڈے لپاڑے بس یونہی
بازار ناپتے اور لفنٹری کرتے یا پھر مونڈھے مارتے اور کھاتے نظر آتے ہیں۔
ایسے میں انکے عجیب و غریب قسم کے فیشن بھی دیکھنے میں آتے ہیں، مثلا پھٹی
جینز، کمر میں ایسے اٹکی ہوتی ہے جیسے کہ بس ابھی نیچے کو گئی اور پھر۔۔۔۔۔۔۔
، نوک دار جوتے، پانچ انچ چوڑی بیلٹ میں اٹھنی کی طرح کا گول رنگ، بازو کٹی
شرٹ، الٹی ٹوپی، کان میں رنگ، ھاتھ میں راکھی کا سا دھاگہ یا لوہے کا کڑا،
بالوں کاہیئر اسٹائل ایسا جیسا کہ ابھی ابھی کسی سے کشتی لڑکر آرہے ہوں یا
سو کر اٹھے ہوں، داڑھی اور شیو کا کٹ ایسا ہوتا کہ جیسے کسی نے انکے منہ پر
کالا مارکر پھیر دیا ہو۔ وغیرہ وغیر۔ یہ تمام ڈھونگ ان خاتونوں نما مردوں
نے صر ف صنف نازک کو لائن مارنے کے لیے رچائے ہوتے ہیں۔ دوسری طرف کچھ
ایڈونچر کے شوقین حضرات چاند رات کو غلط قسم کے ممنوعہ مشروبات پی کر دنیا
و مافیہا سے بے خبر کہیں کے کہیں پڑے ہوتے ہیں، اور عید کی صبح دم مساجد
میں انکی گمشدگی یا فوتگی کا اعلان ہو رہا ہوتا ہے۔
عید کا مو قع ہو اور نائی اور درزی کا ذکر خیر نہ ہو بڑی اچنبھے کی سی بات
ہے۔ جو درزی بیچارہ سارا سال مکھیاں مارتا ہے وہ بھی ان دنوں ایسا مصروف
ہوتا جیسے کہ آجکل ہمارے ایم این اے اور ایم پی اے حضرات ؒلڑنے جھگڑنے میں
یا جیسے آجکل لوگ بجلی اور گیس کے کنکشن کے لیے کسی ایم این اے، ایم پی اے
کی سفارش ڈھونڈتے ہیں اسی طرح کپڑے سلانے کے لیے بھی ایم این اے اور ایم پی
اے حضرات کو کھوجتے نظر آتے ہیں اور درزی حضرات بھی ہاؤس فل کا بورڈ لگا کر
خوب نوٹ چھاپتے ہیں اوربیچارے کسٹمرز کو عید کی صبح تک سولی پر لٹکا کر
رکھتے ہیں۔ نو خیز درزی حضرات اس موقع سے بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے خوب
ھاتھ صاف کرتے ہیں اور جہاں کہیں کپڑا غلط کٹا یا غلط سلا اسے فورا نئے
فیشن کا نام دے دیتے ہیں۔ اسی طرح نائی حضرات بھی رت جگا کر کے پوری چاند
رات لوگوں کی زلفیں تراشتے، شیو کرتے ، فیشل اور مساج کرتے ، چہرے رگڑتے ،
بوڑھوں کو جوان کرتے نظر آتے ہیں۔ نیم حکیم خطرۂ جان کے مصداق نیم نائی
یعنی ٹرینی نائی بھی اس موقع پر اپنے ہاتھ لوگوں پر خوب صاف کرتے ہیں، اور
اگر غلطی سے کہیں کٹ لگ بھی جائے تو وہاں کریم کی ٹاکی لگا دیتے ہیں ۔
الغرض جس نوجوان کے پاس کوئی کام نہ ہو، وہ ان دنوں درزی اور نائی بنا ہوتا
ہے۔یا پھر یونہی اچھا ؟؟ٹائم پاس کرنے کے لیے کسی مینا بازار میں چوڑیوں
اور مہندی کے سٹال لگا لیتے ہیں۔
لیجیے جناب عید کی صبح ہوئی تو ہمارے للو میاں کی بیگم نے چولہے پر شیر
خورمہ کا دیگچہ چڑھادیا اور شیر خورمہ میں اتنے لوازمات ڈلوا کر اس پر اتنا
خرچہ کرا دیا کہ اتنے میں تو چنے پلاؤ کی دیگ پک جاتی اور پورے محلے میں
تقسیم بھی ہو جاتی۔ شیر خورمہ تیار ہوا تو بیگم صاحبہ نے آرڈر جاری کیے کہ
جی محلے میں اور رشتہ داروں میں تقسیم کیا جائے اور کم از کم پانچ سو روپے
بھی ہر ڈونگے کے ساتھ جانے چاہییں، جی ہاں ڈونگے !ناٹ پیالیاں، کیونکہ بقول
بیگم صاحبہ ذرا ذرا سا کیا بھیجنا، بندہ چیز بھیجے تو اچھی خاصی چیز تو
بھیجے!للو میاں نے جب بیگم کو یاد کرایا کہ ہمارے باں تو جن پیالیوں میں
سویاں آرہی ہیں انکا سائز توہمارے مٹھو کے پنجرے میں لگی پانی کی پیالیوں
سے بھی چھوٹا ہے، تو بیگم فورا بولیں کہ جی انکا عمل انکے ساتھ، ہمارا
ہمارے ساتھ۔ اور تو اور صبح صبح ڈونگے بھر بھر کے اورنگی سے کورنگی اور
سٹیل مل کراچی سے صدر کراچی جتنے فاصلے پر رہا ئش پذیر بہنوں کے بھی شیر
خورمہ بھجوانا نہ بھولیں۔اگر بھولی تو اپنی نند کو بھولی جو بدقسمتی سے
پچھلی گلے میں ہی رہتی تھی۔
اب مرحلہ شروع ہوتا ہے جناب عیدی کا، ما سوائے چھو ٹی صاحبزادی، جس بیچاری
کو ابھی پیسوں کی سوجھ بوجھ ہی نہیں ہے دس کا نوٹ کونسا اور سو کا نوٹ
کونسا ، سب ناٹ گئے کہ جی اتنے کم نہیں اتنے دیں، وغیرہ، وغیرہ، آخر کار
بڑی مشکل سے پانچ پانچ سو پر جا کر مک مکا ہوا۔ عید کے موقع پر بہت سے ایسے
لوگ بھی سائیں بن جاتے ہیں، جو پورا سال نظر نہیں آتے، مثلا جمعدار صاحب،
جنہیں پورا سال گلی یا نالی صاف کرتے نہیں دیکھا وہ بھی صبح صبح آکر کنڈی
پیٹنا شروع کر دیتے ہیں کہ صاحب عیدی۔ دفاتر میں چپڑاسی، مالی، گھر میں
ماسی عید سے دس روز پہلے ہی سلام صاحب ، سلام صاحب کی رٹ شروع کر دیتے ہیں۔
اسکے علاوہ ڈھول، ڈرم اور پیپے پیٹ پیٹ کر سحری میں جگانے والے بھی، آٹا ،
گھی، چینی، پیسے وغیرہ ہر چیز لینے کے لیے ہر دم تیار ہوتے ہیں۔ اور تو اور
عیدی کے ساتھ ساتھ زکوتہ اور فطرانہ تک کا بھی تقاضا کرتے ہیں،جو کہ انہیں
دینا با لکل بھی جائز نہیں۔ کیونکہ انمیں بہت سے نوکر تو مربعوں کے مالک
ہیں اور نوکری صرف گھی ، چینی اور نمک مرچ لینے کے لیے کرتے ہیں۔
عید کی نماز کے لیے بچوں کو ساتھ لیجانا بھی ایک فیشن ہے۔ ہر آدمی کے ساتھ
چار چار چھ چھ بچے، ایسا لگتا ہے جیسے ابا خود نماز نہیں پڑھنے جارہے بلکہ
بچوں کو نماز پڑھانے یا کسی پارک میں سیر کے لیے لیجارہے ہیں۔للو میاں کے
ہمراہ آدھے درجن بچے دیکھ کر راستے میں ہر فقیر یہی سوچ کر پیچھے بھاگتا
رہا کہ یہ ضرور ڈھیر سارا فطرانہ دیں گے، بلکہ ایک بار تو پسینہ صاف کرنے
کے لیے للو میاں نے رومال جیب سے نکالنے کے لیے جیب میں ھاتھ ڈالا تو درجن
بھر فقیروں نے گھیر لیا اور بڑی مشکل سے جان چھڑائی۔ ان بیچاروں کو کیا پتہ
کہ اس بار تو للو میاں کو تو اس بار بونس بھی نہیں ملا اور فطرانہ کی رقم
کی کیلکولیشن بھی انہوں نے تمام مسلکی اختلافات سے قطع نظر جس مسلک کا
فطرانہ سب سے کم تھا ، اس کے حساب سے کی اور انکی بیگم نے فطرانہ کی رقم
بقلم خود اپنے دائیں ھاتھ سے اپنی ایک پرانی جاننے والی کو آدھا گھنٹہ
دعائیں، سر کی مالش اور سارے گھر کا فالتو کام کراکر دی۔ عید گاہ میں بچے
جائیں اور خاموش بیٹھ جائیں ایسا نا ممکن ہے۔ بالخصوص جب امام صاحب نماز
اور زائد تکبیروں کا طریقہ بتا رہے ہوتے ہیں ۔ نتیجتا للو میاں بیچارے کو
یہ یا د ہی نہیں رہا کہ کس تکبیر پر ہاتھ اٹھا کر باندھنے ہیں اور کس پر
چھوڑنے ہیں اور پھر کن انکھیوں سے دائیں بائیں دیکھ کر نما ز پوری کرنی پڑی۔
اگر دوران نماز آپس میں بچوں کی کسی بات پر تو تکار ہوجائے تو پھر مختلف
بچوں کے رونے دھونے کی آوازیں مل کر ایسا راگ ایجاد کرتی ہیں، کہ استا د
بڑے غلام علی کو بھی مات۔ عید گاہ سے نکلتے ہی غباروں اور کھلونوں کی
فرمائش، ایک روپے والا غبارہ پانچ میں ضرب چھ برابرچھتیس ، بڑی مشکل سے کتے
بلی ، گدھے سے ڈرا دھمکا کر للومیاں نے گھر واپس لا کر گنتی کراکرتمام بچے
ماں کے حوالے کیے۔
للو میاں بچوں سے نمٹ کر ابھی کمر سیدھی کرنے کو لیٹے ہی تھے کہ بیگم کی
طرف سے دوپہر کے کھانے کے لوازمات کے آرڈر جاری ہوئے، جو کہ چکن بریانی ،
مٹن قورمہ ، شامی کباب، فروٹ کسٹرڈ ، سلاد اور آئس کریم وغیرہ وغیرہ پر
مشتمل تھا۔ للو میاں نے بیگم کو یاد دلایا کہ آپ دو تین کلو دہی بھلے پہلے
ہی بنا چکی ہیں، مٹھائی ، فروٹ، کیک، کولڈ ڈرنک وغیرہ سے فریج بھرا پڑا ہے،
صبح کا شیر خورمہ بھی وافر مقدار میں موجود ہے، تو پھر یہ سب۔۔۔۔۔۔۔ ؟ بیگم
نے للو میاں کی بات بیچ میں کاٹتے ہوئے یاد کرایا کہ میری بہن دوپہر کو عید
ملنے آرہی ہیں بمعہ اہل و عیال، اسکے بعد للو میاں میں مزید کچھ سوال کرنے
کی ہمت نہ ہوئی، کیونکہ سالی بھی آدھی گھر والی ہوتی ہے۔ اگرچہ پچھلی عید
پر بیگم نے للو میاں بیچا رے کی بہن کوچاند رات کا بچا کھچا سالن یہ کہ کر
کھلا دیا تھا کو آج صبح سے طبیعت ناساز ہے، کچن میں گئی ہی نہیں اور پروف
کے طور پر دوپٹہ الٹا کر سر پر بھی کس کے جوڑ لیا تھا۔
للو میاں نے بیگم کا فرمائشی پروگرام بھگتا کر اجازت چاہی کہ وہ بھی ذرا
دوست احباب کو مل آئیں، پہلے تو کچھ چوں چراں کی کچھ باہر سے منگانا پڑا تو
کیا محلے کے بچوں کو ڈھونڈتی پھروں گی، کیونکہ اپنے بچے تو اپنے گھر کے
علاوہ سب کے کام کرتے ہیں ۔ بیگم نے مگر پھر اس شرط پر اجازت دی کہ جلدی
آنا ہے، اور کسی ایک بچے کو ساتھ لیجائیں اور بچے کوسختی سے ھدایت کی کہ
باہر سے جو بھی کچھ ملے لاکر مجھے، یعنی ماں کو دینا ہے اور یہ بھی رپورٹ
کرنی ہے کہ ابا کس کو کہاں کہاں کتنی عیدی دیتے ہیں اور بچوں نے ماں کی
ہدایات پر پورا پورا عمل کرتے ہوئے، باہر سے ملنے والی تمام عیدی ماں کے
ہاتھ پر لاکر رکھ دی اور دوسری رپورٹ بھی لائیو سنا دی ، یعنی میاں کی جیب
کٹی بچوں اور ماں کی بھری۔
واپس آئے تو سالی صاحبہ بمعہ آدھا درجن بچوں کے وارد ہوچکی تھیں۔ گھر میں
درجن بھر بچوں کا جلسہ ہوتو کسی بھی چیز کا اپنی جگہ پر ملنا محال ہے۔ فریج
میں جھانکا تو بڑی حیرانگی ہوئی کہ بلکل صاف شفاف تھا، سوچا کہ شاید بچوں
کی وجہ سے تمام اشیاء خوردو نوش ھمسایوں کے ہاں نہ رکھوا دی گئی ہوں، مگر
بڑے بیٹے نے یہ بتا کر للو میاں کی سوچ کا بت توڑدیا کہ پاپا ہم سب کچھ کھا
پی چکے ہیں، سب کچھ بہت مزیدار تھا ۔ ساتھ ہی بیگم بھاگتی ہوئی آیئں کہ
جلدی سے پیپسی اور سیون اپ کے دو دو لیٹر پیک اورقلفہ آئس کریم کے دو بڑے
پیک لیتے آئیے کہ کھانے کا ٹائم ہو رہا ہے۔ سسرالی لوگ جب گھر میں وارد ہوں
تو سوال و جواب نہیں صر ف حکم کی تعمیل ہوتی ہے، جوکہ کی گئی۔کھانے پر ھاتھ
صاف کرنے کے بعد عیدی کے واری وٹہ کا ٹائم آیا تو بیگم صاحبہ نے فرمائش کر
کر کے ایک ایک بچے کو الگ الگ عیدی دلوائی۔ ساتھ ساتھ بچوں کے اوصاف حمیدہ
بھی بیان کرتی رہیں کہ یہ بچہ اسکول میں ہمیشہ فرسٹ آتاہے، یہ والا سپارہ
میں سب سے آگے ہے، وہ والا کھیل میں سب سے آگے ہے ، یہ والا بہت ہی کیوٹ
اور شرارتی ہے وغیرو وغیرہ۔ تا ہم جب للو میاں کے بچوں کی باری آئی تو ایک
کو بھی عیدی نہ لینے د ی کہ کہیں میری بہن اور بہنوئی کا خرچہ نہ ہو جا ئے
اور زبردستی تمام بچوں کو گلی میں کھیلنے بھیج دیا، تاہم پھر بھی سالی
صاحبہ نام کرنے کو گود والی بچی کو پچاس روپے پکڑا ہی گئیں۔
اسکے بعد جناب للو میاں کی بیگم کی سہیلیوں کا دورہ شروع ہوا، کچھ میاں کے
رشتے دار اور دیگر عزیزواقارب بھی تشریف لائے اور یہ سلسلے رات گئے تک اسی
طرح جاری و ساری رہا۔ سوتے وقت بیگم صاحبہ اگلے دن کے پروگرام گنوا رہی
تھیں کہ کہاں کہاں وزٹ کرنا ہے، اورمیاں بیچارہ دل ہی دل میں نفع و نقصان
کے اس شراکتی کاروبار کے حساب کتاب جوڑتے نیند کے سمندر میں غوطہ زن ہوتے
ہوئے یہ سوچ رھا تھا کہ کاش یہ پانی کا سمندر ہوتا۔ |