ایسا بھی ہوتا ہے

آج ماہا اور بچوں کو ائر پورٹ چھوڑ کر آیا تو گھر کاٹ کھانے کو آ رہاتھا - ہر شے پر عجیب ایک ویرانی سی لگ رہی تھی-جاتے ہوئے زہرہ تو بالکل چمٹ کر رہ گئی تھی ایک ھی رٹ” پا پا ہمارے ساتھ چلو نا’ سیکیورٹی گیٹ پر بڑ ی مشکل سے ماہا نے الگ کیا اسکی چینخوں سے ادھر ادھر کے سارے مسافرعجیب پریشان سے ہوگئے-بڑے دونوں بچے خاموش تھے- بڑی مشکلوں سے ماں کے قابو میںآئی-جب تک نظروں سے اوجھل نہیں ہوئے میں کھڑا تکتا رہا اور ہاتھ ہلاتا رھا- گیٹ پر پہنچ کے ماہا نے فون کیا سب سے باری باری بات ہوتی رہی زہرہ بس پاپا آجا ؤکی رٹ لگا رکھی تھی- اماں بھی اپنی تنہائ سے عاجز اچکی ہوتی ہیں ، بڑی بے چینی سے انکی گرمیوں کی چٹھیوں کا انتظار کرتی ہیں- ہر فون میں یہی سوال کب آرہے ہو؟ اسمرتبہ مجھے چھٹیاں نہیں مل رہی تھیں اور بچوں کی ہوچکی تھیں تو یہ فیصلہ ہوا کہ انکو بھیج دیا جائے -میں آخر میں کھینچ تان کے ایک ہفتے کے لئے چلا جانگا–یہ ملازمت کی ذمہ داریاں بھی انسان کو بے بس کر دیتی ہیں–ائرپورٹ سے سیدھے گھر واپس آیا کچھ ہلچل پیدا کرنے کے لئے بآواز بلند ٹی وی لگایا حامد میر کا ٹاک شو آرھا تھا ایک تو پاکستان کی سیاست یوں لگتا ہے اس حمام میں سب ننگے ہیں- پلیٹ میں فرج میں رکھے ہوئے ڈشز سے کھانا نکالا پورا فرج اور فریزر کھانوں سے بھر کر گئی ہے ماہا ، ایک ایک ڈبے پر مارکر سے لکھ ڈالا ہے کہ اسمیں کیا ہے میں اتنی اچھی سگھڑاور محبت کرنیوالی بیوی کے لئے اللہ کا جتنا شکر ادا کروں کم ہے –” دیکھو گھر کا کھانا کھانا ، ورنہ پھر تیزابیئت اور پیٹ کی خرابی کا مسئلہ ہوگا اور کولیسٹرول بڑھ جائیگا “، اسے میری ایک ایک تکلیف اور ضرورت کا احساس تھا-میں بھی صراط مستقیم پر چلنے والا شخص ہوں ‘ دفتر ‘ گھر ‘ بیوی اور بچے ! اسی میں خوش اور مطمئن ہوں ماہا میری اچھی دوست بھی ہے اسے اپنی ہر بات بتا کر بہت ہلکا پھلکا محسوس کرتا ہوں -اکثر اوقات سوچتا ہوں نمعلوم اللہ تعالی کو میری کونسی نیکی بھا گئی تھی ورنہ تو——کھانے کی پلیٹ مائیکرو ویو میں رکھی اوون ٹوسٹر میں روٹی گرم کی ،اور لیپ ٹاپ کھول کر بیٹھ گیا- ابھی ماہا اور بچے فلائیٹ پر ہونگے ، دو گھنٹے کے بعد اتریں گے تو بات ہوگی– میں دل ہی دل میں انکی حفاظت کی دعائیں مانگ رہاتھا- آج مصروفیئت کی وجہ سے میں اپنی ای میل وغیرہ نہیں دیکھ سکا دفتر سے چھٹی تھی فون پر میں نے خاص طورسے انٹرنیٹ سروس نہیں لی زیادہ تر چھوٹے ٹیکسٹ بھیجتا ہوں ، فیس بک میں استعمال نہیں کرتا حا لانکہ اکاونٹ ہے لیکن اتنی ای میلوں کے بعد مجھے وقت کا زیاں لگتا ہے یہ انٹر نیٹ ہماری زندگی میں ایسے داخل ہو گیا کہ ایک بنیادی ضرورت بن گیااتنے سارے گروپوں کو نمعلوم میرا پتہ کیسے مل گیا ہے کتنی ای میل بغیر پڑھے ڈیلیٹ کر دیتا ہوں واہیات قسم کی سپام میں ڈال دیتا ہوں یہ بھلا کون ہوسکتا ہے؟ چاندنی خان کسی لڑکی کی میل تھی بڑی دلچسپ سی، امریکہ میں رہتی ہے اور اردو سیکھنے کی خواشمند ہے ٹوٹی پوٹی رومن میں لکھا تھا " مجھے ایک فرینڈ بولا آپ سے ہم ارڈو سیکھنے سکتا ہے - آپ کیا ہم کو فرینڈ بنائے گا ، ہم بہت خوش ہوگا " جانے اسکے اس میل میں ایساکیا جادو تھا کہ میں جواب دئے بغیر نہیں رہ سکایہ اکانٹ میں نے اپنے چند دوستوں اور عزیزوں کو بیوقو ف بنانیکے لئے ایک جعلی نام سے بنایا تھا اسلئے بھی میں اپنے آپکو محفوظ خیال کر رہا تھا,اسی نام سے کچہ گروپس پر بھی اظہار خیال کرتا اور چونکہ اردو میں ہی زیادہ سلسلہ ہوتا تھا تو مجھے کچھ شک بھی نہ گزرا، وہ کیا جانے کہ میں دراصل کون ہوں؟- مجہے اپنے آپکو خفیہ رکھنے میں بیحد لطف آتا ہے جبکہ اکثریت نام و نمود چاہتی ہے- ہیلو ہائے کا جواب میں نے سلام سے دیا اور سلام کی اہمئت واضح کی اپنے طور پر میرا کردار ایک ناصح کا تھا اس طرح چاندنی کے ساتھ میرا آن لائن تعلق قائم ہوا-ماہاسے دن میں ایک دو مرتبہ بات ہوجاتی وہ اور بچے گرمی اور لوڈ شیڈنگ سے پریشان تھے دوبئی کی شدید گرمی میں بھی گرمی کا احساس بہت کم ہوتا ہے گاڑی ‘ گھر’ بازار، مال،اسکول ، دفاتر ائر کندیشنڈ بلکہ یخ بستہ،بجلی ہمہ وقت میئسراسکے جانے کاکوئی تصور ہی نہیں -اسکے علاوہ سستی توانائی بجلی اور پٹرول، ہر خاص و عام اس سے مستفید ہے ان ممالک نے اتنے کم عرصے میں ان آسائشوں اور سہولتوں کو اپنی زندگی کا حصہ بنالیا ہے ماہا مذاق میں کہتی کیا کسی کو ڈھونڈھ لیا ہے اپنا غم غلط کرنے کو ؟ اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ میں کیسا باوفا شوہر ہوں اوربرائیوں سے دامن بچا بچا کر رکھتا ہوں ورنہ دوبئی کو تو مشرق کا لاس ویگاس کہتے ہیں،میں اسکی بات کو ہنس کر ٹال دیتا-اسے میں اپنی ساری باتیں بتاتا دفترکیساتھیوں کے قصے،فلپینی، لبنانی،اماراتی اور انڈئین جو ساتھ کام کرتی ہیں انکی ادائیں اور دلربائ کے انداز-اکثر نے تو میرا نام مولانا رکھا تھا کیونکے انکے بہت سیدلفریب پروگراموں کو میں بڑی خوبصورتی سے ٹال دیا کرتا اور پھر دوبئی میں کیا کچھ نہیں ہے ؟ یہ تو انسان کے اوپر منحصر ہے کہ وہ نفس امارہ کو کیسے قابو کرتا ہے— لیکن نہ جانے کیوں میں نے اسے نہیں بتایا کہ میری زندگی میں چپکے سے ایک چاندنی داخل ہوچکی ہے- ایک معصوم سی بھولی بھالی لڑکی جو بات بے بات اپنی ماما کے حوالے سے بات کرتی ہے، جسکے دو چھوٹے بھائی تھے جنکو دیسی سخت نا پسند تھے اسکی ماما نے اسکی شادی جلد کرا دی تھی لیکن وہ طلاق پر منتج ھو گئی- اسنے مجھے بتایا کہ ایک پاکستانی سٹوڈنٹ جو اسکی ما ما کی دوست کا بیٹا تھا اس سے اسکی شادی ہوئی اور بقول اسکے وہ سخت بد تمیز اور مطالباتی تھا -ہر وقت لڑائی جھگڑا ہوتا ایک مرتبہ اسنے غصے میں ہاتھ اٹھا دیا ،جسپر اسنے پولیس کو فون کیا پولیس اسے پکڑ کر لے گئی اور ڈی پورٹ کردیا – اب وہ ایک یونیورسٹی کی طالبہ ہے اور پڑھنا چاھتی ہے- میں نے اپنے آپکو کنوارہ ظاہر کیا اور اپنی رہائش قطر کی دکھائی-اسکی معصوم سی باتوں سے میں نے اسکی ایک خیالی تصویر بنا ڈالی تھی اور خیال ہی خیال میں اسکے بارے میں سوچتا تھا اسنے ایک ادھ مرتبہ اپنی تصویر بھیجنے کا ذکر کیا اور مجھے کافی بے چینی سے انتظار بھی رہا لیکن پھر بات ائی گئی ہوگئی- میں اپنے طور پر اسکے مسئلے مسائل کا حل پیش کرتا تھا قرآن اور احادیث کے حوالے بھی ہوجاتے -اسکی ماں اسکے لیے پھر سے رشتے ڈھونڈھ رہی تھی اور وہ کافی پریشان تھی- میں نے اسے کافی مخلصانہ مشورے دیے کہ وہ ماں کے کہنے پر شادی کر لے- ٹوٹی پھوٹی اردو میں اسکے لکھے ہوئے میلز کئی مرتبہ پڑھتا تھا- کچھ عجیب انجانا سا جذبہ تھا کہ میں اسکی طرف کھینچتا گیا-جس روز اسکی میل نہیں آتی ایک بے چینی اور خلش مجھے گھیرے رکھتی-مجھے اپنی اس کیفئیت پر سخت غصہ بہی آتا لیکن پھر اسکی ایک شوخ چینچل سی ای میل میری ساری کدورت دور کر دیتی- ہمارا تعلق انتہائی اخلاق اور ا صول کے دائروں پر محیط تھا ہمارے مابین کبھی کوئی عامیانہ گفتگو نہیں ہوئی -شائد یہی وجہ تھی کہ میری نفیس اور پاکیزہ طبیعت کو اس سے رابطے مین لطف آتا تھا اسکی اس ای میل نے مجھے چونکا تو دیا تھا جس میں اسنے پوچھا ‘ کیا میرا رابطہ رکھنا آپ سے ٹھیک ہے؟’ میں نے اس خوف سے اس کا جواب ہی نہ دیا کہ کہیں واقعی رابطہ ختم نہ ہوجائے- اس کیفیئت میں دو مہینے گزرگئے میر ی چھٹیاں شروع ہونے والی تھیں کہ اسکی ای میل آئی وہ اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ انڈیا جارہی تھی اور اسکی مما اسکے صحت کے لئے کافی اندیشوں میں مبتلا تھی– اچانک خاموشی چھا گیء میں رو زاسکے میل کا انتظار کرتا – شکائیتی ای میل بھی بھیجیں، کاش کہ اسکا کوئی دوسرا رابطہ میرے پاس ہوتا ، فون نمبر ، فیس بک اکانٹ کچھ عجیب سا ایک خلا محسوس ہو رہا تھا– یہ بشری نفسیات بھی کیا چیز ہے اور اسکے تقاضے، اسلئے تو انسان کو خطا کا پتلا کہا جاتا ہے-پاکستان گیاتو اماں، ماہا اور بچے بری طرح منتظر تھے بچوں کی ڈھیروں فرمائیشیں ، لیکن گرمی سے بری طرح پریشان اماں کا تقاضہ کہ بھور بن ، مری یا نتھیاگلی لیکر چلے جا ؤ- زہرا تو سارا وقت پیچھے پیچھے چپکی ہوئی، کہیں پاپا پھر چھوڑ کر نہ چلے جائیں- اماں کے پاس انٹرنیٹ تو تھا نہیں ، ابھی میں موبائیل ڈرائو لینے کی سوچ میں ہی تھا- کہ خیال آیا کہ روشن آپا کے گھر جاکر آج اپنی میل چیک کر لیتا ہوں – میں جانتا تھا کہ روشن آپا کے پاس ڈی ایس ایل لگا ہوا ہے اور وہ خود بھی کافی کمپیوٹر کی شوقین ہیں – روشن آپا سے میری خوب نوک جھونک چلتی تھی وہ عمر میں مجھ سے کافی بڑی تھیں لیکن ہماری خوب نبھتی تھی ایک مرتبہ ایک جعلی اکانٹ بنا کر میں انہیں خوب بیوقوف بنا چکا تھا–روشن آپا گھر پر نہیں تھیں انکی پرانی ملازمہ نے میرا استقبال کیا، ‘ جی بی بی ابھی تھوڑی دیر میں آنے والی ہیں آپ انتظار کیجیے- آپ کو چائے بنا دوں؟ ” اسے معلوم تھا کہ میں چائے کا رسیا ہوں– میں انکی سٹڈ ی میں چلا گیا کمپیوٹر آن تھا میں جاکر بیٹھ گیا – یہ کیا چاندنی خان کا اکانٹ؟ مجھے عجیب جھر جھری سی آگیء میرے سارے ای میل میرا منہ چڑھا رہے تھےمیری کیفئت اسوقت کچھ ایسی ہورہی تھی جب آدم کو شیطان نے شجر ممنوعہ کھلا دیا تھا——–
Abida Rahmani
About the Author: Abida Rahmani Read More Articles by Abida Rahmani: 195 Articles with 254174 views I am basically a writer and write on various topics in Urdu and English. I have published two urdu books , zindagi aik safar and a auto biography ,"mu.. View More