میر پور ،کچھ نسلیں اور برباد سہی

پاکستان کے لئے ناقابل تلافی مستقل نقصانات پرمبنی ’’سند ھ طاس معاہدہ‘‘(انڈس واٹر ٹریٹی)کی کسی حد تک،معمولی تلافی کے طور پر منگلا ڈیم 1967میں 6سال کی مدت میں مکمل ہوا۔ڈیزائین و سپر وائیز برطانوی کمپنی اور تعمیر 8امریکی کمپنیوں کے کنسورشیم نے کی۔اس ڈیم کی تعمیر سے بجلی کی پیدا وار کے علاوہ پاکستان کے نہری نظام کو پانی کا ایک بڑا ذریعہ بھی حاصل ہوا جس کا پہلے انحصار صرف دریائے سندھ پہ تھا اور اس ڈیم کی تعمیر سے ہر سال آنے والے سیلاب کے پانی کو کنٹرول کرنے میں بھی بڑی مدد ملی۔1971ء کی جنگ میں انڈین ایئر فورس کی بمباری سے منگلا ڈیم کو نقصان پہنچا اور بجلی کی پیداوار عارضی طور پر بند ہو گئی تھی۔پاور سٹیشن کے دس یونٹ ہیں اور ہر یونٹ کی گنجائش100mwہے۔ساتوں ،آٹھواں یونٹ1981اور نواں و دسواں یونٹ 1992میں لگایا گیا۔حکومت نے2004ء میں ڈیم کی گنجائش494فٹ تک بڑھانے کا فیصلہ کیا تا کہ ڈیم میں پانی کی گنجائش میں18فیصد اضافہ ہو اور 120mw اضافی بجلی پیدا ہو سکے۔واپڈا کے مطابق توسیع منصوبے میں40ہزار افراد کی منتقلی کا تخمینہ لگایا گیا جبکہ یہ چالیس ہزار افراد نہیں چالیس ہزار کنبے ہیں۔منگلا ڈیم کی تعمیر کے وقت بھی واپڈا کے مطابق ایک لاکھ دس ہزار افراد بے گھر ہوئے جبکہ یہ بھی ایک لاکھ دس ہزار افراد نہیں کنبے تھے۔’’پیپکو ‘‘کے مطابق منگلا ڈیم کے توسیعی منصوبے میں 147موضع جات کے لئے38.74بلین روپے جس میں سے 34.39بلین روپے آزاد کشمیر حکومت کے ذریعے تقسیم کر دئے گئے ہیں ۔اس حوالے سے واپڈا نے 45.59بلین روپے آزاد کشمیر حکومت کو ٹرانسفرکئے ہیں۔متاثرین اور قانونی ورثاء کو 1648.45ملین روپے کی ادائیگیاں کی جا چکی ہیں۔

گزشتہ دنوں کی بارشوں میں منگلا ڈیم کی سطح بلند ہونے لگی اور اب میر پور سے ملحقہ علاقوں کی آبادیوں میں کئی کئی فٹ ڈیم کا پانی کھڑا ہے۔آج ہی میں نے اسی علاقے کی ایک تصویر دیکھی جس میں چھوٹے چھوٹے گھروں میں پانی کی سطح چند فٹ بلند ہو گئی ہے۔گھروں کے ساتھ ایک مسجد کے مینار سب سے اونچے ہیں۔نامعلوم کب اس علاقے کا کوئی اجڑا ہوا شخص کبھی ڈیم میں پانی کم ہونے پر ،پانی کی سطح سے نظر آنے والے مسجد کے مینار دیکھ کر فرط جذبات سے مغلوب ہو کر چلاتے ہوئے کہے گا’’ وہاں ، اس مسجد کے مینار کے ساتھ میرا گھر تھا‘‘۔سب اس پر ہنسیں گے اور اسے خبطی قرار دیا جائے گا۔لیکن ہنسنے والوں کو یہ پتہ نہیں ہو گا کہ اس جیسے خبطی ہزاروں کی تعداد میں ہیں ،جو جب تک زندہ رہیں گے،اپنے گھر بار چھوڑنے ،دوبارہ آباد ہونے کے لئے برباد ہونے کا یہ سفر انہیں ہر دم یاد رہے گا،اس کی یادیں، ان کے سینوں میں جلتے شعلوں کی طرح بھڑکتی رہیں گی،دھوکہ دیئے جانے کا احساس انہیں تنگ کرتا رہے گا،اس وقت تک جب تک مر کر قبر کی ٹھنڈی مٹی میں اتر نہیں جاتے،اس وقت تک ان کو چین نصیب نہیں ہو گا۔لیکن ضروری نہیں کہ ان کو مر کر بھی چین نصیب ہو جائے،کیونکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کی قبر وں کو بھی ان کے آباؤ اجداد کی قبروں کی طرح کبھی کسی اور توسیع منصوبے کے تحت منگلا ڈیم کے پانی میں ڈبونا ملک و قوم کا ایسا برتر مفاد قرار پائے جس کے لئے کسی سے جھوٹے وعدے کر کے اسے بے آسرا،برباد بھی کیا جا سکتا ہے۔

چند سال پہلے کی بات ہے کہ منگلا ڈیم توسیع منصوبے کی زد میں آنے والی آبادیوں میں واپڈا کی طرف سے تعمیرات کا سروے جاری تھا۔سروے ٹیم کو ایک ایک گھر کے اندر جا کر کچن،کمرے سب دیکھنا پڑتا تھا۔ایسی ہی ایک ٹیم ایک گاؤں میں سروے کر رہی تھی کہ ایک خاتون نے سروے کرنے والے افسر کو مخاطب کر کے، ایک فخر غرور سے کہا’’ دیکھو جی،سانوں اجاڑ نہ دینڑاں،اسی ایتھے بڑی ہنسی خوشی ؂زندگی گزار ریں آں‘‘۔ وہ آفیسر کام کرتے کرتے اس کی یہ بات سن کر چونک گیا ،اس نے اس خاتون کے دو تین کمروں کے چھوٹے سے گھر کو دیکھا جہاں غربت تو تھی لیکن عام ضرورت کی ہر چیز موجود تھی،ایک چھوٹا سا ٹی وی بھی تھا،غربت کے باوجود ہنستا بستا گھر لگتا تھا۔وہ خاتون کہہ رہی تھی،’’ وزیر اعظم صاب نوں کینڑاں کہ سانوں ایتھوں کدری ہور لیجا کے اجاڑ نہ دینڑاں،اسی بڑی ہنسی خوشی زندگی گزار ریں آں‘‘۔
میر پور،کھڑک،مہاجر کالونیاں کنجڑی کا لونی،بوہڑ کالونی،نوتھا ٹاؤن،خانپور،رٹھوعہ،کاکڑہ ٹاؤن،اسلام گڑھ،چکسواری ،ڈڈیال کی آبادیاں منگلا ڈیم کی جھیل کے پانی میں آہستہ آہستہ ڈوب رہی ہیں۔ڈیم کی توسیع سے مہاجر کالونیوں کی تمام زمینیں جبکہ باقی علاقوں میں تیس سے ساٹھ فیصد زمینیں ڈیم میں چلی گئی ہیں ۔متاثرین کی تعدا د تقریبا چالیس ہزار لگائی گئی ہے جبکہ اتنے کنبے ہیں ،ان متاثرین کی کل تعدا د دو لاکھ کے قریب ہے۔ان آبادیوں میں مشترکہ خاندانی رواج کے مطابق ہر گھر میں کئی کئی کنبے آباد تھے لیکن واپڈا نے ہر گھر کو ایک ہی کنبہ قرار دیا ۔بعد میں متاثرین کے شور واویلا کرنے پر اضافی کنبہ جات کے طور پر آزاد کشمیر حکومت نے اندراج تو کر لیا لیکن اسے واپڈا نہیں مانتا اور کہتے ہیں جو مل گیا اسے ہی غنیمت سمجھو۔ اعلی سطحی اجلاسوں میں واپڈا کے اعلی افسران وغیرہ جو انداز اپناتے ہیں وہ دیکھ کر آزاد کشمیر کا ایک عام آدمی بھی شرم و غیرت سے ڈوب مرے،لیکن آزاد کشمیر کی حکومت میں آ جانے والوں کی کھال اتنی موٹی ہو جاتی ہے کہ وہ اس طرح کے عوامل سے بے پرواہ ہو جاتے ہیں۔واپڈا نے پیمائش کے وقت گھروں کے اندر واقع جانوروں کے باڑے کو ’’ کوورڈ ایریا‘‘ میں شامل نہیں کیا حالانکہ وہ مکان کے گیٹ کے اندر واقع تھے۔منگلا ڈیم توسیع منصوبے کے متاثرین سے ان کی زمینیں لیتے ہوئے 272فٹ کا مرلہ لیا گیا جبکہ متاثرین کو زمین دیتے ہوئے 227فٹ کا مرلہ دیا گیا۔واپڈا اور آزاد کشمیر حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ جن کے پاس زمین نہیں ہے ان کو متبادل زمین بھی دی جائے گی لیکن اب تک ان کو زمین نہیں دی گئی۔متاثرین کو ادائیگیاں بھی مارکیٹ ریٹ سے بہت کم کی گئیں جس کی وجہ سے متاثرین کے لئے ان پیسوں سے نئے مکانات کی تعمیر ناممکن ہی رہی۔واپڈا نے متاثرین کو ریٹ تقریبا ہزار روپے فی فٹ دیا جبکہ مارکیٹ ریٹ کم از کم دو ہزار روپے فٹ بنتا ہے۔ معاوضہ جات کے اعتراضات پرریفرنس کورٹ کے جج نے متاثرین کے حق میں فیصلے دینے شروع کئے تو چند ہی ماہ میں اس جج کو ہٹا کر دوسرا جج لگا دیا گیا جس نے یکطرفہ طور پر واپڈا کے حق میں فیصلے دینے شروع کر دیئے۔ریفرنس کورٹ کے ان فیصلوں کے خلاف متاثرین کی ہائیکورٹ میں اپیلیں تین سال سے زیر التوا ہیں اور گزشتہ تین سال میں ان اپیلوں کی ایک بھی سماعت نہیں ہوئی ہے۔میر پور نیو سٹی کو نالوں،کھڈوں میں سو سو فٹ بھرائی کر کے متاثرین کے لئے یوں تیار کیا گیا کہ وہاں زمین بیٹھے کی وجہ سے تعمیرات ہونا عشروں تک ممکن نہیں۔

منگلا ڈیم توسیع منصوبے کے متاثرین کو نظر آنے لگا تھاکہ واپڈا کی طرف سے انہیں اجاڑنے کے اسباب ہو رہے ہیں لیکن وہ اس وقت چپ ہونے پر مجبور ہو جاتے کہ جب آزاد کشمیر کا وزیراعظم اور آزاد کشمیر کے اعلی افسران ان کو یقین دہانی کراتے رہے کہ ان کی منتقلی کے مسائل ،اضافی کنبہ جات کی ادائیگی تک ڈیم میں پانی کی سطح بلند نہ ہو گی۔متاثرین بھی یقین کرنے پہ مجبور تھے کہ یقین دہانی کرانے والا وزیر اعظم انہی کے علاقے کا ہے،یقینا اسے واپڈا سے نہیں بلکہ علاقے کے عوام سے ہمدردی ہو گی۔لیکن ڈیم کا پانی بلند ہونا شروع ہو گیا،اس پانی میں گھر وں کے ساتھ ساتھ سرکاری یقین دہانیاں بھی ڈوب رہی ہیں، پانی بھرتی ہوئی ان آبادیوں میں گونجتی آوازیں جیسے واپڈا ، وزیر اعظم آزاد کشمیر اورحکومت سے پوچھ رہی ہوں کہ خدارا، اب تو بتاؤ ’’ بربادی کے افسانے کہاں جائیں ؟ ‘‘۔

صرف توسیعی منصوبے کے متاثرین ہی نہیں بلکہ میر پور کے رہائشی سیکٹر ڈی تھری ویسٹ ٹو کی طرح کہ وہ متاثرین بھی پچیس سال سے واپڈا اور ایم ڈی اے کو رو رہے ہیں جبکہ وزیر اعظم آزاد کشمیر چوہدری عبدالمجید علاقے کے لوگوں کے بجائے واپڈا کی حمایت میں لگے رہے ۔اطلاعات کے مطابق سیکٹر ڈی تھری ویسٹ ٹو میں کئی افراد نے واپڈا سے ’این او سی‘ لیکر اپنے پلاٹوں کا قبضہ حاصل کر لیا ہے جبکہ جو چند لاکھ روپے دیکر ’این او سی‘ نہیں لے سکتے وہ پچیس سال سے اپنے پلاٹ لینے کے منتظر ہیں۔ واپڈا اور آزاد کشمیر حکومت کی زیادتی ،بے حسی سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ آئندہ پچیس سال بھی یہ معاملہ یونہی لٹکا رہے گا اور نصف صدی مکمل ہونے کے بعدشاید ان پلاٹوں کے مالکان کے ورثاء کو اقوام متحدہ سے اپیل کرنا پڑے ۔وزیر اعظم آزاد کشمیر چوہدری عبدالمجید چاہتے تو واپڈا کے ساتھ معمول کی ایک میٹنگ میں سیکٹر ڈی تھری ویسٹ ٹو کے متاثرین کا دیرینہ مسئلہ حل کر سکتے ہیں لیکن وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کا کہنا ہے کہ ’’ کس نے کہا تھا کہ ان کوواپڈا کے ساتھ متنازعہ زمین پر جگہ دو،اور متاثرین نے وہ پلاٹ لئے ہی کیوں؟‘‘۔وزیر اعظم آزاد کشمیر کو شاید یہ معلوم نہیں کہ میر پور میں وفاقی حکومت کا پاسپورٹ آفس بھی واپڈا اور ’ایم ڈی اے‘ کی ایسی ہی متنازعہ جگہ تعمیر کیا گیا ہے ۔ یوں وزیر اعظم چوہدری عبدالمجید کے واپڈا کے موافق خود ساختہ اصول/دلچسپیاں میر پور کے عوام کے لئے بربادی کا کھلا پیغام ہے۔مقبوضہ کشمیر سے ہجرت میں نے نہیں بلکہ میرے والد نے کی تھی لیکن گھر ، اپنے علاقے ،لوگوں سے بچھڑنے کے زخم کئی نسلوں تک مندمل نہیں ہوتے۔میں نے میر پور کی آبادیوں کو پانی میں ڈوبتے دیکھا،وہاں بسنے والوں کا خیال آیا تو ان کے بھرم کا ٹوٹنا، مصائب،مشکلات،ان کابے آسرا ہونا،مجھے اپنا درد و دکھ محسوس ہونے لگا۔نامعلوم ہمارے حکمران کس مٹی کے بنے ہوتے ہیں کہ نہ ان میں عوامی مفاد اور نہ ہی عوامی مشکلات و مصائب کا کوئی احساس نظر آتا ہے۔ ’’سانوں اجاڑ نہ دینڑاں‘‘ ، نامعلوم ابھی کتنی نسلیں یہی آس لئے نامراد و برباد ہوتی جائیں گی۔
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 777 Articles with 698929 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More