خیبر پختونخواہ کی صنعتوں کی حالت زار

جمشید خٹک
آئین کی بالادستی برقرار رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ آئین کے تمام شقو ں پر من وعن عمل کیا جائے ۔آئین کی چند شقو ں پر عمل در آمد کرنا اور باقی کو نظر انداز کرنے سے آئین کا تقد س برقرار نہیں رکھا جا سکتا۔پچھلے دور حکومت میں اٹھارویں ترمیم منظور کیا گیا ۔جس کی رو سے بجلی کے محکمے کو واپس صوبے کے حوالے کرنا تھا۔بجلی کے بڑے بڑے شاخوں میں بجلی کی پیداوار ، ترسیل اور تقسیم کار شامل ہے ۔ان شعبوں میں ایک حد تک کاروائی کی گئی ۔لیکن پورے بجلی کے نظام کو صوبوں کے حوالے نہیں کیا گیا۔

پرویز خٹک خیبر پختونخواہ کے وزیر اعلیٰ نے اس خواہش کا اظہار کیا ہے ۔کہ اگر بجلی کا نظام واپس صوبے کو دیا جائے تو بجلی کے بہتر نتائج برآمد ہوسکتے ہیں ۔اٹھارویں ترمیم کے رو سے خیبر پختونخواہ کا حق بنتا ہے ۔کہ محکمہ بجلی کو واپس صوبائی حکومت کے حوالے کیا جائے ۔وزیر اعلیٰ کا یہ مطالبہ جائز اور حقائق پر مبنی ہے ۔

1958 میں واپڈا کے قیام سے قبل خیبر پختونخواہ شمالی علاقوں کیلئے بجلی کا مرکز تھا۔پنجاب کے کئی علاقوں بشمول گوجرانوالہ تک بجلی کے بل پشاور سے جاری ہوتے تھے ۔اور بجلی سے ملنے والی آمدنی سابقہ صوبہ سرحد کے خزانے میں آتی تھی ۔ملک میں وافر مقدار میں بجلی میسر تھی۔اُس وقت کے مضبوط مرکز کے حامیوں نے ملک کے وسائل کو یکجا کرنے کا فیصلہ کیا ۔ساری بجلی کو نیشنل گرڈ سے ملا کر واپس صوبوں کو سپلائی کرنے لگے ۔1958 میں سارے صوبوں کے بجلی کے کمپنیوں کے ادغام کرنے اور واپڈا کے قیام کا مقصد یہ تھاکہ ملک میں بجلی کے پیداوار کو ممکن بنایا جا سکے ۔لیکن یہ تجربہ بری طرح ناکام ہوا۔ایک بار پھر پانی وبجلی کی وزارت نے پھر وہی پرانے طریقے کا ر کو بحال کرنے کی کوشش کی ہے ۔صوبوں میں مقامی سطح پر کمپنیوں کو بجلی کی پیداوار اور ترسیل کا کام سپرد کیا ہے ۔واپڈا کے قیام کامقصد بڑے بڑے ڈیموں کیلئے بین الاقوامی اداروں سے قرضے لینا اور بھارت کے ساتھ انڈس واٹر ٹریٹی کے تحت پانی کے تقسیم کے مسئلے کا فیصلہ کرنا تھا۔تربیلہ ڈیم اور منگلہ ڈیم جیسے بڑے منصوبوں پر عمل درآمد کرنا تھا۔واٹرانڈس ٹریٹی کے تحت دریائے بیاس ، دریائے ستلج ا ور دریائے راوی بھارت کو دئیے گئے ۔جبکہ دریائے چناب ، دریائے سندھ اور دریائے جہلم کا پانی پاکستان کے حصے میں آیا ۔

اب جبکہ پرانا نظام کامیاب نہیں ہو سکااور صوبے بجلی کی پیداوار اور ترسیل کے لیے تیار ہیں تو کیوں نہ یہ پورا نظام صوبوں کے تحویل میں دیا جائے ۔بجلی کی ملنے سے صوبہ خیبر پختونخواہ کی صنعت چل پڑے گی ۔اس وقت حالت یہ ہے کہ صوبے میں 2300 صنعتی یونٹس بند ہو چکے ہیں ۔کسی زمانے میں صوبے میں صنعتی یونٹوں کی تعداد 2800 تھی ۔جو اب صرف 500 ہو کر رہ گئی ہے ۔40000 سے زیادہ مزدور بے روزگار ہوگئے ہیں۔صوبے میں صنعتی ترقی نہ صرف رک گئی ہے ۔بلکہ اس وقت صنعتی ترقی کی رفتار منفی میں ہے ۔دُنیا میں باقی ترقی پذیر ممالک میں صنعتی ترقی کی رفتار بالترتیب اس طرح ہے ۔انڈونیشیا ، تھائی لینڈ، ملائیشیا 30 فی صد ، 170 فی صد ، 200 فی صد۔

صوبہ خیبر پختونخواہ میں صنعتی شعبے کو ترقی دینے کیلئے سب سے بڑی رکاؤٹ بجلی کی عدم دستیابی ہے ۔اگر بجلی مناسب نرخوں پر مہیا کی جائے تو جام صنعتی پہیہ حرکت میں آسکتا ہے ۔صوبہ خیبر پختونخواہ ویسے ہی بندرگاہ سے دوری کی بناء پر خام مال پر زیادہ لاگت اور بہتر ٹرانسپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے مشکلات کا شکا ررہتا ہے ۔پشاور کے مقابلے میں وہ صنعتیں جو بندرگاہ کے قریب لگی ہوئی ہیں۔سامان کی رسد و ترسیل کے مشکلات کا سامنا نہیں کرتے ۔بذریعہ ریل وے ٹرانسپورٹ کب کا بند ہوچکا ہے جو مقابلتاً سستا تھا۔پرائیویٹ ٹرکوں کے ذریعے خام مال اور تیار کردہ مال کو ملک کے دوسرے حصوں تک پہنچانا کافی مہنگا پڑتا ہے ۔اس لئے صوبہ سرحد کے کارخانہ دار ملک کے دوسرے کارخانہ داروں سے قیمتوں میں مقابلہ نہیں کرسکتے ۔نتیجتاً نہ صوبے کے سرمایہ کار اور نہ بیرونی سرمایہ کار اس علاقے میں سرمایہ کاری کو ترجیح دیتے ہیں ۔جب امن کا فقدان ہو ۔خصوصی رعائتیں نہ ہوں اور حکومت کی سرپرستی بھی نہ ہو۔تو صنعتوں کا جال کیسے بچھایا جائے گا۔

پاکستان دہشت گردی ، سیلاب اور دیگر کئی بنیادوں پر یورپین ممالک اور امریکہ سے خصوصی رعایتوں کا تقاضہ کرتا ہے ۔اسی فارمولے کے تحت خیبر پختونخواہ کا مرکزی حکومت سے یہ مطالبہ کرنا بھی جائز ہوگاکہ خیبر پختونخواہ کے مخصوص حالات کے پیش نظر خصوصی صنعتی پیکج کا اعلان کیا جائے ۔صنعتی یونٹوں کو خام مال کی درآمد پر مکمل چوٹ دیا جائے ۔بجلی کے نرخوں میں صنعتوں کو خصوصی رعایت دی جائے ۔ایکسائز ڈیوٹی میں خاطر خواہ کمی کی جائے ۔وفاقی حکومت سڑکوں اور پلوں کی تعمیر کیلئے خصوصی فنڈز فراہم کرے۔خاص طور پر اُن سڑکوں کیلئے جو نیٹو اور ایساف کے بڑے بڑے کنٹینروں کی وجہ سے جو سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئے ہیں۔

جب اس صوبے میں سرمایہ کاری کو راغب کرنے کیلئے خصوصی مراعات حاصل ہونگے تو مقامی سرمایہ دار بھی کہیں اور جانے کی بجائے یہاں اپنے گھر میں سرمایہ لگانے کو ترجیح دینگے ۔ساتھ ساتھ دیگر علاقوں سے بھی خصوصی مراعات کی وجہ سے سرمایہ کاری کا عمل شروع ہو جائے گا۔لیکن اس قسم مراعات دیتے وقت نہایت چھان بین کی ضرورت ہوگی ۔ورنہ اُن مراعات کا حشر بھی گدون امازئی صنعتی بستی سے کم نہیں ہوگا۔گدون امازئی آج کل صنعتی قبرستان بنا ہوا ہے ۔پہلے مرحلے میں گدون امازئی صنعتی بستی میں مراعات نچاور کئے گئے ۔مفاد پرست عناصر نے اُس کا غلط استعمال شروع کیا ۔گدون امازئی کا نام پر درآمد کرنے والا ڈیوٹی فری خام مال کسی اور جگہ استعمال کیا گیا ۔نتیجتاً حکومت کو وہ مراعات واپس لینے پڑے ۔

مرکزی حکومت کے ساتھ ساتھ خیبر پختونخواہ کی حکومت صوبے میں صنعتیں لگانے کیلئے تمام مقامی ٹیکسوں کے یکسر ختم کرے۔بجلی کی مد میں خصوصی طو رپر صنعتوں کو رعایتیں دے دی جائیں۔کوئی وجہ نہیں کہ اس صوبے میں صنعتیں دوبارہ آباد نہ ہوں ۔دُنیا کے تمام ممالک کے صنعتوں نے اُس وقت ترقی کی جن کو ابتدائی مراحل میں سہارا دیا گیا ۔امریکہ دوست ممالک کی صنعتی ترقی کو تیز تر کرنے کیلئے خصوصی ڈیوٹی فری زونز قائم کرتی ہے ۔ان زونز میں مال تیار ہو کر امریکہ ڈیوٹی فری درآمد کرتا ہے ۔اس کی مثالیں اسرائیل ، مصر اور اُردن میں موجود ہیں ۔امریکہ نے پاکستان اور افغانستان میں بھی یہ کوشش کی ۔ ری کنسٹرکشن اپر چنیٹی زونز (ROZES) کے نام سے منصوبہ بنایا ۔ پانچ سال تک گفت وشنید کے بعد خطے کی دگرگوں اور خراب امن کے پیش نظر اس منصوبے کو ترک کردیا گیا ۔

پچھلی حکومت نے بھی خیبر پختونخواہ میں دس سالہ ہائیڈرو پاور جنریشن پلان تیار کیا تھا ۔اُس منصبوبے کے تحت بجلی کے 24 منصوبوں پر کام شروع کیا جاناتھا۔جس سے 2100 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی گنجائش اوراُمید تھی ۔ جس میں درال خوڑ ، مٹلتان ، خان خوڑ ،دبیر خوڑ ، ملاکنڈ III اور دیگر کئی منصوبے شامل ہیں ۔ظاہر ہے کہ یہ تمام منصوبے خیبر پختونخواہ کے فائلوں میں پڑے ہونگے ۔بجلی کی پیدواوری صلاحیت میں اضافہ کرنے کی غرض سے نئی حکومت کھلے دل سے پرانے منصوبوں کو تر جیحی بنیادوں پر کام شروع کردے ۔تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے حالیہ پشاور کے دورے کے موقع پر بجلی پر اپنے خیالا ت کا اظہار کیا ۔کہ صوبہ خیبر پختونخواہ کو بجلی میں خود کفالت کی منزل تک پہنچانے کے بعد باقی ماندہ بجلی دوسرے صوبوں کو سپلائی کرنے کا عزم کیا ہے ۔اُمید ہے کہ خیبر پختونخواہ میں تحریک انصاف کی حکومت اپنے رہبر کی ہدایات کو عملی شکل دینگے ۔
Afrasiab Khan
About the Author: Afrasiab Khan Read More Articles by Afrasiab Khan: 24 Articles with 24968 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.