عدلیہ پر جب سخت وقت تھا جب ایک ڈکٹیٹر نے
سپریم کورٹ کو آڑے لیا تو احقر سمیت کئی کالم نویسوں نے عدلیہ کی بالادستی
کے حق میں کئی کالم اپنے خون قلم سے تحر یر کئے۔جناب اعتزاز احسن نے جناب
محترم چیف جسٹس آف پاکستان افتخار چوہدری کے حق اپنا کردار ادا کیا اور پھر
ایک وقت یہ بھی آیا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت آ جانے کے بعد اعتزاز احسن نے
اپنا چال چلن اور کردار تبدیل کر لیا ، پاکستان پیپلز پارٹی اور اپنی سابقہ
حکومت کے حق میں ان کی زیادتیوں اور بے ایمانیوں کوسپورٹ کرنا شروع کر
دیا۔اب جب کہ الیکشن ہو جانے کے بعد جب پنجاب میں (ن) لیگ، سندھ میں پیپلز
پارٹی اور کے پی کے میں پاکستان تحریک انصاف نے بہت بڑی کامیابی حاصل کی ہے
اس پر جناب اعتزاز احسن کا الیکشن کمیشن او ر عدلیہ کے خلاف بولنا سراسر
پوائنٹ سکورنگ نہیں تو اور بھلا اسے کیا کہیں گے؟
اعتزاز احسن کے ساتھ ساتھ عمران خان نے بھی عدلیہ اور چیف جسٹس آف پاکستان
پرالزامات کی بوچھاڑ کر دی۔الیکشن کمیشن او ر عدلیہ کو الیکشن کے ہونے میں
ملی بھگت یا الیکشن میں دھاندلی ہونے کا الزام لگانا عمران خا ن کی طرف سے
سراسر زیادتی ہے۔دھاندلی کا ڈھنڈورا پیٹنے والوں کی طرف سے اس بات کی وضاحت
کرنے کی کوشش کرنا بہت ضروری ہے کہ وہ یہ بتائیں کہ کے پی کے میں دھاندلی
کیوں نہیں ہوئی صرف تحریک انصاف وہاں کیو ں فتح یاب ہوئی،سندھ میں محض
پیپلز پارٹی کا جیتنا پیپلز پارٹی کی نظر میں دھاندلی کیوں نہیں وہاں وہ
کیوں جیت گئے؟ہمارے ناقص خیال میں پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی دونوں ہی اپنی
وفاقی حکومت نہ بن پانے پر سیخ پا ہیں۔
اعتزاز احسن ماشاء اﷲ اتنے بڑے قانون دان ہیں مگر شاید انہیں قانو ن کی عزت
و عظمت کا خیال ہی نہیں،پولیٹکل سائنس میں ہم نے تو یہی پڑھا ہے اور سیکھا
ہے کہ اعتزاز احسن جیسے آدمی کا یوں عدلیہ کے خلاف بولنا دراصل قانون شکنی
ہے اور یہ بھی توہین عدالت ہے دیکھیں اس پر عدالت نوٹس لیتی ہے یا نہیں؟
اعتزازاحسن کو اس بات کا قوی اندازہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے تازہ ترین دور
حکومت میں کتنی بڑی کرپشن ہوئی ہے۔عدالت عالیہ کے پاس کئی کیس ایسے بھی آئے
کہ حکومت یکسر فارغ ہو سکتی تھی لیکن عدالت عالیہ نے پیپلز پارٹی کی حکومت
کو راہ راست پر لانے کی انتہائی کوشش کی اور انہیں گھر جانے سے بچائے رکھا
تاکہ جمہوریت ڈی ریل نہ ہو۔ اس وقت اعتزاز احسن یا ان کے پارٹی کے کرتا
دھرتا کہاں تھے؟ کرپشن تو ہر ادارے میں تیزی سے پھلتی پھولتی جا رہی ہے جسے
موجودہ حکومت یا کسی بھی حکومت کو روکنے کے لئے ضروری اقدامات اٹھانے چاہیں
۔ہماری عدالت عالیہ اگر کرپٹ افراد اور کرپٹ اداروں کے خلاف حق سچ کے فیصلے
دے تو ہم یا اعتزاز احسن بھلا کاہے منظور نہ کریں۔عدالت عالیہ کا کام کرپشن
کو سپورٹ کرنا نہیں۔جہاں تک الیکشن کمیشن کا م ہے تو اس میں ہم مانتے ہیں
کہ کہیں شاید معمولی غفلت ہو گئی ہو لیکن اس میں براہ راست جناب فخرالدین
ابراہیم صاحب اور الیکشن کمیشن ملوث نظر نہیں آتے۔ہمارے ناقص خیال میں تو
موجودہ الیکشن بہت فیئر اور شفاف ہوئے ہیں۔جو بھی جہاں سے بھی ہارے ہیں اس
میں فخرو بھائی کا بھلا کیا قصور؟عوام کو جس نے جو دیا ہے اس کو عوام نے
وہی ریٹرن کیا ہے۔سندھ میں پی پی پی کو نظریاتی ووٹ ملے اور کے پی کے میں
عمران خان کو بھی شاید کچھ ایسا ہی ووٹ ملا۔پنجاب میں ن لیگ اور شہباز شریف
کو ان کی کارکردگی پر ووٹ ملا۔بلوچستان میں ملا جلا رحجان رہا۔اب بتائیں
قارئین کہ اس میں الیکشن کمیشن اور عدالت عالیہ کی بھلاکون سی ملی بھگت ہے؟
آج اگر عدالت عالیہ جناب محترم عمران خان صاحب اور اعتزاز احسن صاحب کو ان
کی گستاخی پر سبق سکھائے تو پھر دیکھتے ہیں کہ کون یوں عدالت عالیہ یا
الیکشن کمیشن کے خلاف خواہ مخواہ زبان درازی کرے؟یہ با ت بھی ٹھیک ہے کہ
میڈیامیں دس سے پندرہ فی صد لوگوں کے سواباقی سارے اپنا کردار انتہائی ذمہ
داری سے اداکر رہے ہیں۔دس سے پندرہ فی صد افراد اپنا کردار منفی ادا کر رہے
ہیں یہ لوگ کچھ ایسا تاثر پھیلاتے ہیں کہ جیسے الیکشن میں دھاندلی ہوئی یا
خدانخواستہ عدالت عالیہ نے کسی کے فریق کا کردار ادا کیا۔
ہم سب کو مل جل کر قومی اور وفاقی حکومت کو مضبوط بنانے کے لئے باہمی
مشاورت کی سخت ضرورت ہے اب نئی حکومت آ جانے کے بعد سب کو دہشت گردی اور
تمام ملکی مسائل کے حل کے لئے سبز ہلالی پرچم کے نیچے جمہوریت کے جھنڈے کو
مزید بلند کیا جائے۔یہ جمہوریت نہیں کہ عمران خان اور فضل الرحمن ایک دوسرے
کی پگڑیاں اچھالیں اور عوام میں اپنا مذاق خود اڑائیں جمہوریت یہ ہے کہ مون
سون کی تباہی کے بعد لوگوں کی دہلیز پر جا کے ان کے دکھوں کا مداوا
کریں۔جمہوریت یہ ہے کہ عدالت عالیہ ہو،حکومت ہو یا الیکشن کمیشن سب کو
مضبوط سے مضبوط تر بنایا جائے۔جمہوریت یہ نہیں کہ تمام اہم قومی اداروں کو
گرانے یا ان کی تحقیر کرنے کی مہم شروع کی جائے۔عمران خان ہو یا اعتزاز
احسن یا کوئی بھی فرد ہو اسے پتہ ہونا چاہیئے کہ قانون سے کوئی بالا تر
نہیں۔جب دل میں کسی ادارے کی عظمت اور عزت نہ رہے تو پھر’’ شرمناک‘‘ کا لفظ
بھی گالی ہی ہوتا ہے۔
٭ تمام قارئین اور اخبارات سے ادارتی صفحہ سے غائب ہونے پر معذرت کیونکہ
احقر کا انٹرنیٹ کنکشن خراب تھا ،انشاء اﷲ اب قلمی رابطہ بحال رہے گا۔ |