بجٹ کا آدھا حصہ کرپشن کی نذر ہوجاتا ہے،
ہمیں اس کے خلاف متحد ہونا پڑے گا۔ کرپشن کی وجہ سے ہم ڈیڑھ ارب ڈالر کیلئے
اغیار کے غلام بن گئے ہیں۔ ہمیں ماضی سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے، اس کے
بغیر ہم اپنی اصلاح نہیں کرسکتے۔ انصاف کے بغیر کسی مہذب معاشرے کا تصور
نہیں کیا جاسکتا، جب تک ملک میں انصاف بکتا رہے گا، ملک اندھیروں سے باہر
نہیں نکل سکے گا۔ نوجوان نسل پاکستان کی امید ہے جس کی فلاح و بہبود وقت کی
اہم ضرروت ہے۔یہ بات 12 جون 2010 کووزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف
نے لاہور میں یوتھ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی ۔
سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے خاندان پر بھی بد عنوانی کے الزامات ہیں۔
دسمبر 2012کو چیئرمین نیب کا کہنا تھا کہ وہ تنہا نہیں جنہوں نے کرپشن کی
نشاندہی کی بلکہ قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی بھی 3 سے ساڑھے تین سو
ارب کرپشن کی نشاندہی کر چکی ہے۔عام لوگوں نے بھی نیب کی جانب سے ملک میں
کرپشن کی صورتحال پر جاری تفصیلات پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ ان لوگوں کا
کہنا ہے کہ سرکاری ادارے کرپشن کی اطلاعات دینے کے بجائے اس پر روک لگانے
کے لیے کوشش کریں۔
عالمی سطح پر کرپشن اور بدعنوانی پر نگاہ رکھنے والے بین الاقوامی ادارے
ٹرانپیرنسی انٹرنیشنل نے اپنی سالانہ رپورٹ2012 میں واضح کیا تھا کہ اس وقت
عالمی اقتصادیات میں کرپشن ایک لازمی جزو بن کر رہ گیا ہے۔ رپورٹ میں
ڈنمارک، فن لینڈ اور نیوزی لینڈ کو دنیا میں سب سے کم بدعنوان ممالک کی
فہرست میں بدستور سب سے اوپر اور افغانستان کے ساتھ ساتھ صومالیہ اور شمالی
کوریا سب سے زیادہ کرپٹ ممالک میں شمار کیے گئے ہیں۔ مغربی صنعتی ممالک
سوئٹزرلینڈ، سویڈن، کینیڈا اور آسٹریلیا ان دس ملکوں میں شامل ہیں جو کم
بدعنوان ہیں۔ جبکہ انتہائی بدعنوان ممالک میں شامل پاکستان اور بنگلہ دیش
سے بھارت کی صورتحال قدرے بہتر ہے۔
سیالکوٹ سے نارووال جانے والی سٹر ک قلعہ احمدآباد(قلعہ سوبھاسنگھ ) کے
مقام پر نالہ ڈیک پرواقع ایک پل جو 1985ء کے قریب تعمیر کیا گیا تھا، کئی
سالوں سے نالہ ڈیک میں برساتی پانی آنے سے ٹریفک کیلئے بند ہو
جاتاہے۔حالانکہ اس پل سے ٹریفک بند ہونے سے ایک لاکھوں سے زائد مزدور بے
روزگار ہونے کے ساتھ ساتھ ہزاروں سرکاری وغیرسرکاری ملازمین بھی اپنی ڈیوٹی
پر نہیں جا سکتے۔ نالہ ڈیک میں اونچے درجے کے سیلاب کی وجہ سے جبو کے ،
نوادے ،نارنگ والی ،سوجووالی،ککاپن،بانگ شریف سمیت 50 سے زائددیہات کے
ہزاروں لوگ پانی کے درمیان کئی روز سے پھنسے ہوئے ہیں جبکہ اب تک ہزاروں
ایکڑ رقبہ پر فصلیں مکمل طور پر تباہ ہوچکی ہیں ۔ لوگ کا کہنا ہے کہ ہر سال
صرف ضلعی انتظامیہ کی طرف سے مساجد میں فلڈ وارننگ کے اعلانات کر دئیے جاتے
ہیں۔ اوربااثر افرادکو لاکھوں روپے کا فائدہ پہچایا جاتاہے، ہرسال کی طرح
درجنوں مکانات تباہ ہوچکے ہیں لیکن متاثرین کو حکومت یا ضلعی انتظامیہ کی
جانب سے تاحال کوئی امداد نہ مل سکی۔
بتایاجاتاہے کہ صوبہ پنجاب کا تاریخی قصبہ جس کا پرانا نام قلعہ سوبھا سنگھ
تھا اب نیا نام قلعہ احمدآباد ہے اب یہ ضلع نارووال کا ایک اہم شہر ہے اور
اس کی آبادی ایک لاکھ کے قریب ہے ۔100سے زائد دیہاتوں کا مرکزبھی ہے۔قلعہ
احمدآباد کے مقام پر واقع پل کا منصوبہ 10سال سے عروج پر ہے اس سلسلہ میں
ضلعی سطح پر50سے زائد سروے رپورٹس تیار کی گئیں اور 300سے زائد اجلاسوں
ہوچکے ہیں،سروے رپورٹس اور اجلاسوں کی مد میں ایک کروڑ روپے سے زائد رقم
خرچ ہوچکی ہے ۔لیکن پل کی صورتحال وہی کی وہی ہے۔حالانکہ ایک کروڑ روپے کی
لاگت سے یہ پل تعمیر ہوسکتا تھا۔شہریوں کا کہناہے کئی بارشکایات بھی درج
کروائی گئیں۔کہ پل سے ٹریفک کی بندش سے ایک دن میں شہریوں کو کروڑوں روپے
کا نقصان ہونے ساتھ ساتھ بہت سی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔کچھ لوگوں
کا کہنا ہے کہ شایداس پل کی میں خرچ ہونے والی رقم بجٹ کا حصہ نہ ہو اس لیے
حکمران صرف یہ بیانات تک ہی رہیں گے ۔اور کسی بڑے سانحہ کے انتظار میں
ہیں۔میاں شہباز شریف دوسری بار پنجاب کے وزیراعلیٰ منتخب ہوئے ہیں۔اس پل کا
فوری نوٹس لینا چاہے۔ماہرین کا خیال ہے کہ مسلم لیگ نون کو بد عنوانی کے
الزامات سے بچانے کیلئے ایسا کام کا فوری نوٹس لینا چاہے تاکہ سرکاری ادارے
میں کرپشن کرنے والوں کا راستہ روکا جاسکے۔اورمسلم لیگ ن کا دامن کرپشن سے
پاک رہے۔ |