گزشتہ روز اخبارات کی شاہ سرخیوں پرجو لہوبکھراوہ پنجابی ،سندھی ،پختون اور بلوچی
نہیں بلکہ پہلے انسانی اور بعد میں پاکستانی تھا۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق
بلوچستان میں قتل ہونے والے 14افراد کا تعلق سکیورٹی اداروں سے تھا ۔دوسری طرف گلگت
بلتستان میں چلاس کے مقام پر نامعلوم دہشتگردوں نے سانحہ دیامر جس میں نانگا پربت
بیس کیمپ پر 10غیر ملکی کوہ پیماؤں کو ہلاک کردیا گیا تھا کی تفتیش کرنے والے کرنل
مصطفی ، کیپٹن اشفاق اور ایس ایس پی بلال کی گاڑی پرفائرنگ کرکے شہید کردیاہے۔ مچھ
میں بسوں سے اُتار کر شناختی کارڈ دیکھنے کے بعد 14مسافروں کو قتل کرنے والوں کا
تعلق کسی مذہب ،فرقے،تنظیم ،صوبے،ملک یا زبان ہوایسے درندہ صفت قاتلوں کو سرعام
پھانسی کی سزائیں دی جائیں۔راقم اپنی اور کونسل کا نائب صدر ہونے کی حیثیت سے
کالمسٹ کونسل آف پاکستان کی طرف سے بلوچستان مچھ میں ہونے والی قتل و غارت گری کی
شدید مذمت اور پنجابی،سندھی،پختون یابلوچی کی حیثیت کی بجائے پاکستانی شہری کی
حیثیت سے حکومت وقت سے مطالبہ کرتاہوں کہ ملک میں ہونے والی قتل وغارت کوفوری طور
روکا جائے ۔نہ صرف مچھ میں ہونے والی قتل و غارت گری بلکہ پورے ملک میں ہونے والی
قتل و غارت کے ذمہ داروں کوسر عام پھانسی کی سزائیں دے کر دہشتگرد عناصر کی حوصلہ
شکنی کی جائے۔مجھے اُمید ہے کہ جناب محترم چیف جسٹس آف پاکستان افتخار چوہدری مچھ
میں ہونی والی قتل گری پر از خود نوٹس ضرور لیں گے لیکن قاتلوں کوسولی چڑہانہ شاید
اُن کے بس کی بھی بات نہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگرملک میں قتل و غارت گری اسی
طرح ہونی ہے تو قومی بجٹ کا70فیصد کھانے والے سکیورٹی اداروں کاکیا فائدہ ہے؟راقم
کے خیال میں سخت ترین سزاؤں پر عمل درآمد کے بعد ہی ملک میں پھیلی دہشتگردی پر
قابوپایا جاسکتاہے ورنہ اب تو جیل میں قید دہشتگردوں کو زیر حراست رکھنا بھی ناممکن
نظرآتاہے ۔ جیسا کہ آپ کو معلوم ہوگاپولیس کی وردیوں میں ملبوس دہشت گرد وں نے
پیر30جولائی کی نصف رات کے وقت خیبرپختون خوا ہ میں واقع ڈیرہ اسماعیل کی جیل کوتوڑ
کراپنے 250کے قریب ساتھی دہشت گرد وں کوقیدسے آزاد کرالیا تھا۔اس سے قبل بھی اسی
طرح کی کارروائی میں دہشت گرد اپریل 2012میں بنوں جیل توڑ کر400کے قریب خطرناک قیدی
رہا کروانے میں کامیاب ہوگئے تھے ۔ڈیرہ اسماعیل خان اور بنوں خیبرپختون خواہ کے اہم
ترین شہر ہیں ،جہاں بظاہر ریاست پاکستان کی عملداری قائم ہے اور کہاجاتا ہے پورے
خیبرپختون خواہ میں ریاستی سکیورٹی بشمول فوج کی چپے چپے پرکڑی نظر ہے ۔پھر بھی ان
علاقوں میں دہشتگردعرصہ دراز سے موجود ہیں ۔بنوں کی طرح ڈیرہ اسماعیل خان کی جیل
توڑ نے والے سینکڑوں دہشتگرد بھی کاروں،موٹرسائیکلوں کے علاوہ پیدل چل کر پنجاب سے
متصل خیبر پختون خواہ کے سرحدی شہر ڈیرہ اسماعیل خان میں واقع جیل تک لاوڈ سپیکروں
پر نعرے لگاتے ،فائرنگ کرتے اور جشن مناتے ہوئے پہنچے اس دوران ریاستی سکیورٹی
ادارے اور ان کے اہلکار جن پر قومی بجٹ کا70فیصد خرچ کیاجاتا ہے کچھ نہ کرسکے۔اگر
یہی بجٹ ملک کے غریب عوام پر خرچ ہوتو ملک میں چاروں طرف خوشحالی آجائے۔اخبار لکھتا
ہے کہ ڈیرہ اسماعیل خان کسی نے مزاحمت نہ کی ،دہشتگرد 243قیدی چھڑاکرلے گئے ۔جیل کا
پہلا دروازہ دہشتگروں نے توڑا جبکہ دوسرے اورتیسرے کواہلکاروں نے خود کھول
دیا،قریبی پولیس لائنز میں موجود 150 جوانوں نے بھی خاموش رہنے کوترجیح دی،جنگجوؤں
نے ساری کارروائی تین سے چارگھنٹوں میں انجام دی۔بجٹ کا 70فیصد سکیورٹی ادارے کھا
جاتے ہیں کی جن کارکردگی زیروہے اور عوام غربت کی چکی میں پس رہے ہیں۔شاہانہ زندگی
بسر کرنے والے حکمران کشکول اُٹھائے پوری دنیا میں عوام کے نام پربھیک مانگتے پھرتے
ہیں۔سود اور سخت شرائط پر قرض لیتے ہیں ، امدادمانگتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم خودار
اور خود مختار قوم ہیں ۔عوام کے خون پسینے کی کمائی کھانے والے سکیورٹی ادارے اُس
وقت کہاں سوجاتے ہیں جب دہشتگرد سرعام ریاستی قوانین کو پاؤں تلے روندتے ہوئے جیلیں
توڑ کر سینکڑوں قیدیوں کورہاکرواکرلے جاتے ہیں؟محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں
پھیلی دہشتگردی اب تک تقریبا8ہزار سکیورٹی اہلکاروں اور 50ہزارکے قریب شہریوں
کونشانہ بناچکی لیکن ہم ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کرپائے کہ یہ جنگ ہماری ہے کہ نہیں ۔مذہبی
وسیاسی جماعتوں اور عوام کی اکثریت کا خیال ہے کہ یہ جنگ مغرب یعنی امریکہ کی ہے
لیکن حکمران اقتدار پر اپنی گرفت مظبوط رکھنے اور اقتدار چھن جانے کے خوف سے چپ
کاروزہ رکھے ہوئے صرف احتجاج پر کام چلارہے ہیں ۔میرے خیال میں ہمیں اب یہ فیصلہ
کرلینا چاہئے کہ یہ جنگ آخر ہے کس کی؟ |