کسی بھی غلام دیس کے گلی محلوں
کے ٹھیلوں، حجام کی دکانوں اور نکرکے تھلوں پرسجی مجالس میں محلے کی فلاح
کے منصوبے زیر بحث نہیں بلکہ روس اور امریکن لیڈر شپ کی ’’ایسی تیسی‘‘ہو
رہی ہوتی ہے یا غاصب قوتوں کا عمومی کردار زیر بحث رہتا ہے ،لیکن ایسا کبھی
دیکھنے سننے میں نہیں آیا کہ غاصب کی منظم و اعلیٰ حکمت عملی کو داد ملی
ہو۔۔۔کسی دیس کو غلام رکھنا آسان نہیں ۔۔۔البتہ ۔۔۔اکثر مقبوضہ ممالک کے
آزادی پسند طبقات کے غیر سنجیدہ روئیے قابض قوتوں کی راہ ہموار کرنے کا
باعث بنتے ہیں ۔یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ’’ توسیع پسند یا آزادی پسند
‘‘جو جتنا فعال و منظم ہو اتنا ہی کامیاب رہتا ہے ۔
تحریک آزادی کشمیر کے سیاسی منظر نامے میں اہم ترین کردارتین’’ ایوان
نمائندگان ‘‘کا رہا ہے اور تحریکی قوتوں نے ہر دور میں جنگ آزادی کی حکمت
عملی ترتیب دیتے وقت اسے نظر انداز کیا اور آج بھی شہداء کی خون سے مطعر
دیس کی پر نم فضاؤں اور مظلوم دیس باسیوں کی دھڑکنوں پرچھائے خوف کے پہروں
کے اصل زمہ دار یہی تین’’ایوان‘‘ ہیں، جو دیس میں عوامی فلاح کے نہیں بلکہ’’
غیر ملکی اڈوں‘‘کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ان میں سرینگر اسمبلی ممبران کی
تعداد 89ہے جب کہ 39دیگر اراکین کو اسمبلی منتخب کرتی ہے ۔گلگت بلتستان کے
ایوان میں 24لوگ منتخب ہو کر آتے ہیں اور6خواتین راکین کو اسمبلی منتخب
کرتی ہے جبکہ 3ٹیکنو کریٹ ۔۔۔اور آزاد کشمیر کے 28ممبران جبکہ 12مہاجرین
مقیم پاکستان اور 8کو اسمبلی منتخب کرتی ہے اور کچھ ٹکنو کریٹ بھی ہیں ۔اس
طرح ریاست بھر میں کل 153حلقہ انتخاب اور منتخب ممبران کی تعداد153ہے۔اور
ان تمام حلقوں سے لامحالہ اتنے ہی ممبران الیکشن میں دوسرے نمبر پر آتے ہیں
۔ان دونوں کا حصب و نصب ،مقاصد و منشور سب ایک ہی ہوتا ہے ۔مختلف حلقہ
انتخاب کا اگر جائزہ لیا جائے تو اکثر امیدوار پچیس سے تیس ہزار ووٹوں سے
کامیاب ہوتے ہیں اور چند ایک بیس ہزار سے کم۔۔۔تو یوں اوسط حاصل کردہ ووٹوں
کی تعداد بیس ہزار بنتی ہے جبکہ دوسرے نمبر پر آنے والے ممبران کے ووٹوں کی
اوسط پندرہ ہزار جب کہ چھوٹے موٹے امیدوار الگ ہیں۔۔۔ اس طرح جیتنے والے
اراکین کے 3060000اور دوسرے نمبر پر رہنے والوں کے ووٹ2295000اورحاصل کردہ
کل ووٹ 5355000بنتے ہیں ۔
ریاست کے 147حلقوں سے یوں تو ہزاروں لوگ اس کھیل کا حصہ بننے کے لئے کوشش
کرتے ہیں لیکن یہ 306ممبران ایسے ہیں جو دن رات آقاؤں کی خوشنودی و زاتی
خواہشات کے حصول کے لئے شدو مد سے کام کر رہے ہیں اور اپنے آقاؤں کے زیادہ
قریب ہوتے ہے ۔یہ سب لوگ غیر ملکی ایماء پر معصوم و سیاسی شعور سے نا آشنا
لوگوں کو کھمبے ،ٹیوٹی ،پائپ ،ہنڈ پمپ ،چھوٹی موٹی سڑکیں اور ملکی اداروں
میں ملازمتوں کا جھانسہ دینے کے علاوہ تھانہ کچہری اور پٹواری کے خوف میں
مبتلا کر کے گمراہ کرتے ہیں ۔۔۔اپنے ساتھ ملاتے ہیں ۔۔۔انہیں ہپناٹائز کر
دیتے ہیں کہ یہ مٹی کے’’ بابے ‘‘اپنی زندگی کے اہم ترین مقاصد سے ہی دور ہو
جاتے ہیں ۔اورایک عام اندازے کے مطابق ان مظلوم و بے کس ’’بابوں ‘‘کی کل
تعداد ساڑھے ترپن لاکھ ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جنہیں مکمل طور پر گمراہ کر
دیا گیاہے جنہیں دوبارہ قومی دھارے میں لانا بہت کٹھن ہے ،یہی نہیں بلکہ
انہی کے ماتحت کام کرنے والے لوکل گورنمنٹ کے نظام جہاں ہزاروں لوکل ممبران
یونین کونسل ،ڈسٹرکٹ کونسل ،پنچائتی نظام،کارپوریشن،اور بلدیہ کے زریعے اس
نیٹورک کو عوام کی نچلی سطح تک پہنچایا و منظم کیا جاتا ہے اور اس طرح یہ
تعداد 306سے بڑھ کر ہزاروں تک پہنچ جاتی ہے اور یہ لوکل نظام بھی لاکھوں
لوگوں کو اپنے بس میں کر لیتا ہے اور خوفناک امر یہ ہے کہ اس سارے نظام و
نیٹورک کی ڈوریں کسی ایک نہیں بلکہ دوممالک سے ہلائی جاتی ہیں اس پر ستم یہ
کہ اس بد قسمت دیس کے بیٹے اسکی بد ترین غلامی کو طوالت دینے کے لئے ہمہ
وقت مصروف عمل ہیں اور اس’’ 306بریگیڈ‘‘نے غیر ملکی آقاؤں کے اشاروں پر دو
کڑوڑ کو زمینی ہی نہیں فکری طور پر بھی تین حصوں میں تقسیم کر کے ان کے
درمیاں آسمان سے اونچی دیواریں کر رکھی ہیں اور اس’’ 306بریگیڈ‘‘کی سازشوں،
53لاکھ کی خود غرضی اور ڈیڑھ کروڑ کی بے حسی نے 5لاکھ شہداء کی قربانی کو
خطرات سے دو چار کر دیا ہے۔جبکہ ’’ 306بریگیڈ‘‘کی پشت پردو ممالک کی 10لاکھ
مسلح افواج ،دو بین الاقوامی شہرت کی حامل انٹلی جنس ایجنسیاں اور لاکھوں
کی تعداد میں لوکل پولیس فورسز کی ایک زبردست طاقت بھی ہمہ وقت موجود رہتی
ہے۔اسلئے صرف غیر ملکی افواج کو اپنی غلامی کا زمہ دار ٹھہرانا قطعی نا
مناسب ہے در حقیقت ریاست کی غلامی کا اصل زمہ دار ’’306بریگیڈ ‘‘ہے اور غیر
ملکی افواج سے زیادہ قابل نفرت ۔
دوسرے جانب ریاست میں ایک آزادی پسند طبقہ ہے جنکی صورتحال کچھ یوں ہے ! آل
پارٹیز حریت کانفرنس جن کے بارے میں عام خیال یہ ہے کہ انکے باقاعدہ وظیفے
مقرر ہیں ۔ان میں اور دوسروں میں صرف یہ فرق ہے کہ وہ علانیہ دیس کے سوداگر
ہیں جب کہ یہ خفیہ۔۔۔نام حریت کانفرنس ۔۔۔منشور الحاق پاکستان ۔۔۔یہ اتحاد
بھی برسوں سے دو گروہوں میں تقسیم ہے لیکن فرائض منصبی ایک جیسے ہی ہیں ۔۔۔اس
کا المیہ یہ ہے کہ اکثر قائدین کی سیاست’’ مہراب و ممبر‘‘کے گرد گھومتی ہے
۔خدانخواستہ اگر انکی مسجد داخلے پر پابندی لگا دی جائے تو سیاست ختم
شد۔۔۔اور باقیوں کے بارے میں ہندوستانی وزارت خارجہ متعدد مرتبہ کہہ چکی ہے
کہ وہ کئی مرتبہ کے مذاکرات کے باوجود آج تک حریت کانفرنس کا موقف ہی سمجھ
نہیں پائے ۔جہاں تک عوامی حمائت کا تعلق ہے تو ریاست کے تین میں سے ایک حصے
کے مخصوص علاقے تک محدود ہیں ۔اس لئے ان میں اتنی سکت نہیں ہے کہ یہ دس
لاکھ فورسز اور ’’306بریگیڈ‘‘ کا سامنا کر سکیں۔
ان کے بعد ریاست کا اہم ترین قوم پرست طبقہ ہے جو روز اول سے اختلاف کا
شکار کئی گروپس میں تقسیم ہے جو ایک دوسرے کے بد ترین ناقد مانے جاتے ہیں
اور زیادہ تر اپنی توانیاں ایک دوسرے کو دشمن کا ایجنٹ اور غدار ثابت کرنے
میں ضائع کرتے ہیں ان میں زیادہ ترگروپس ایسے ہیں جو بہت محدود علاقے میں
پائے جاتے ہیں۔اورگومگوہ کا شکاراس راہ کے مسافراکثر اپنی مرضی و منشاء کے
مطابق نیشنلزم و حصول آزادی کی توجیح پیش کرتے ہیں آزادی پسندوں میں زاتی
تشہیر وخودنمائی کا دلداہ ایک طبقہ ایسا ہے جو منافقت وفسطائیت پسندی کی
حدوں کو چھو رہا ہے عہدوں کا حصول اور پروٹوکول کے مزے لینا اس کا شوق
ہے۔۔۔سٹیج پر آئیں تو اپنی لچھے دار تقریروں سے سب کو حیراں کر دیں اور قدم
نیچے رکھتے ہی وہ سب ان کے لئے شجر ممنوعہ ۔۔۔کردار مفقود۔۔۔ان نام نہاد
تحریکیوں کی جدوجہد صرف عہدوں کے حصول تک جاری رہتی ہے۔۔۔ اور صرف
عہدے۔۔۔تحریکی کام کے لئے ہر گز نہیں ۔۔۔خبروں میں رہنا پسند کرتے ہیں اگر
ان کے ارد گرد کوئی تحریکی سرگرمی دکھائے تو اس کے لئے زمین تنگ کر دیتے
ہیں اور اس طرح اعلیٰ ترین عہدوں پر پہنچ کر تنظیمی نظام ’’جام ‘‘ کر کہ
رکھ دیتے ہیں اور انتہائی شرمناک یہ کہ غلامی کے اصل زمہ دار ’’306بریگیڈ‘‘
کی مراعات کو دیکھ کر’’ منہ میں پانی ‘‘بھر آتا ہے اور غلامی کے ان سرخیل
کے ساتھ تصویریں بنوانے کو اپنے لئے اعزاز سمجھتا ہے۔۔۔اور آج ریاست میں جو
تحریکی تقسیم ہے وہ سب ایسے ہی عناصر کی بدولت ہے بے شک یہ طبقہ’’
306بریگیڈ‘‘سے کم خطرناک نہیں ہے۔جس میں 53لاکھ لوگ ’’306بریگیڈ‘‘کے صحر
میں مبتلا ہیں جو دیس کی کل آبادی کا25%بنتا ہے اور دنیا بھر کے سروے چیخ
چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ ریاست کے 85%عوام’’ آزادمملکت‘‘چاہتے ہیں لیکن
صورتحال واضع ہے کہ پچیس فیصد انتہائی منظم ،فعال،متحدو طاقت کے حامل ہیں
جبکہ مد مقابل تعداد میں تو کئی گنا زیادہ ہیں مگر غیر منظم و
منتشر۔۔۔اسلئے یہ ملک اپنی حقیقی منزل’’ آزادی‘‘کی جانب اس وقت تک آگے نہیں
بڑھ سکتا جب تک یہ فیصلہ نہ کر لے کہ ہماری غلامی کااصل زمہ دار کوں
ہے۔۔۔؟اور پھر اس کے مد مقابل اپنے آپ کو جدید خطوط پر منظم و متحد نہ کر
لے۔۔۔
ریاست کے طول و عرض میں پھیلے انتہائی منظم و مربوط غیر ملکی نیٹورک اور
اسکی اصل صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ تحریک آزادی
کشمیر کو آج تک اس زاویہ نگاہ سے دیکھا ہی نہیں گیا اور صرف غیر ملکی افواج
کو ہی مسئلے کا زمہ دار تسلیم کرتے ہوئے جدوجہد جاری رہی اور اس کے ساتھ
ساتھ تحریکی صفوں میں تقسیم در تقسیم کا عمل بھی بذات خود اسکے زمہ داروں
کی زہنی پستی کا ثبوت دیتا رہا اور تمام گروپ قومی سطح پرعوام کو کوئی
’’وژن ‘‘یا پروگرام نہ دے سکے اور نہ ہی اپنے آپ کو ہی قومی سطح پر منظم کر
سکے بلکہ انکی رسائی سالہا سال سے ایک انتہائی مخصوص علاقے تک محدود ہے ا
لبتہ جموں کشمیر لبریشن فرنٹ نامی آزادی پسند تنظیم تینوں حصوں سمیت دنیا
بھر میں موجود ہے وہ اگر چاہے تو اپنے آپ کو ’’306بریگیڈ‘‘ کے مقابل منظم
کر سکتاہے۔ |