عاصمہ جہانگیر کہتی ہیں کہ یہ پہلی دفعہ ہے
کہ سپریم کورٹ اس قدر میڈ یا فرینڈلی ہے یہ بات بہت صحیح ہے کہ مگر یہ سارے
میڈیا کے بارے میں نہیں کہی جا سکتی ۔ چند لوگ ہیں جو سپریم کورٹ کے لیے
انتہائی نرم گوشہ رکھتے ہیں اور بعض اوقات بہت ساری صورتوں میں جہاں سپریم
کورٹ کا ذکر ہو سچ کو سچ کہنے سے بھی گریزاں ہوتے ہیں۔ وہ بھی اس لیے کہ اس
ملک میں ایک رسم ہے کہ ’’سیاں بھئے کوتوال اب ڈر کاہے کا‘‘۔ اس لیے ہر کوئی
کوتوال کو سیاں بنانے کے چکر میں ہوتا ہے۔ کہ کوتوال سے راہ و رسم ہوں گے
تو انسان ہر ڈر سے بے نیاز ہو جائے گا چاہے کوتوال منہ لگائے یا نہ لگائے۔
عمران خان نے زیادتی کی کہ ایک تو عدلیہ کے حوالے شرمناک کا لفظ استعمال
کیا اور دوسرا یہ کہ اپنی سچائی پر قائم رہ کر ایک پینڈورہ باکس کھول دیا۔
اس ملک کے 95فیصد لوگ، ان کے دل میں چاہے کچھ بھی ہو، عمران خان کو یہی
رائے دیں گے کہ اُسے یہ بات نہیں کہنی چاہیے تھی ۔ جس ملک میں منافقت کا
راج ہو وہاں صحیح بات کہنا جرم ہوتا ہے۔ باعث تعزیر ہوتا ہے۔ سپریم کورٹ کا
احسان ہے کہ اُسے کچھ وقت دے دیا گیا ہے۔ مگر سوچتا ہوں آئندہ کیا ہو گا۔
عمران ایک سیدھا سادہ ، درویش منش سچا اور کھرا شاید پچھلی صدیوں کا آدمی
ہے۔ اپنی ضد پر اڑا رہے گا اور اس کی ضد کا کوئی علاج نہیں۔ آج کا دور
جمہوری دور ہے اور وہی قدریں صحیح اور سچ جانی جاتی ہیں جنہیں جمہور کی
اکثریت صحیح اور سچ قرار دے دے اور جمہور کے جذبات کے احترام میں میری بھی
عمران خان کو یہی رائے ہے کہ وہ آئندہ شرم کی بات نہ کرے۔ یہ جنس گراں اس
خطے سے کب کی رخصت ہو چکی۔، پھر اُسے یاد کرنے کا فائدہ۔
میں چالیس سال سے تدریس کے شعبے سے منسلک ہوں۔ رب العزت کا احسان ہے کہ ٓاج
تک کسی بچے نے بد تمیزی نہیں کی۔ کوئی برے انداز میں پیش نہیں آیا، کوئی
ایسا نہیں کہ جو احترام سے پیش نہ آتا ہو۔ میرے چند ساتھی استاد بعض اوقات
گلہ کرتے ہیں کہ دور بدل گیا ہے۔۔۔ ٹھیک مانتا ہوں۔۔۔ بچے بدتمیز ہو گئے
ہیں۔۔۔ ہاں مگر یہ بحث طلب بات ہے۔ بچوں کے شعور اور سمجھ کو بد تمیزی قرار
نہیں دیا جا سکتا۔ چند ایک ضرور ہوں گے۔۔۔ استاد کا احترام نہیں کرتے۔۔۔
اگر استاد کچھ دے نہ پائے تو۔۔۔ اس پیشے کا تقدس باقی نہیں رہا۔۔۔۔ یہ بات
میرے لیے اتنہائی تکلیف دہ ہوتی ہے۔ اس لیے کہ پیشے کا تقدس اور شخصی تقدس
دو مختلف باتیں ہیں۔ کسی شخص کے ذاتی رویے کی وجہ اگر اس کے احترام میں کچھ
کمی آجاتی ہے یا لوگ اس کے بارے میں باتیں کرتے ہیں اس میں پیشے کو الزام
دینا غلط ہے۔ استاد کا احترام آج بھی اُسی طرح ہے۔ استاد کی تلخ باتوں کو
بھی شاگرد ہنسی خوشی قبول کرتے ہیں اور اُسے باپ کی شفقت قرار دیتے ہیں۔
اگر استاد بچوں کو کچھ دے رہا ہو۔ کچھ سکھا رہا ہو۔ اس کے رویے میں پدرانہ
شفقت اور محبت ہو۔ جہاں استاد کا احترام نہیں وہاں زیادہ ذمہ داری استاد پر
آتی ہے۔ اس کا نامناسب رویہ اور علم سے بے اعتنائی بچے کو بگاڑنے کی دعوت
دیتی ہے۔ جج بھی معاشرے میں ایک شجر سایہ دار کی طرح ہوتے ہیں۔ لوگ اُن کے
سائے میں سکون اور آرام محسوس کرتے ہیں۔ مگر جو شجر سایہ نہ دے سکے لوگ اُس
کی طرف رجوع کیسے کریں گے۔ یہ بات بھی ججوں کو سوچنی چاہیے۔ چھوٹے چھوٹے
مسئلوں پر جذباتی ہونے کی بجائے نظر انداز کر دینے میں ہی ججوں کی بڑائی ہے۔
میری عجیب عادت ہے میں جب کسی نئی کلاس میں پہلے دن داخل ہوتا ہوں تو بچوں
کو بتاتا ہوں کہ زندگی میں دو چیزوں کو یاد رکھو۔ ایک شرم دوسری حیا۔ شرم
کو بالائے طاق رکھو اور حیا کا دامن نہ چھوڑو۔ شرم ایک جھجک ہے۔ اک رکاوٹ
ہے جو تمہیں سچ بولنے اور سچ کہنے سے روکتی ہے۔ اس کی پرواہ نہ کرتے ہوئے
اپنے ضمیر کا اظہار کھل کر کرو۔ البتہ حیا کے ساتھ ہر کام کرو۔ کوئی ایسی
بات نہ کرو اور نہ سوچو جس سے تم اپنے مقام سے یا اپنی اور دوسروں کی نظروں
سے گر جاؤ۔ اسی اصول کو مد نظر رکھتے ہنستے کھیلتے سال بیت جاتے ہیں۔ اس
وقت میرے تقریباً تیس ہزار سے زیادہ شاگرد زندگی کے ہر شعبے میں موجود ہیں
اور ماسوائے چند کے جن کی کچھ مجبوریاں ہوں گی۔ ہر ایک میرے غم او رمیری
خوشی میں پوری طرح شریک ہوتا ہے۔ اس لیے کہ میں نے طاقت کے زور پر لوگوں کو
فتح نہیں کیا بلکہ پیار کی طاقت سے اُن کے دل فتح کیے ہیں۔
عدلیہ ایک بڑی طاقت ہے موجودہ عہد میں لوگوں نے ججوں کو اپنی آنکھوں پر
بٹھا یا ہے۔ لوگوں کے اس احترام کو قائم رکھنا عدلیہ کی ذمہ داری اور اُس
کے وقار کا حصہ ہے۔ اور اس کے لیے ضروری ہے کہ عدلیہ کے لوگ اپنی اپنی حدود
میں پوری دیانتداری سے کام کریں اور خصوصاً اعلیٰ عدلیہ کو یہ بھی دیکھنا
ہے کہ کوئی ایسی چیز یا حرکت نہ ہو جو مستقبل میں عدلیہ کے لیے شرمندگی کا
باعث ہو۔ حال ہی میں مجھے ایک ذاتی تلخ تجربہ ہوا جب احتساب کورٹ میں ایک
کیس میں سرکاری وکیل کے پاس کوئی دلیل نہ تھی۔ وہ فرضی کاغذات دکھا کر وقت
گزارتا رہا۔ بحث کے اختتام پر جب وکیل صفائی جا چکا تو سرکاری بیرسٹر صاحب
نے جج صاحب کو کہا کہ جناب سپریم کورٹ میں رپورٹ دینی ہے۔ ریمانڈ اتنے دنوں
کا دیں۔ مجھے زندگی میں بہت سے ججوں سے پالا پڑا ہے۔ میری دیانتدارانہ رائے
میں وہ جج انتہائی دیانتدار ، اصولی اور متحرک جج ہے۔ مگر کیا سپریم کورٹ
کے نام پر بلیک میلنگ کرنے والوں کے سامنے انصاف کے تقاضے پورے کر سکتا ہے۔
ہرگز نہیں فیصلہ بلیک میلر ز کی مرضی کا ہوا۔ سپریم کورٹ کا نام ایسی
صورتحال میں بلیک میلرز کے خلاف بھی راست قدم اٹھانا ہے نہ کہ اُنہیں تحفظ
دینا۔ تحفظ کا شائبہ بھی، انصاف کا قتل ہے اور یہ قتل بہت عام ہو رہا ہے۔
بات شرم اور شرمناک کی ہو رہی تھی۔ دنیا میں انسان اپنی خلاف ہونے والی
باتوں میں 90فیصد سے زیادہ کا خود ذمہ دار ہوتا ہے۔ طاقت کے بل پر لوگوں کی
زبان بندی نہیں ہو سکتی ۔ طاقت سے آپ کسی کے دماغ کو مجبور کر سکتے ہیں،
ضمیر کو نہیں ۔ مگر جہاں طاقت استعمال ہوتی ہے وہاں لوگ جلوت کی بجائے خلوت
میں بولتے ہیں۔ خلوت کی باتیں کسی طوفان کا پیش خیمہ ہوتی ہیں اور جو لوگ
جلوت میں بات کرتے ہیں اُن کے پاس معقول وجوہات ہوتی ہیں۔ بعض دیوانے رب
کریم پر بھروسے کے سبب ہر ڈر اور رعب سے بے نیاز ہوتے ہیں۔ انسان کس کس کو
روک سکتا ہے۔ فیصل رضا عابدی بہت سی باتیں کرتا ہے کوئی جواز تو ہو گا۔
اُسے نظر انداز کرنے میں بہت سوں کی بھلائی ہے۔ سپریم کورٹ کے وقار اور اس
کی ساکھ کو قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ بہت سے چھوٹی چھوٹی متنازع باتوں
کو نظر انداز کرے ۔ یہ سمجھنا کہ ہم بالکل ٹھیک ہیں ہم میں کوئی خامی نہیں
غلط ہے۔ دنیا میں تین طرح کے علم ہیں۔
الہامی علمRevealed Knowledge: یہ علم ہمارا ایمان ہے کیونکہ یہ خدائی علم
ہے اور پیغمبروں کے ذریعے ہم تک پہنچا ہے۔
تجرباتی علم Experimental Knowledge: عام زبان میں اسے سائنس کہتے ہیں یہ
علم تجربات اور مشاہدات سے حاصل ہوتا ہے۔
عقلی علم Rational Knowledge یہ علم عقل و دانش کا علم ہے۔ ہماری سوچ سے ،
ہماری فہم و فراست سے حاصل ہوتا ہے۔
ماسوائے الہامی علم کے ہر علم میں کچھ نہ کچھ خامی رہتی ہے۔ ترقی تجرباتی
اور عقلی علم میں بہتری کا نام ہے۔ ججوں کے پاس الہامی علم نہیں جو ہر علظی
سے مبرا ہوں۔ اُنہیں بھی اپنی خامیوں پر قابو پانا ہے۔ اسی میں اُن کی بھی
اور وسیع تر معنوں میں اس قوم کی بھلائی ہے۔ منصف کہلانے کے کوئی معنی نہیں
کہ جب تک ملک کے انسانوں کو ان کے لطف و کرم سے فائدہ نہ ہو اور لوگ
اخبارات کی حد سے باہر نکل کر عدالتوں میں اپنے مسائل کا حل نہ پائیں۔
انصاف خبروں میں نہیں زندگیوں میں محسوس ہونا چاہیے۔
سلطنت مغلیہ کا آخری تاجدار ، امیر تیمور کی نسل کا اخری مغل فرمانبروا
سلطان حسین مرزا 842ہجری (1486ء) میں ہرات میں پیدا ہوا۔ اس کی ماں دلشاد
بیگم بھی امیر تیمور کی پڑ پوتی تھی اس طرح وہ نجیب الطرفین خاندانی بادشاہ
تھا وہ ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کے بانی ظہیر الدین بابر کا رشتہ میں چچا
لگتا تھا۔ مذہبی طور پر اہل سنت و والجماعت اور شریعت کا نہایت پابند تھا۔
وہ ایک جری اور بہادر آدمی تھا۔ بارہا خود تلوار لے کر میدان جنگ میں لڑا ۔
انتہائی منصف اور دیانتدار۔ ایک دفعہ اس کے بیٹے نے کسی کو مار دیا۔ تو اس
نے بیٹے کو فوراً گرفتار کر کے ورثا کے حوالے کیا اور قاضی کی عدالت میں
بھیج دیا۔ تاریخ کے یہ واقعات آنے والی نسلوں کے لیے ایک آئینہ ہیں۔ کسی کو
اپنی منصفی پر ناز ہو تو اس آئینے میں دیکھ لے اگر آئینہ صاف شفاف ہو تو وہ
تاریخ میں ایک خوبصورت مقام حاصل کرے گا اور اگر آئینہ بجھا بجھا نظر آئے
تو اسے سوچنا ہو گا کہ تاریخ معاف نہیں کرتی۔ تاریخ تو دور کی بات۔ وقت
معاف نہیں کرتا اور وقت بدلنے میں دیر نہیں ہوتی۔ |