اس سال کا ۱۷ رمضان پھر ایک بار سرزمینِ مصر میں یوم الفرقان بن گیا اور
ساری دنیا نے دیکھ لیا کہ نمازِ عشق تلواروں کے سائے میں کس طرح ادا کی
جاتی ہے۔۳ جون کو صدر محمد مورسی کی گرفتاری کے بعد احتجاج کا ہونا ایک
فطری امر تھا۔فوجی بغاوت کے خلاف پر امن مظاہرین کے خلاف جبر استبداد کی
ابتداء ۵ جولائی کو ہوئی جب ۳۷ اخوانیوں کو شہید کردیا گیا۔ اس وقت تک
چونکہ اسلام دشمن مظاہرین بھی مصر کی سڑکوں پرجشنِ فتح منارہے تھے اس لئے
اس خون خرابے کو مخالف مظاہرین کی جھڑپ کا نام دیا گیا۔فوجی حکمرانوں اور
ان کے سیکولر واشتراکی حوارین کی جانب سے یہ اہل ایمان کو ڈرانے کی اولین
کوشش تھی ۔ اخوان کے کارکنا ن اور رہنماؤں کو خوفزدہ کرنے کی خاطر ان
حملوں کے پسِ پردہ یہ پیغام نشر ہورہا تھا کہ اب تمہاری تعذیب و آزمائش کا
دور پھر ایک بار شروع ہوچکا ہے بقول احمد فراز ؎
میرے غنیم نے مجھ کو پیام بھیجا ہے
کہ حلقہ زن ہیں میرے گرد لشکری اُسکے
فصیل شہر کے ہر برج، ہر مینارے پر
کماں بدست ستادہ ہیں عسکری اُس کے
تو شرط یہ ہے جو جاں کی امان چاہتے ہو
تو اپنے لوح و قلم قتل گاہ میں رکھ دو
وگرنہ اب کہ نشانہ کمان داروں کا
بس ایک تم ہو، تو غیرت کو راہ میں رکھ دو
اخوان کے مظاہرین پرحملوں بنام جھڑپوں کے بعد انتظامیہ کا خیال تھا کہ وہ
حزن و یاس کا شکار ہوکر اپنے اپنے گھروں کولوٹ جائیں گے۔ ایک ہفتہ بعد ماہِ
رمضان کی عبادتوں اور ریاضتوں میں یہ سیدھے سادے دیندار مصروف ہوجائیں
گےاور سارا معاملہ رفع دفع ہو جائیگا لیکن ایسا نہ ہوا۔ سیکولر مظاہرین جو
بغض معاویہ میں خود اپنے پیر پر کلہاڑی مار چکے تھے شاداں و فرحاں گھر لوٹ
گئے مگر اخوانی قاہرہ کے دو مقامات احتجاجی دھرنا لگا کر بیٹھ گئے ۔سیکولرحضرات
کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ حسنی مبارک کے بدعنوان اور ظالمانہ طرز حکومت سے
بیزار تھے اور یہ سمجھتے تھے کے اس کے اقتدار سے بے دخل ہوجانے کی صورت میں
استحصال کا خاتمہ ہوجائیگا نیز اقتدار کی باگ ڈور ان کے ہاتھوں میں
آجائیگی ۔ اقتدار پر قابض ہونے کیلئے ان لوگوں کے سامنے انتخاب کے علاوہ
کوئی اور راستہ نہیں تھا اس لئے کہ بصورتِ دیگر حسنی مبارک کے بعد فوجی
سربراہ طنطاوی اقتدار سنبھال چکے تھے اورحسنی مبارک کا ایک دست راست
وزیراعظم بنا ہوا تھا ۔
غیر اسلامی جماعتیں اس حقیقت سے ناواقف تھیں کہ انتخاب کا مطالبہ کرنے اور
اس کی خاطر بڑے بڑے مظاہرے کرنا اور بات ہے اور الکشن میں کامیابی حاصل
کرنا کارِدیگر است۔انتخاب میں کامیابی حاصل کرنے کیلئےعوام کا اعتمادحاصل
کرنا پڑتا ہے نیز عوام کو اپنے نظریات و خدمات سے مطمئن کئے بغیر یہ ممکن
نہیں ہے۔ الاّ یہ کہ انتخاب دولت ،جذباتیت یا ذات پات کی بنیاد پر لڑے
جائیں ۔ایسا دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہندوستا ن اورامریکہ میں تو ہوتا ہے
لیکن گزشتہ سال مصر میں نہیں ہوسکا۔ مصر کی تاریخ میں پہلی مرتبہ غیر
جانبدار انتخابات کا انعقاد ہوا۔ اس حقیقت کو تمام بین الاقوامی مبصرین نے
تسلیم کیا اور اس بار مصر کی عوام نے ان اسلام پسندوں کو اکثریت سے نوازدیا
جنہیں گزشتہ ۸۰ سالوں سے تعذیب تشدد کا شکار کیا جاتا رہا تھا مگراس کے
باوجودوہ عوام کی خدمت سے یکسر غافل نہیں ہوئے تھے۔
عوام کے فیصلے کو جمہوریت کے علمبردار نام نہاد روشن خیال لوگ کشادہ دلی کے
ساتھ قبول نہ کرسکے اور پسِ پردہ سازشوں کا آغاز ہوگیا۔ عدالت نے انصاف کو
سولی پر چڑھاتے ہوئےایوانِ زیریں کوبرخاست کردیا۔ سیکولر حضرات نے اس جبر و
استبداد کی داد دی اس لئے کہ جس ایوان کو معطل کیا گیا تھا اس میں وہ اقلیت
میں تھے۔اس کے بعد صدارتی انتخاب ہوئے اس میں سیکولرقوتوں نے اسلام پسندوں
کے خلاف حسنی مبارک کے دست راست سابق فوجی محمد شفیق کی حمایت کی اور اس کو
کامیاب کرنے میں بھی ناکام رہے۔ یہ انتخاب دو مراحل میں ہوئے تھے اور دونوں
مرتبہ سب سے زیادہ رائے اسلام پسندوں کے حق میں آئی۔ اس کے بعد دستور سازی
کے عمل میں رکاوٹ پیدا کرنے کیلئے ان لوگوں نے استعفیٰ دے کر کنارہ کشی
اختیار کی لیکن ان کے عدم تعاون کے باوجود جب دستور بن گیا اور اس پر
استصواب رائے ہوا تو پھر ایک بار یہ لوگ اس کے خلاف میدان میں کود پڑے اور
عوام نے ۶۵ کے مقابلے ۳۵ فیصد ووٹ سے انہیں شکستِ فاش سے دوچار کردیا ۔
مصر کے خود سر اورخوشحال نام نہاد روشن خیال طبقہ اپنی یکے بعد دیگرےچوتھی
ناکامی کے بعد جمہوری عمل اورعوام کے اعتماد سے مکمل طور پر مایوس ہوگیا
۔اب اس کے ایک جانب اخوان کی اونچی چوٹی تھی جس کو عبور کرنا ان کیلئے
ناممکن تھا اور دوسری جانب فوجی سپہ سالاروں کی کھائی تھی ۔ ان لوگوں نے حب
علی میں نہیں بلکہ بغض معاویہ میں اس گہری کھائی میں کود کر خودکشی کرنے کا
احمقانہ فیصلہ کیا جس میں سے باہر آنے کیلئے قومِ مصر کو ساٹھ سال کا عرصہ
لگا تھا۔ اسلام کے خلاف اشتراکیوں نے امریکیوں کے ساتھ ساز باز کی اور
خلیجی و امریکی دولت سے ذرائع ابلاغ کو خرید لیا ۔ قبطی عیسائیوں اور مغرب
زدہ مسلم عوام کو ایک نادیدہ خطرے سے دہشت گردہ کرکے ۳۰ جون کو احتجاج کرنے
کے لئے تیار کیا گیا۔ انٹر نیٹ پر اس دولت کی تمام تفصیلات موجود ہیں جو
بیرونِ مصر ممالک سے ایک منتخب شدہ جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کیلئے فراہم
کی گئی۔ عوام کو احتجاج میں شامل کرنے کیلئے بھی دولت بے دریغ استعمال کیا
گیاجس کے شواہد یو ٹیوب پر دیکھے جاسکتے ہیں ۔
عوامی احتجاج کا بہانہ بناکر فوج اقتدار میں آگئی اور اس کے پر مسلم دنیا
اور مغربی دنیاکے بیشتر ممالک نے اظہارِاطمینان کیا ۔ فوج نے عدالت
کےچاپلوس ہمنواؤں اورانتخاب کی بساط پر پٹے ہوئے مہروں کی مدد سے ایک کٹھ
پتلی حکومت قائم کردی اور ذرائع ابلاغ نے یہ بتانا شروع کردیا کہ آزادی و
انصاف پارٹی کو پچاس فیصد سے کم ووٹ حاصل ہوئے گویا پچاس فیصد سے زیادہ لوگ
اس کے مخالف تھے حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ اخوان کے علاوہ بھی سب سے زیادہ
ووٹ حاصل کرنے والی النور پارٹی ان کے حامی تھی۔ اس کے برعکس جن اشتراکیوں
کو وزارتوں سے نوازہ گیا تھا وہ تو بیچارے مجموعی طور پر پانچ فیصد عوام کا
اعتماد بھی حاصل نہ کرسکے تھے اس کے باوجود جمہوریت کی بحالی کے نام پر فوج
کی مدد سے انہوں نےاقتدارپر ناجائز طریقے سے ہاتھ صاف کرلیا۔ شاعری کو نثر
پر اس معاملے میں فوقیت حاصل ہے کہ وہ مختلف ومتضاد حالات پر باآسانی
چسپاں ہو جاتی ہے۔جنرل ضیاء الحق کے فوجی استبداد کےخلاف جونظم احمد فراز
نےکہی تھی ایک مصرعے کی ترمیم کے ساتھ کہ ’’تمام صوفی و سالک، سبھی شیوخ و
امام ‘‘ کی جگہ ’’جو کامریڈ تھے سرمایہ دار کے دشمن ‘‘مصر کی موجودہ
صورتحال پر من و عن صادق آتی ہے؎
جو کامریڈ تھے سرمایہ دار کے دشمن
امید ِلطف پہ ایوان ِکجکلاہ میں ہیں
معززین ِعدالت حلف اٹھانے کو
مثال سائلِ مبرم نشستہ راہ میں ہیں
تم اہلِ حرف کے پندار کے ثنا گر تھے
وہ آسمان ِہنر کے نجوم سامنے ہیں
بس اس قدر تھا کہ دربار سے بلاوا تھا
گداگران ِسخن کے ہجوم سامنے ہیں
قلندرانِ وفا کی اساس تو دیکھو
تمھارے ساتھ ہے کون؟آس پاس تو دیکھو
اخوانیوں کو ڈرانے دھمکانے کی اولین کوشش جب ناکام ہوگئی تومغرورحکمرانوں
کا خون کھول گیا چونکہ وہ رمضان کی آمد سے قبل کسی طرح معاملے کو رفع دفع
کردینا چاہتے تھے اس لئے ۸ جولائی کی صبح نماز فجر کے وقت حکوت کے غنڈوں نے
پولس والوں کی مدد سے پرامن مظاہرین پر شب خون مارا اور ۵۲ اہلِ ایمان کو
شہید کردیا جبکہ وہ نمازِ فجر میں راب کائنات کے آگے دست بستہ تھے ۔ اس کے
بعد طرح طرح کے الزامات کا سلسلہ دراز کیا گیا۔ کسی نے کہا مظاہرین نے پولس
پر فائرنگ کی اور ۸ پولس اہلکار زخمی ہوئے لیکن اس کی کوئی تصدیق نہ ہو سکی
۔ پھر کہا گیا مظاہرین نے عوام پر حملہ کیا لیکن اس وقت عوام اپنے گھروں
میں سو رہی تھی جب مظاہرین کا قتلِ عام ہورہا تھا ۔یہ بھی کہا گیا کہ
مظاہرین صدر مورسی کو رہا کرنے کیلئے پیشقدمی کررہے تھے جب کہ ان کی رہائش
ہنوز پردۂ راز میں ہے ۔اس قتل عام کے بعد بھی بین الاقوامی سطح پر کوئی
پراسرار خاموشی چھائی رہی لیکن یہ مذموم کوشش بھی خدائے واحد پر کامل
بھروسہ اورتوکل کرنے والےمظاہرین کے حوصلے پست کرنے میں ناکام رہی ۔
ماہِ رمضان کا آغاز ہوا ۔ اس ماہِ مبارک نے اخوانیوں کے جذبۂ شہادت میں
غیر معمولی اضافہ کردیا اور احتجاج کا سلسلہ زور شور سےجاری و ساری رہا ۔دن
میں روزہ ۔ شام میں احتجاج اور رات میں قرآن،روح جہاد کی افزونی کا بہترین
انتظام تھا۔ ساری دنیا نے دیکھ رہی تھی کہ ’’دن کے شہسوار اور رات کے راہب
کیسے ہوتے ہیں‘‘ ۔ اخوانیوں کی دلیری دیکھ کر فوجی دہشت گرد ٹولہ خود دہشت
زدہ ہوگیا ۔نہ دھمکیا ں کسی کام آرہی تھیں اور نہ رہنماؤں کی گرفتاری کا
ان پرکوئی اثر ہورہا تھا۔ اخوانیوں کی غیر معمولی صبر و استقامت نے بالآخر
اپنا رنگ جمانے لگی ۔ ایک جانب بین الاقوامی رائے عامہ ان کے حق میں ہموار
ہونے لگی تو دوسری طرف مصر ی عوام کے دل میں دن بدن ان کے تئیں ہمدردی کا
جذبہ پیدا ہونے لگا ۔ اس سال۱۷رمضان یعنی غزوۂ بدر کا دن اتفاق سے جمعہ
تھا ۔ اخوان نے اس موقع پر ملک گیر سطح پر احتجاج کا اہتمام کیا جو نہایت
کامیاب رہا ۔ اخوان المسلمون کی جوانمردی کا نظارہ اگر احمد فرازکے لہجے
میں بیان کیا جائے تووہ کچھ اس طرح ہو ؎
میرا قلم نہیں پرچم کسی ستمگرکا
جو دین حق کے مقابل بلند ہوتا ہے
میرا قلم نہیں کرتا کسی کو لال سلام
وہ ظلم و جبر کے دریا پہ بند ہوتا ہے
میرا قلم نہیں موقع پرست، ابن الوقت
میرادہن نہیں وردی کے تلوے چاٹتا ہے
میرا قلم نہیں حرص و ہوس کا دلدادہ
جو بیج بوتا ہے نفرت کے رشتے کاٹتا ہے
(احمد فراز کی روح سے معذرت کے ساتھ)
ان مظاہروں نےحکمرانوں کی نیند حرام کردی اور ان لوگوں نے خودکشی کا فیصلہ
کرڈالا۔ ۱۸ رمضان کی صبح فجر سے قبل ایک دہشت گرد تنظیم بلیک بلاک کی مدد
سے پرامن مظاہرین پر تہجد کے وقت حملہ بول دیا گیا ۔ اس تنظیم کے یوسف علی
نے حقوق انسانی کی اذیت رسانی پر نظر رکھنے والی تنظیم ’’آئی آن ٹارچر‘‘
کے سامنے اعتراف کیا ان کے لوگوں نے مظاہرین پر گولیاں برسائیں ۔ اس حملے
میں سو سے زیادہ اخوانیوں نے جامِ شہادت نوش کیااوران قیاس آرائیوں کو غلط
ثابت کردیا کہ قتل وخون سے خوفزدہ ہو کر اخوانی راہِ فرار اختیار کرلیں گے۔
نصر شہر کے مناظر نےٹیلی ویژن کے پردے پر اور اخبارات کے صفحات میں ناظرین
کے دلوں کو دہلا دیا لیکن اخوان مظاہرین کے حوصلے پست نہ کرسکےشہادت کے
جیالے آرزو مندوں نے ساری دنیا کو بتلادیا کہ ان کے نعرے ’’شہادت ہماری
آرزو ہے‘‘مطلب کیا ہوتا ہے۔ اخوانیوں کی اس صفتِ عالیہ کا اظہار ان کے
اقتدار سے محرومی کا متقاضی تھا اور ان لوگوں زبانِ حال سے یہ ثابت کردیا
کہ ؎
شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن
نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی
مجاہدین اسلام آزمائش کی ان نازک ترین گھڑیوں میں حم السجدۃ کی آیت کی
زندہ تفسیر بن گئے جن میں رب کائنات اپنے مقرب بندوں کے بارے میں ارشاد
فرماتا ہے’’ جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر وہ اس پر ثابت
قدم رہے، یقیناً اُن پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ ‘‘نہ
ڈرو، نہ غم کرو، اور خوش ہو جاؤ اُس جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا
گیا ہے۔ہم اِس دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے ساتھی ہیں اور آخرت میں بھی،
وہاں جو کچھ تم چاہو گے تمہیں ملے گا اور ہر چیز جس کی تم تمنا کرو گے وہ
تمہاری ہو گی۔یہ ہے سامان ضیافت اُس ہستی کی طرف سے جو غفور اور رحیم ہے‘‘
یقیناً کامیاب ہوگئے وہ لوگ جنہوں نے جانِ عزیز کا نذرانہ پیش کرکے اپنے رب
کو راضی کرلیا اور جنت کے حقدار بن گئے لیکن ان کی اس قربانی کے ساتھ ہی
رحمت خداوندی جوش میں آگئی اور ہوا کا رخ بدلنے لگا ۔
(جاری)
|