تم سے نہیں ،اپنوں سے ڈر لگتا ہے ․․․

پاکستان میں دہشت گردی کی مثال ایک ایسے بھڑئیے کی ہے جیسے خونخوار بنانے والوں نے اپنے سائے تلے اپنوں کا خون فراہم کیا۔بھڑئیے کے منہ پہ لگے خون کے داغ خود ہمیں اپنی آستین میں لگے نظر آجائیں گے۔ہم نے خود بھڑئیے کو سر اٹھانے کا موقع دیا اگر بھڑئیےکا سر اٹھانے سے پہلے کاٹ دیا جاتا تو آج وہ ہماری بکریوں کا پیٹ چاک نہ کرتا۔جو عوام اپنی مملکت میں اپنوں کے ہاتھوں محفوظ نہ ہو ،وہ قوم اپنی سرحدوں کی حفاظت بھی نہیں کرسکتی۔عوام کو اس قدر کمزور کردیا گیا ہے کہ وہ اپنی کلائیموڑنے والے کی گرفت سے آزادی کی قوت بھی نہیں رکھ پا رہی۔وہ مملکت تباہ و برباد ہواجایا کرتی ہیں جس میں شر پھیلانے والے اپناشر پھیلانے میں اس مصروف ہوتے ہیں کہ انھیں اس بات کی پرواہ بھی نہیں ہوتی کہ بچھو بھی ڈنک مارنے کے بعد اپنے بل میں واپس آجاتا ہے۔دہشت گردی ملک کا پہلا مسئلہ بن چکی ہے یا صنعتی ترقی کیلئے توانائی کی ضرورت ، اب عوام کے سامنے جان و مال کا غم ہے تو دوسری جانب خود پر اپنے ہاتھوں مسلط کئے جانے والوں حکمرانوں کی وجہ سے رزق کی تنگی کا عذاب کے ہاتھوں ، اطمینان کی نیند بھی میسر نہیں۔پاکستان کی داخلہ پالیسی سازوں نے اپنے حکمت عملیوں سے دوست کم اور دشمن زیادہ بنا لئے ہیں۔اور یہ بات یقینی ہے کہ وہ دشمن تازہ دم اور دوست زخمی ہوگا جس کے دشمن دوستوں سے زیادہ ہونگے ۔ بقول شیخ سعدی ۔حذرا کن زپیکار کمتر کسے ، کہ از قطرہ سیلاب ویدم بسے( "کم درجہ کے آدمی سے لڑنے سے بچ اس لئے کہ بسا اوقات میں نے قطرہ سے سیلاب بنتا دیکھا ہے۔")۔تاریخ پاکستان میں یہ بات دیکھنے کو نمایاں ملے گی کہ ہم نے اپنے دوستوں کے انتخاب میں ہمیشہ قوم کو دھوکا دیا کیونکہ ہمیں خارجہ پالیسیوں میں اپنے ذاتی مفادات کی وجہ سے دھوکہ ہی ملا۔ زمینی حقائق کے برخلاف پاکستان کی پالیسی سازوں کی کوتاہ بینی نے اپنے جسم سے جڑے حصوں کو ہی اپنا دشمن بنا دیا۔آج خیبر پختونخوا ، بلوچستان اور سندھ کسی اور کی آگ میں نہیں بلکہ اپنے ہاتھوں اُس آگ میں جھلس رہے ہیں جیسے ہم نے وقتی مفاد کے خاطر ٹھنڈ میں پڑنے والی سردی سے بچانے والی آگ سے ہاتھ سانچے جیسا سمجھا تھا ، آج اُسی آگ کی چنگاریاں ہرے بھرے جنگل میں اڑ جا گری ہیں جس وجہ سے پوری مملکت میں صوبائیت ، فرقہ واریت ، لسانیت کی آگ کے لپیٹے آسمان کو چھو رہے ہیں۔کوئی تدبیر کارگر نہیں ہو رہی کیونکہ ہم نے مرض سمجھنے کے بجائے ،بغیر تشخص دوائیوں کے تحت وقتی افاقے کی روش جو اپنا لی ہے۔رمضان کا مہینہ امان کا ماہ احترام ہے ۔ جس کی پابندی ہر مکتبہ فکر و مذہب کی جانب سے ہمیشہ کی جاتی رہی ہے ۔ امت مسلمہ کا کوئی دور اتنا پر آشوب نہیں گذرا ، جتنا موجودہ وقت گذر رہا ہے۔ امت مسلمہ نے بڑے کڑے اور سخت وقت دیکھے ہیں لیکن آج جس قدر مسلم امہ کو مطعون قرار دیکر دنیا کے کونے کونے میں عالمی استعمار کے ہاتھوں زخمی کیا جارہا ہے ایسا کبھی دیکھنے کو نہیں ملا تھا کہ ایک مسلم مملکت تکلیف میں ہو اور دوسری مسلم قوت خاموشی سے بیٹھ جائے کہ دار رسی کی طاقت رکھنے کے باوجود بھی ، خود کو مفلوج سمجھتی ہو۔مصر،ترکی،لیبا،شام،یمن،عراق،افغانستان اور پاکستان عالمی استعماری قوتوں کے ہاتھوں بے بسی کی تصویر نظر آتے ہیں۔مسلم ممالک کی پہلی ایٹمی قوت رکھنے والے پاکستان کو اس قدر کمزور کردیا گیا ہے کہ اب اس کے سامنے سمندر میں تیرنے کیلئے یہی راستہ بچا ہے کہ وہ اپنی پیٹھ پر لادے بوجھ کو سمندر میں پھینک کر اپنے آپ کو بچائے یا پیٹھ پر رکھے بوجھ کے ساتھ خود بھی تھک ہار کر بُرد ہوجائے ۔پاکستان کے ناتوان جسم پر بڑا بوجھ اس وقت ہی رکھ دیا گیا تھا جب پاکستان میں مسلم ممالک کی سربراہ کانفرنس ہوئی اور پاکستان ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کے قابل ہوگیا۔پاکستان کی کمر پر ایک بوجھ افغان جنگ میں عالمی طاقتوں کے درمیان پنجہ آزمائی میں رکھ دیا تھا کہ خود پاکستان نے خیال نہ رکھا کہ اس کا حتمی نتیجہ کیا ہوسکتا ہے۔پاکستان کی پیٹھ پر بوجھ اس کے حکمرانوں نے رکھا جب نائن الیون کا ملبہ افغانستان پر گرا اور نہ چاہتے ہوئے بھی پاکستان نے اس گراں بوجھ کو اپنے کندھوں پر اٹھانے کی بے وقوفی کر ڈالی۔آج پھر پاکستان ایسے بوجھ کو اپنی کمر پر لادے گہرے سمندر میں اکیلا تیراکی کر رہا ، جس میں اسے ساحل دیکھائی نہیں دے رہا اور اس کے بازو اب بوجھ اٹھائے اٹھائے شل ہوتے نظر آرہے ہیں۔بے مقصود کی جنگ میں دنیا کو فتح کرنے کا خواب دیکھنے والوں کی تعبیر سے فائدہ اٹھانے کی سوچ نے پاکستان میں ایسے بھیڑؤں کو جنم دے دیا کہ اب ان کے سامنے منزل بھی کچھ اور اور رہنماء بھی کچھ اور ہیں۔بے گناہ انسانوں کا قتل، معصوم محنت کشوں کو بسوں سے اتار کر چن چن کر شہید کرنا ، کسی بھی جنگ میں روا نہیں ہیں۔ کیا کہا جائے کہ کسی مسلم کو اس کی مسجد میں عین عبادت کے دوران ، کوئی خود کو مسلمان کہلانے والا ہی نقصان پہنچائے ، ایک مسلمان کس طرح گوارا کرسکتا ہے کہ محنت کش جو رزق حلال کے لئے اپنے گھر ، بال بچوں سے سینکڑوں کلو میٹر دور آتا ہو اور ایسے صوبائیت کے نام پر مار ڈالا جاتا ہو، اسلام کی ایسی تعلیمات بھلا کس مسلم نے پائی ہوگی؟۔ کیا خود کش دہماکوں کا سیاسی مخالفت سے بھی اسلام کا رشتہ ہے کہ کسی سیاسی جماعت کے نام لیواؤں کو مارا جاتا ہو۔؟۔کیا فرق ہے فدائین اور خود کش میں ،کہ سمجھ نہ آتا ہو کہ اب کونسا ایسا اصول بچا ہے کہ گناہ گار اور بے گناہ میں تخصیص بھی نہ کی جاتی ہو۔کیوں ہم صرف یہ سوچتے ہیں کہ ایسا سب کچھ کوئی اسلام کا نام لیوا کررہا ہے ؟۔ کیا اسلام اور پاکستان کو خاک میں ملانے والوں نے ماضی میں کی جانے والی سازشیں چھوڑ دیں ہیں کہ ہم اپنے ملک میں اپنے ہی لوگوں کو اب ان کا آلہ کار بننے سے نہیں روک پا رہے۔ ماضی میں سازشیں کرنے والے اپنی کامیاب ہوتی سازشوں کے بعد مزید جنونیت کے ساتھ آج بھی مصروف عمل ہیں ، ان کے ایجنٹ ، خونخوار بھیڑئیے کے روپ میں ہماری کمزور ہوتی معیشت کا خون پینے میں مشغول ہیں۔کمزور عوام کا پیٹ چاک کر کرکے حکمران صرف اپنے پیٹ کو پالنے کی فکر میں مبتلا ہیں۔چہرے بدلنے سے نظام نہیں بدلتا ، نظام جب ابلیست کا ہو تو شر رکنے کی توقع کرنا عبث ہے۔عوام کی سوچ اس نہج پر جا پہنچی ہے کہ جب ان کی مملکت ان کی حفاظت کرنے میں ناکام ہوچکی ہے تو خدانخواستہ اگر ملکی سرحدوں پر دشمن کی یلغار ہوئی تو کیا ان میں اتنی قوت ہوگی کہ جنگ کے اس عمل کو سختی سے ناکام بنانے میں کامیاب ہوجائیں ؟۔ایک مملکت ایک قوم ، ایک ملت کے تصور کے بغیر سرحدوں کی حفاظت نہیں کی جاسکتی۔جب کہ ملک کے اندر عرصہ سے گوریلا جنگ لڑی جا رہی ہو اور اس جنگ میں عوام خاموشی کے ساتھ اپنا کردار ادا کرنے کے بجائے آسمان کی طرف دیکھنے میں مگن ہوں کہ انھیں بچانے کیلئے کوئی اور مخلوق آئے گی۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 744211 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.