دن آجاتا ہے آزادی کا پرآزادی نہیں آتی

آج سے پینسٹھ سال قبل پاکستان کے وجود کا تصور تھا نہ اس کی کوئی حقیقت تھی،مسلم امہ کے ماتھے پر ساتویں ایٹمی طاقت کا تمغہ افتخارسجانے والا کوئی اسلامی جمہوریہ ملک تھا نہ خالص اسلامی نظریہ کی بنیاد پرآزادی حاصل کرنے والی کوئی اسلامی مملکت تھی ۔سوا چھ ارب سے زائد مسلمانوں اور ستاون کے قریب اسلامی ممالک میں سے کسی کے پاس سات لاکھ سے زائد دنیا کی بہترین بہادر فوج تھی ،نہ کسی کے پاس بہترین محل وقو ع ،بیش بہاآبی ذخائر،قیمتی معدنیات ،تیل ،گیس ،نمک کے پہاڑ وں کا دراز سلسلہ ،کوئلے کی بھری کانیں ،بلوچستان کے پہاڑوں میں جذب سونے کے ذرات،گوادر اور پورٹ قاسم جیسی بہترین بندرگاہیں،کوہ ہمالیہ اور کے ٹوجیسی بلند وبالاطویل پہاڑیاں،سوات ،کالام ،کاغان ،ناران ،بالاکوٹ اورآزاد کشمیر جیسی خوبصورت وادیاں تھیں، نہ کسی کے پاس بہترین اذہان ،افکار کی حامل قوم تھی،پختونوں کی طرح مضبوط ،جنگجو،غیرت ،حمیت اورپختہ عقائد رکھنے والے افراد تھے نہ ملک وملت کے لیے اپنی زندگیاں قربان کرنے والے اسلاف تھے ،مولانا سلیم اﷲ خان ،مولانا عبدالمجید لدھیانوی ،مفتی تقی عثمانی ،مولانا محمد اسلم شیخوپوری شہیدؒ،مفتی ابو لبابہ شاہ منصور ،ڈاکٹر اے کیوخان،ثمرمبارک مندجیسی دنیاکی عظیم ہستیاں تھیں،نہ مفتی عدنان کاکا خیل ،ارفع کریم جیسے ٹیلنٹڈ طلباء وطالبات تھیں۔الغرض دنیا وی اسباب ہوں یا اخروی انعامات ،ذاتی کردار ہو یا محنت ،لگن اور شوق کے ذریعہ انجام دیئے جانے والے عمدہ کارنامے ہوں اسلامی دنیا میں ان سب چیزوں سے مالا مال کوئی ملک بھی نہ تھا۔

چودہ اگست 1947ء کولاکھوں جانوں کا نذرانہ دے کر ،ساڑھے سات سوسالہ اسلامی دورحکومت کی یادگارحکمرانی کی بحالی کے لیے ،فرنگی ظالموں کے مظالم سے چھٹکاراحاصل کرنے کے لیے ، ہندو بنیاؤں کی گھٹیاسوچ اوران کے زہریلے ڈنگ سے محفوظ رہنے کے لیے اور دین اسلام پر آزادی کے ساتھ بغیرکسی روک ٹوک کے عمل پیر ا ہونے کے لیے اور ریاست مدینہ اورخلافت راشدہ جیسی اسلامی فلاحی مملکت قائم کرنے کے لیے ’’لاالہ الااﷲ ‘‘کا نعرہ لگاکر پاکستان کے نام سے ایک الگ اسلامی ملک حاصل کیا گیا۔اس قدر عظیم مقاصد کی حامل مملکت کے لیے لاکھوں مسلمانوں نے اپنی اولاد ،مال ،جان ، جائیدادا اور ہرطرح کی راحت وسکون کو قربان کیا تاکہ وہ اور ان کی نسلیں اسلامی تشخص کو برقرار رکھ سکیں اور اس ملک کے پرچم تلے شعائر اسلام اور ارکان اسلام پرعمل کرسکیں۔لیکن افسوس کہ ان کی قربانیاں رائیگاں گئیں،ان کی خواہشات محض خواب ثابت ہوئیں۔پینسٹھ سال کا طویل عرصہ گزرگیا ،لیکن ابھی تک اس ملک میں خلافت راشدہ کی ابتدائی خدوخال تک نافذ نہیں ہوئی چہ جائیکہ پوری اسٹیٹ میں خلافت راشدہ کانظام نافذہوتا۔فرنگی مظالم سے اور ہندؤں کی غلامی سے نجات تو مل گئی لیکن اپنوں کی منافقت اور عیار ی کی وجہ سے اب تک اس ملک کے باسی مظالم کی چکی میں پِس رہے ہیں۔کبھی ڈرون حملوں کی شکل میں تو کبھی بم دھماکوں کی آڑ میں ،کبھی ٹارگٹ کلنگ کے ذریعہ تو کبھی مہنگائی ،بیروزگاری کے پہاڑتلے ان کی زندگیاں گل ہورہی ہیں۔

آزادی کے پینسٹھ سال مکمل ہوگئے لیکن ابھی تک یہ ملک بھارت اورامریکہ کی غلامی کی دلدل میں دھنساہوا نظرآتاہے ۔آزادی کا مقصد صرف الگ ملک حاصل کرکے اس میں جمہوریت کے نام پر عوام کو بیوقوف بنانا ہوتاہے ،نہ مذاکرات اور امداد کے نام پر قوم کے مفادات کا سودا کرنا ہوتاہے بلکہ آزادی کا مقصدریاست کے ہرہرمعاملہ میں مکمل طور پرآزاد ہوناہوتاہے ۔چاہے اس معاملہ کا تعلق سفارتی تعلقات سے وابستہ ہو یا وہ معاملہ عوام سے متعلقہ ہو۔معذرت کے ساتھ پاکستان کوابھی تک اس قسم کی آزادی حاصل ہوئی نہ اس کی ہوا لگی ہے ۔یقین نہ آئے توملک کے گزشتہ پینسٹھ سالوں کامطالعہ کرکے دیکھ لیں۔آپ کو بخوبی اندازہ ہوجائے گاکہ ہمارے معاملات میں امریکہ اور اس کے پروردہ ممالک نے کس طرح دخل اندازی کی اور کیسے ہماری آزادی کے حق کو پامال کیا۔پینسٹھ سالوں میں پاکستان کو کئی بار حادثات ِشدیدہ لاحق ہوئے ،جن میں بھارت کے ساتھ دو جنگیں ،سقوط ڈھاکہ ،کارگل جنگ ،مسئلہ کشمیرپر بھارت کی ہٹ دھرمی ،قبائلی علاقوں میں امریکی مفادات کے تحفط کے لیے لڑی جانے والی جنگ،بظاہر افغانوں کو ملیامیٹ کرنے کے لیے طاغوت کا سجایاجانے والا میدان ِکارزار(جس کے ذریعہ حقیقتاً پاکستان کے استحکام کو نقصان پہنچایاجارہاہے) شامل ہیں۔اگران حادثات کے احوال کامطالعہ کرلیاجائے توساری حقیقت کھل کر سامنے آجائی گی کہ پاکستان نے اتنے اہم مواقع پر اپناحق آزادی استعمال کیا یا امریکہ بہادر کی پشت پناہی کے ذریعہ معاملات کو سنبھالادیا۔ دراصل ہم ابھی تک محکموم ہیں ۔حاکمیت کرنے والا ہم پر کوئی اور ہے ۔ہماری گردنوں میں ابھی تک غلامی کی زنجیریں لپٹی ہوئی ہیں۔کیوں کہ نصف صدی سے زائد انگریزوں کے خلاف آزادی کے لیے جنگ لڑنے والے اسلاف کی قربانیوں کا ابھی تک ہم پر کوئی اثر ہوا نہ ہم نے ان کے خون کی قدروقیمت کو پہچانا۔ہمارا حال تو یہ ہے کہ ہم ابھی تک چودہ اگست 1947ء کوپاکستان کے نام سے حاصل ہونے والی اسلامی مملکت کی قدر بھی صحیح معنوں میں نہیں کرسکے۔یہی وجہ ہے کہ آج ہم باوجود ایٹمی طاقت ہونے کے ،باوجود قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے امریکہ سے بھیک مانگتے ہیں،بھارت کی دھمکیوں اور ہٹ دھرمیوں اور سازشوں کے بعد بھی ہم خود مذاکرات کاکشکول اٹھائے ان کے در کی خاک چاٹتے ہیں۔ایک طرف ہم داخلی مسائل کے گرداب میں بری طرح پھنسے ہوئے ہیں دوسری طرف اغیار کی طرف سے خارجی مسائل کے پہاڑ بنی اسرائیل کی طرح ہمارے سروں پر لاکر کھڑے کردیے گئے ہیں کہ دشمنوں کی ہاں میں ہاں ملاؤ ورنہ پتھروں سے سرکچل دیے جائیں گے۔ دیکھا جائے تو پینسٹھ سالوں میں ابھی تک ہم نے گنوایا ہی ہے کچھ حاصل نہیں کیا اگر کیا بھی تو اس کی حقیقت صرف کاغذجیسی ہے بس۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم ابھی تک پاکستان کی آزادی کے ساتھ انصاف نہیں کرسکے ۔آزادی کی قدر سیکھنی ہو تو چین سے سیکھی جائے کہ کس طرح انہوں نے اس نعمت عظمیٰ کے حصول کی قدردانی کی،کیسے انہوں نے اپنے ملک کو دنیاکے صف اول کے ممالک کی فہرست میں لاکر کھڑاکیا۔آج چین دنیا کی ابھرتی ہوئی بڑی طاقت ہے ۔اس کی وجہ وسائل کی ریل پیل نہیں ہے بلکہ چین کی ترقی کی وجہ آزادی کی نعمت کی قدردانی اور اپنے ملک سے وفاداری ہے ۔چینی اپنے ملک کے مفادات کے لیے کسی قیمت پر راضی نہیں ہوتے ،جان دے سکتے ہیں مگر پیچھے نہیں ہٹتے ۔وہ اپنی ثقافت ،کلچر پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کرتے ۔وہ اپنے دشمن سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتے ہیں۔جب کہ ہمارا معاملہ اس کے برعکس ہے ۔ہم تو اپنے دشمن کے تہواروں کو منانا نہیں بھولتے ،امن کی آشا کی خاطراپنی ثقافت کا خون کردیتے ہیں تو پھر کیسے ہم دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کربات کرسکتے ہیں۔

آزادی کے پینسٹھ سالوں میں اگرچہ ہم نے اپنابہت کچھ گنوایا ہے لیکن ملک پاک کی باگ ڈورہمارے ہاتھوں میں ہے اوروقت کی نبض پر بھی ہماری گرفت ہے ۔ہم غلطیوں سے سبق سیکھ سکتے ہیں ،ان کا ازالہ کرنا ہمارے بس میں ہے ،اپنے دامن پر لگے داغ دھونا ہماری استطاعت میں ہے ،اپنے ملک کی آزادی کا تحفظ کرنا ہمارے ہاتھ میں ہے ۔اپنے اسلاف کی عظیم قربانیوں کی لاج رکھنے اور ان کی ارواح کو راحت پہچانے کے لیے ہمیں اس بار یوم آزادی پر نیا عزم اور نیا عہد کرنا ہوگا۔پاکستان کے ہرشہری کو اپنے ملک کے مفادات کے بارے میں سوچناہوگا اور ملک کو اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھنا ہوگا۔اسی طرح حکمرانوں کو بھی پاکستان کے مفادات کے لیے کسی بھی شخص اور کسی بھی ملک سے نمٹنے کے لیے ذرہ برابر ہچکچاہٹ کا مظاہر ہ کرنا ہوگااور نہ ان کے سامنے گھٹنے ٹیکنے ہوں گے بلکہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنا ہوگی، خواہ سامنے والا امریکہ ہو یا بھارت ،چین ہو یا سعودی عرب۔اگرہمارے حکمران صرف اور صرف پاکستان کے مفادا ت کی جنگ لڑنے لگ جائیں تو تمام مسائل حل ہوجائیں ،ملک میں خوشحالی آجائے ،اقوام عالم پاکستان کے ساتھ بیٹھ کر بات کرنے پر مجبور ہوجائے ،بھارت ازخود مذاکرات کے لیے پاکستان کے سامنے چادر پھیلانے پرمجبور ہوجائے ۔اس لیے اس یوم آزادی پر ہمارے حکمرانوں کو پاکستان کے مفادات کی جنگ لڑنے کا اعلان کرناچاہیے اور عوام کو حکمرانوں کی معاونت کا اعلان کرناچاہیے ۔اسی میں ہماری بقاء ہے اور اسی میں ہمارے ملک کی سلامتی کی ضمان ہے ورنہ اس بار بھی یوم آزادی پردل ناتواں یہ مژدہ سنائے گاکہ

لپٹی ہیں ابھی تک غلامی کی زنجیریں میری گردن میں
دن آجاتاہے آزادی کا پرآزادی نہیں آتی
Ghulam Nabi Madni
About the Author: Ghulam Nabi Madni Read More Articles by Ghulam Nabi Madni: 45 Articles with 38251 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.