عشق ووفا کا عجیب منظر (جان دو عالم)

 عشق ووفا کا عجیب منظر : رسول اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلمنے ایک بار چھ یا دس آدمیوں کی جماعت اہل مکہ کی خبر لانے کیلئے بھیجی۔راستہ میں بنولحیان کے دو سو آدمیوں سے مقابلہ ہوا جس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ کافروں نے اُحد میں اپنے مقتول کافر عزیز وں کے جوش انتقام میں ان حضرات کو فریب سے اپنے یہاں بلایا۔ سلافہ نامی ایک عورت جس کے دو لڑکے احد میں مارے گئے تھے اس نے منت مانی تھی کہ اگر میرے بیٹوں کے قاتل عاصم کا سر ہاتھ میں آجائے تو اس کی کھوپڑی میں شراب پیوں گی۔ اس نے اعلان کردیا کہ جو عاصم کا سرلائے اسے سو اونٹ انعام دوں گی۔

سفیان بن خالد نے سوا ونٹوں کی طمع میں قبیلہ عضل وقارہ کے چند آدمیوں کو مدینہ منورہ بھیجا ۔ انھوں نے وہاں اپنے کو مسلمان ظاہر کیا اور سرکار صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم سے کہہ کر چند حضرات کی جماعت اپنے یہاں تبلیغ دین کی غرض بتاکر ساتھ لائے جن میں حضرت عاصم حضرت خبیب ، حضرت زیدبن الدَّثِنّہ ، حضرت عبداﷲ بن طار ق رضی اﷲ تعالیٰ عنہم بھی تھے۔ راستہ میں لیجاکر بدعہدی کی اور دوسو آدمیوں کو مقابلہ کیلئے بلالیا جن میں سو آدمی مشہور تیر انداز تھے ۔

دس یا چھ بزرگوں رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کی یہ مختصرجماعت دشمنوں کی بدنیتی دیکھ کر فدفدنامی ایک پہاڑی پر چڑھ گئی۔ کفار نے کہاں ہم تمھیں قتل نہیں کرنا چاہتے ۔ صرف اہل مکہ سے تمہارے بدلے کچھ مال لینا چاہتے ہیں تم ہمارے ساتھ آجاؤ مگر انھوں نے کہا ہم کافروں کے عہد میں آنا نہیں چاہتے اور ترکش سے تیر نکال کر مقابلہ کیا جب تیر ختم ہوگئے تو نیزوں سے مقابلہ کیا۔ حضرت عاصم رضی اﷲ تعالیٰ عنہنے ساتھیوں سے جوش میں کہا: تم سے دھوکا کیا گیا مگر گھبرانے کی بات نہیں شہادت کو غنیمت سمجھو تمھارامحبوب تمھارے ساتھ ہے اور جنت کی حوریں تمھاری منتظر ہیں یہ کہہ کر جوش سے مقابلہ کیا اور جب نیزہ بھی ٹوٹ گیا تو تلوار سے مقابلہ کیا۔ دشمنوں کا مجمع کثیر تھا آخر شہید ہوگئے اور دعا کی، یا اﷲ عزوجل! اپنے رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کو ہمارے حال سے آگا ہ فرمادینا۔

سرکار صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلمکو اسی وقت اس واقعے کا علم ہوگیا۔ حضرت عاصم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ یہ بھی سن چکے تھے کہ سلافہ نے میرے سر کی کھوپڑی میں شراب پینے کی منت مانی ہے اسلئے مرتے وقت دعا کی، یا اﷲ عزوجل! میرا سر تیرے راستے میں کاٹا جارہا ہے تو ہی اس کا محافظ ہے۔ چنانچہ شہادت کے بعد جب کافروں نے سر کاٹنے کا ارادہ کیا تو اﷲ تعالیٰ نے شہد کی مکھیوں کا اور بعض روایتوں میں ہے کہ بھڑوں کا ایک غول بھیج دیا۔ جنھوں نے ان کے بدن کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔ کافروں کا خیال تھا کہ رات کے وقت جب یہ اڑجائیں گی تو سرکاٹ لیں گے مگر رات کو بارش کی ایک رو آئی اور ان کی نعش کو بہا کر لے گئی اس طرح سات آدمی یا تین آدمی شہید ہوگئے ۔ غرض تین باقی رہ گئے۔ حضرت خبیب، اور زیدبن الدَّثِنَّہ اور عبداﷲ بن طارق رضی اﷲ تعالیٰ عنہم۔ ان تینوں حضرات سے پھر انھوں نے عہد و پیمان کیا کہ تم نیچے آجاؤ ہم تم سے بدعہدی نہ کریں گے یہ تینوں حضرات رضی اﷲ تعالیٰ عنہم نیچے اتر آئے اور نیچے اترنے پر کفارنے ان کی کمانوں کی تانت اتار کر ان کی مشکیں باندھیں۔

حضرت عبد اﷲ بن طارق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ یہ پہلی بدعہدی ہے میں تمہارے ساتھ ہر گز نہ جاؤ نگا ان شہید ہونے والوں کی اقتدا ہی مجھے پسند ہے انھوں نے زبردستی ان کو کھینچنا چاہا مگر یہ نہ ٹلے توان لوگوں نے ان کو بھی شہید کردیا۔ صرف دو حضرات رضی اﷲ تعالیٰ عنہما ان کے ساتھ رہے جن کو لیجا کر ان لوگوں نے مکہ والوں کے ہاتھ فروخت کردیا۔ایک حضرت زید بن الدثنہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جن کو صفوان بن امیہ نے پچاس اونٹوں کے بدلے میں خریدا کہ اپنے باپ امیہ کے بدلے قتل کردے۔بخاری شریف کی روایت میں ہے کہ حضرت خبیب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو حارث بن عامر کی اولاد نے خرید اکہ انھوں نے بدر میں حارث کو قتل کیا تھا۔ صفوان نے تو اپنے قیدی حضرت زید رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو فوراََ ہی حرم سے باہر اپنے غلام کے ساتھ بھیج دیا کہ قتل کردیئے جائیں۔

حضرت زیدرضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو قتل کرنے کے لئے حدحرم سے باہر لے گئے تو اس کا تماشادیکھنے کے لئے اور بھی بہت سے لوگ جمع ہوئے جن میں ابو سفیان بھی تھے(جواب تک اسلام نہ لائے تھے) ابو سفیان نے حضرت زید رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے یوں کہا:
’’ اے زید(رضی اﷲ تعالیٰ عنہ )! میں تم کو خداعزوجل کی قسم دے کر پوچھتا ہوں۔ کیا تم یہ پسند کرتے ہو کہ اس وقت ہمارے پاس بجائے تمہارے، محمد( صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم) ہوں جن کو ہم قتل کردیں اور تم آرام سے اپنے اہل میں بیٹھو۔‘‘

حضرت زید رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا:اﷲ عزوجل کی قسم ! میں پسندنہیں کرتا کہ محمد ( صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم ) اس وقت جس مکان میں تشریف رکھتے ہیں ان کو ایک کانٹا لگنے کی تکلیف بھی ہو اور میں آرام سے اپنے اہل میں بیٹھا رہوں۔‘‘

یہ سنکر ابوسفیان نے کہا:’’میں نے لوگوں میں سے کسی کو نہیں دیکھا کہ دوسروں سے ایسی محبت رکھتا ہو جیسا کہ محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کے اصحاب رضی اﷲ تعالیٰ عنہم ، محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم سے رکھتے ہیں۔ اسکے غلام نِسطاس نے حضرت زیدرضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو شہید کردیا۔ (السیرۃ النبویۃ،ذکر یوم الرجیع فی سنۃ ثلاث،ج۴،ص۱۴۷)

حضرت خبیب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ایک عرصے تک قید رہے۔ حجیربن ابی اھاب تمیمی کی باندی جو بعد میں مسلمان ہوگئیں کہتی ہیں:’’کہ حضرت خبیب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ہم لوگوں کی قید میں تھے تو ہم نے دیکھا کہ خبیب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ایک دن انگور کابہت بڑا خوشہ آدمی کے سربرابر، ہاتھ میں لئے ہوئے انگور کھا رہے تھے اور مکہ میں اس وقت انگور بالکل نہیں تھا‘‘۔ وہی کہتی ہیں کہ جب ان کے قتل کا وقت قریب آیا تو انھوں نے صفائی کیلئے اُسترہ مانگاوہ دیدیا گیا،اتفاق سے ایک کمسن بچہ اس وقت خبیب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے پاس پہنچ گیا۔ لوگوں نے دیکھا کہ استرہ ان کے ہاتھ میں ہے اور بچہ انکے پاس ، یہ دیکھ کر گھبرائے خبیب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ میں بچہ قتل کردوں گا،ایسا نہیں کرسکتا اس کے بعد ان کو حرم سے باہر لایا گیا اور سولی پر لٹکانے کے وقت آخری خواہش کے طور پرپوچھا گیاکہ کوئی تمنا ہو تو بتاؤ انھوں نے فرمایا کہ مجھے اتنی مہلت دو کہ میں دورکعت نماز پڑھ لوں کہ دنیا سے جانے کا وقت ہے اﷲ جل شانہ کی ملاقات قریب ہے چنانچہ مہلت دی گئی انھوں نے دورکعتیں بڑے اطمینان سے پڑھیں او ر پھر فرمایا کہ اگر مجھے یہ خیال نہ ہوتا کہ تم لوگ یہ سمجھو گے کہ میں موت کے ڈر سے دیر کررہاہوں تو دو رکعت اور پڑھتا اس کے بعد سولی پر لٹکا دئیے گئے۔

حضرت خبیب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ تختہ دار پر : جب مشرکین مکہ نے حضرت خبیب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو تختہ دار پر کھڑا کیا تو جناب خبیب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اہل مکہ کے لئے بددعا کی۔ حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے میر ے باپ نے زمین پر لٹا دیا کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اگر زمین پر لیٹ جائیں تو بددعا کا اثر نہیں ہوتا۔ اس بددعا سے حضرت سفیان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ پر ایک اضطرابی کیفیت طاری ہوگئی مجھ پر اس بددعا کا یہ اثر ہواکہ کئی سالوں تک میری شہرت ختم رہی ۔ کہتے ہیں کہ ایک سال کے اندراندر جتنے آدمی بھی سولی پر چڑھاتے وقت موجود تھے مرکھپ گئے۔

سعید بن عامر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بعض اوقات بے ہوش ہوجاتے تھے۔ امیرالمؤمنین حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے انھیں ایک عمل بتایا اور ساتھ ہی پوچھا کہ یہ غشی کا سبب کیا ہے ؟ انھوں نے بتایا کہ جب خبیب رضی اﷲ تعالیٰ عنہکو سولی پرکھڑا کیا گیا تو میں وہاں موجود تھا جونہی اس کا نقشہ سامنے آتا ہے میں حواس کھو بیٹھتا ہوں۔ تختہ دار پر حضرت خبیب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کہا اے اﷲ عزوجل ! ہم نے اپنے آقاو مولا جناب محمد رسول اﷲ عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کی تبلیغ پر عمل کیا، یہاں کوئی بھی نہیں جو میرا پیغام ان تک پہنچادے۔ توقادروقیوم ہے۔ میرا سلام ان تک پہنچادے۔ حضرت اسامہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں میں مدینہ میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کے پاس بیٹھا تھا کہ آثار وحی ظاہر ہوئے۔ اور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم نے فرمایا: وعلیہ السلام و رحمۃ اﷲ۔ اس کے بعد آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کی آنکھوں میں آنسوبھر آئے اور بتایا خداعزوجل نے خبیب رضی اﷲ تعالیٰ عنہکا سلام مجھے پہنچایا ہے۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلمنے بشارت دی جو شخص حضرت خبیب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو تختہ د ار سے نیچے اتارے گا اس کا مقام بہشت ہے۔
(شواہد النبوۃ،رکن رابع، ص۱۰۰)
(ماخوذ از:کتاب،صحابہ کرام علیہم الرضوان کا عشق رسول)
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ آج تک نوازتا ہی چلا جارہا ہے اپنے لطف و کرم سے مجھے
بس اک بار کہا تھا میں نے یا اﷲ مجھ پر رحم فرما مصطفی کے واسطے
Abu Hanzalah M.Arshad Madani
About the Author: Abu Hanzalah M.Arshad Madani Read More Articles by Abu Hanzalah M.Arshad Madani: 178 Articles with 371053 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.