ملی جذبہ سے سرشار، ملکی سالمیت کے علمبردار، بے لوث و
بلا تنخواہ سپاہی سمیت جذبۂ حب الوطنی کے سے الفاظ کو جذباتی انداز میں
ٹیلی ویژن کی سکرینوں پر براجمان آسمانی مخلوق کے لبوں کی زینت بنانے یا
اخبارات کی شہ سرخیوں میں لکھوا دینے سے ان دکھوں کا مداوا تو نہ ہو سکتا
ہو گا جو دکھ بلاتنخواہ سپاہیوں کی میراث بن چکے، میراث بھی تب سے جب بے
مرضی ہی ایک ایسی جگہ پر ان زندگیوں کا جنم ہو گیا جو دنیا کی خطرناک ترین
جگہ قرار دیدی گئیں، سمجھ بھی نہ آسکا کہ خوبصورت وادیاں، چٹیل میدان، ہرے
بھرے جنگل، شفاف بہتے دریا اورقدرت کے وہ سب تحفے جو زندگی گزارنے کیلئے
موافق ترین ہیں پھران میں یہ خطرہ کیساکہ انسانی خون بہہ رہا ہے، انسان
مفلوج ہو رہے ہیں، مائیں اپنے بچوں، بہنیں بھائیوں اور کئی بچے اپنے ماں
باپ سے جدا ہوتے جا رہے ہیں کوئی اپنی مرضی سے اب درخواست تو کر نہیں سکتا
کہ مجھے ایسی جگہ پیدا کیا جائے جہاں پر امن ہی امن ہو، جہاں بندوق نظر نہ
آئے، جہاں کوئی باڑ نہ لگی ہو، جہاں کوئی بارودی سرنگ نہ بچھی ہو، جہاں آگ
اگلنے والے توپ خانے نہ نصب ہوں، جہاں انسان بستے ہوں اور انسان کا خون
بہانا سنگین جرم ہو مگر ایسا جب ہو ہی نہیں سکتا تو خواب کیا دیکھنا۔۔۔۔!
ریاست جموں کشمیر کے سینے پر کھینچی گئی ایک خونخوار باڑ جسے دنیا کی
خطرناک ترین سرحد قرار دیا گیا ہے، دونوں اطراف دو ایٹمی طاقتوں کی فوجیں
ہیں مگر وہیں کچھ ایسے انسان بھی بستے ہیں جن کو زندہ رہنے کیلئے بنیادی
ضروریات تک میسر نہیں ہیں پھر بھی ان کا خون بہایا جا رہا ہے مذکورہ بالا
خیالات ان ذہنوں میں جنم لیتے ہیں، خواب نظر آتے ہیں اور دم توڑ جاتے ہیں۔
حکمران طبقات کے منافعوں اور مفادات کی حوس میں خون تو غریب عوام کا ہی
نچوڑا جاتا ہے لیکن یہاں نچڑنے والا خون سرعام بہتا ہوا دکھائی بھی دیتا ہے،
اقتدار کا نشہ، منافعوں کی حوس، لوٹ مار ، کرپشن اور بد عنوانی کا جنون اور
سب سے بڑھ کر ڈیڑھ ارب انسانوں کو اپنا مطیع رکھنے کیلئے ایک فراڈ میں
الجھائے رکھنا یہی سب تو وہ اجزائے ترکیبی ہیں جن کے آثار ہمیں اس خونی
لکیر کے ارد گرد نظر آتے ہیں، جس عالمی جمہوریت کی اٹھائیس ریاستوں میں
علیحدگی کی تحریکیں عروج پر ہوں، جہاں دنیا کی بیس فیصد آبادی دنیا کی
چالیس فیصد غربت کو اپنا اندر سموئے ہوئے ہو، جہاں پچاسی کروڑ لوگ محض تیس
روپے روزانہ خرچ کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں اور ایک ایسی ریاست جس میں کوئی
ایک انسانی زندگی محفوظ نہ ہو، بھوک، لاعلاجی، غربت ، محرومی، لاچاری ،
بیماری ، جہالت ، دہشت گردی ، کرپشن، بدعنوانی سمیت بے پناہ مسائل کروڑوں
انسانوں کی قسمت میں لکھ دئے گئے ہوں اور عالمی مالیاتی اداروں کی طرف سے
بھاری سود کے عوض دی گئی بھیک مہلک ہتھیاروں کی خریداری اور کمیشن کی نذر
ہو رہی ہو اور دونوں ہی ریاستیں اسلحہ کے خریدار ملکوں میں پہلے چھ نمبروں
میں بھی براجمان ہوں ، صحت، تعلیم، علاج اور دیگر انسانی بنیادی ضروریات پر
خرچنے والے ملکوں کی فہرست میں آخری چھ نمبروں پر بھی براجمان ہوں ، پھر
ایٹمی طاقتوں کی حامل بھی ہوں تو پھر سرحدوں پر ایسا ہی کھیل دیکھنے کو ملے
گا۔
دوستی کے ہاتھ بڑھتے ہیں پھر کچھ مزدور سپاہی کٹتے ہیں اور محکوم و مظلوم
سویلین مزدور وں کی زندگیاں آگ و خون میں ڈبوئی جاتی ہیں، پھر عالمی سورما
حرکت میں آتے ہیں اور امن کا ایک نیا کھیل شروع کر دیا جاتا ہے، مقاصد
دونوں اطراف لوٹ مار کرنیوالوں کے ہی حل ہوتے ہیں ، مرتے دونوں اطرف بسنے
والے وہ غریب اور بے بس لوگ ہی ہیں جو بدقسمتی سے وہاں مرنے کیلئے پیدا ہو
گئے۔ ہم بھی گنیں خاموش کرنے کی ایک ہلکی سی بھڑک کو شہ سرخیوں کی زینت
بنتے دیکھ کر اپنی چھاتی چوڑی کئے صبح شہروں کو نکل پڑتے ہیں اور شاید اس
خبر پر کبھی غور بھی نہیں کرتے جو اندرونی صفحات پر سنگل کالم میں لکھی گئی
ہوتی ہے کہ ’’گولہ باری کی زد میں آکر جاں بحق ہونیوالے سرحدی باشندے سپرد
خاک کر دیئے گئے‘‘ ہاں یہ خبر بہت فخر سے سنائی جاتی ہے کہ خاندانوں کو
پچاس پچاس ہزار روپے امداد دینے کا اعلان کر دیا گیاہے، گویا ایک انسانی
جان کی قیمت محض پچاس ہزار روپے ہے، ہاں مگر اسکا غریب مزدور ہونا لازمی
شرط ہے، وگرنا کوئی اگر پوچھے سربراہانِ مملکت سے کہ جن کی جان کی حفاظت پر
ہی فی کس روزانہ پانچ لاکھ سے زائد خرچ دیئے جاتے ہیں لیکن وہ اس سیارے کی
مخلوق تو نہیں ہیں، وہ ان پائپ لائنوں کا زہر آلودپانی بھی تو نہیں پیتے،
وہ علاج بھی تو یہاں کے ہسپتالوں میں نہیں کرواتے اور انکے بچے بھی کھلے
آسمان تلے قائم سکولوں میں تعلیم حاصل نہیں کرتے، ہاں ایسا ضرور ہے کہ یا
تو وہ انسان نہیں ہیں یا پھر یہ انسان نہیں جن کی جان پچاس ہزار روپے میں
لی جا سکتی ہے۔
یہ پٹاخے اگر خرید ہی لئے گئے ہیں، انہیں چلایا نہ گیا تو زنگ آلود ہو کر
ناکارہ ہو جائیں گے اور نقصان ہونے کا اندیشہ بھی لاحق ہی ہے ۔ تو پھر اس
کرہ ارض کا کوئی ایک حصہ ہی مختص کر کے وہاں ایک اکھاڑا بنا دیاجاناچاہئے
تاکہ انسانوں کا وہاں داخلہ ممنوع ہو اور دل کھول کے پٹاخہ پٹاخہ کھیلا
جائے تاکہ وہ غریب مخلوق اگر غلطی سے اس دنیا میں آہی گئی ہے توجینا تو
کجاکچھ عرصہ اس حیات کو جھیل ہی سکے، مگر افسوس کہ یہ ممکن ہی کس طرح ہے،
یہ بہتا انسانی خون ہی ان سارے مفادات کے حصول کا سبب ہے جو سرمائے کے تسلط
کو برقرار رکھنے اور اطاعت گزاروں کو بہلائے رکھنے کیلئے گاہے گاہے کام آتا
ہے ورنہ کیا پتہ کوئی ان اطاعت گزاروں کو احساسِ ذلت ہی دلا دے، کوئی ان کی
سوئی ہوئی دم ہی ہلا دے،پھریہ چاہیں اور دنیا کو اپنابھی بنا لیں اور آقاؤں
کی ہڈیاں تک چبا لیں۔۔۔! |