ہندوپاک کے درمیان معمول کے
تعلقات کی بحالی کیلئے جتنے اقدامات کئے جاتے ہیں معاملہ اتنا ہی بگڑتا چلا
جاتاہے۔ جب جب تعلقات بحال کرنے کی سعی گئی اسی وقت سرحد پر کوئی نہ کوئی
ناخوشگوار واقعہ رونما ہوگیاجس سے معاملہ آگے بڑھنے کے بجائے بہت پیچھے چلا
گیا۔یہ سلسلہ آزادی ہندوستان کے بعد سے جاری ہے اور دو قدم آگے بڑھنے کے
ساتھ ہی چار قدم پیچھے کھینچ لیا جاتاہے۔ہندوستان واحد ایسا ملک نہیں ہے جس
کے سرحدی تنازعات ہیں۔ دنیا کے تقریباَ تمام ممالک کے ساتھ سرحدی تنازعات
ہیں لیکن ان ممالک کے درمیان کبھی کوئی تلخی سامنے نہیں آئی جس سے تعلقات
انتہائی کشیدہ ہوجائے۔ چین ایسا ملک ہے جس کے سرحدی تنازعات ہندوستان سمیت،
جاپان، جنوبی کوریا،بھوٹان اور دیگر ممالک کے ساتھ ہیں۔ جاپان کے ساتھ تو
جزیرہ کے سلسلے میں جنگ تک کی نوبت آجاتی ہے لیکن دونوں ممالک کے معمول کے
تعلقات پر کوئی حرف نہیں آتا۔ دونوں ممالک کی تجارتی اور عوامی سرگرمیاں
حسب سابق رواں دواں رہتی ہیں۔اسی طرح یوروپ کے کئی ممالک ہیں جس کے اپنے
سرحدی تنازعات ہیں اور تقسیم کے سلسلے میں باہم پیکار بھی ہیں لیکن عوامی،
تجارتی اور روز مرہ کی سرگرمیوں پر کوئی اثر نہیں پڑتاتو ہند وپاک کے
درمیان ایسی کیا بات ہے جس سے معمولی سے معمولی واقعہ پر مرنے مارنے، صفحہ
ہستی سے مٹادینے کی بات کی جانے لگتی ہے۔ چین جاپان، یوروپی ممالک اور دیگر
ممالک کے درمیان جو تنازعات ہیں وہ بین حکومتی ہیں لیکن ہندوپاک کے درمیان
جو تنازعات ہیں وہ بین حکومتی نہ رہ کر وہ بین دو قومی ہوگئے ہیں۔ اس طرح
کے مہیب بادل چھاگئے ہیں جہاں حقائق ، دلائل، صحیح و غلط کی تمیز نہیں رہتی۔
اس کی جگہ اشتعال انگیزی،دشمنی،نفرت اور تعصب کا دور دورہ ہوتا ہے۔ ہر شخص
کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ حکومت کے بجائے خود کارروائی کرے اور ایک ایک
پاکستانی کو نیست و نابود کردے۔ یہ ماحول بناتا ہے ہندوستان کا ہندی میڈیا۔
بے سر پیر کی رپورٹ گھنٹوں چلوائی جاتی ہے۔ ہر اینکر اور رپورٹر ہر چھوٹے
بڑے واقعہ کو ہندوستان کے وقار سے منسلک کرکے پیش کرتاہے۔ ایسا محسوس کرایا
جاتاہے کہ اگر کارروائی نہیں کی گئی تو ہندوستان کی عزت اور وقار مٹی میں
مل جائے گا۔کوئی شخص واقعہ کی تہہ میں جانا نہیں چاہتا اور نہ حقیقت کو
اجاگر کرنا چاہتا ہے ۔ جتنے ماہرین ہوتے ہیں وہ اشتعال انگیزی کا مظاہرہ
کرتے ہوئے یکطرفہ باتیں کرتے ہیں۔ کوئی بھی یہ نہیں کہتا ہے سیکورٹی فورسز
کی اتنی بڑی تعیناتی کے باوجود یہ واقعہ کیسے ہوگیا۔اسرائیل سے خریدے گئے
راڈار کا کیا ہوا جس کے بارے میں دعوی کیا گیا تھا کوئی چیز اس کی نظر نہیں
بچ سکتی، وہ اندھیرے میں بھی خط پڑھ لینے کی صلاحیت رکھتاہے ۔ ہندوستانی
دفاع پر خرچ کئے جانے والے دو لاکھ تین ہزار 672 کروڑ روپے کے باوجود
ہندوستانی سرحد غیر محفوظ کیوں ہے۔ چین جب چاہتاہے ہندوستانی سرحد میں داخل
ہوجاتاہے اور اپنے خیمے گاڑ دیتاہے اور ہم کچھ نہیں کرپاتے، بلکہ خیمے ہٹا
لینے کی درخواست کرتے نظرآتے ہیں۔تو ہمارا رویہ پاکستان کے ساتھ اتنا
جارحانہ کیوں ہے۔جب معلوم ہے کہ وہاں بھی ایسے عناصر موجود ہیں جو کبھی
نہیں چاہتے کہ ہندوپاک کے درمیان تعلقات معمول پر آئیں کیوں کہ نارمل
تعلقات کی وجہ سے ان لوگوں کی دکانیں بند ہوسکتی ہیں۔ جب 3جون 2013کو نواز
شریف نے اقتدار سنبھالا تھا اس وقت یہ امید پیدا ہوگئی تھی اب ہندوستان اور
پاکستان کے تعلقات معمول پر آجائیں گے اور خصوصاً اس تناظر میں کہ آئندہ
ماہ ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع ہندوپاک کے
وزرائے اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ اور نواز شریف کے درمیان ملاقات ہوگی۔جیسے
ہی یہ ملاقات طے ہوئی سرحد پر ناخوشگوارا واقعہ پیش آگیا۔ یہ محض اتفاق
نہیں ہے بلکہ دونوں ملک کے تعلقات کو خراب کرنے کی عمداً اور منصوبہ بند
سازش کے تحت ایسا ہوا ہے۔ پونچھ سیکٹر میں پانچ ہندوستانی فوجی جوانوں کی
ہلاکت پر نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ اس کے پس منظر پر نظر رکھنا زیادہ ضروری
ہے۔ آخر کون لوگ ہیں جو اپنے مقاصد کی تکمیل کیلئے انسانی جانوں کی قربانی
لینے پر مصر ہیں۔
گزشتہ چھ اگست کو علی الصبح کشمیر کے پونچھ سیکٹر کے چکن دا باغ میں کنٹرول
لائن کے قریب گشت لگانے والے پانچ ہندوستانی فوجیوں کو تقریباَ پانچ سو
میٹر اندر سرحد میں گھس کر ہلاک کردیاگیا۔ان جوانوں کا تعلق 21 بہار رجمنٹ
تھا۔ ہندوستانی فوج کے مطابق بھاری ہتھیاروں سے لیس دہشت گردوں اور
پاکستانی فوجیوں کی ایک ٹیم نے منگل کی صبح گھات لگا کر حملہ کیا۔یہ 15۔20
دہشت گرد تھے ۔جموں سے تقریبا 200 کلومیٹر دور چکن دا باغ علاقے میں انہوں
نے پونچھ بریگیڈ کی سارلاک چوکی کے قریب حملہ کیا۔فوج کے ایک افسر کے مطابق
ہمارے علاقے میں تقریبا 450 میٹر کے اندر فائرنگ ہوئی ہے جس میں کے پانچ
جوان ہلاک اور ایک نوجوان زخمی ہوا جس کی بھی ایمس میں موت ہوگئی۔پاکستان
نے ان حملوں میں ملوث ہونے سے انکار کرتے ہوئے الزامات کو بے بنیاد اور
بیکار کہا ہے۔ پاکستانی وزارت خارجہ کے بیان کے مطابق ،" ہم جنگ بندی
پرپوری طرح مصروف عمل ہیں اورہندوستان کے ساتھ امن مذاکرات جلد شروع کرنا
چاہتے ہیں۔ ہم نے فوج سے اس بات کی تصدیق کر لی ہے کہ ایسا کوئی حملہ نہیں
ہوا ہے "۔پاکستان ہندوستانی میڈیا کے ایک طبقے کی طرف سے لگائے گئے ان
الزامات کی تردید کرتا ہے کہ اس کے فوجیوں نے کنٹرول لائن پار کرکے
ہندوستانی فوجیوں کی گشتی ٹیم پر حملہ کیا ہے جس میں پانچ ہندوستانی فوجیوں
کی موت ہوئی۔ پاکستان نے بیان میں مزید کہا ہے کہ وہ ابھی بھی 2003 کے جنگ
بندی کے معاہدے پر قائم ہے، جو اعتماد کی بحالی کا ایک اہم طریقہ ہے۔
ہندوستان کے ساتھ پاکستان ایک تخلیقی، پائیدار نتیجہ خیز مذاکرات کے عمل سے
جوڑنے کے لئے مصروف عمل ہے۔ یہ دونوں فریقوں کے لئے ضروری ہے کہ مثبت ماحول
کو برقرار رکھنے کے لئے سنجیدہ کوششیں کی جائیں اور منفی پروپیگنڈے سے بچا
جائے۔
اس بار بھی حملہ کشمیر کے پونچھ سیکٹر میں ہی ہوا ہے۔جنوری میں ایسے ہی ایک
حملے میں ایک فوجی کی ہلاکت ہوئی تھی اور حملہ آوروں نے اس کا سر کاٹ دیا
تھا۔ اس کے بعد پاکستان اور ہندوستان کے درمیان مجوزہ بات چیت تعطل کا شکار
ہوگئی تھی۔ اب اسی علاقے میں ایک بار پھر حملہ ہوا ہے اور حملے کی خبر آنے
کے بعد پارلیمنٹ میں جم کر ہنگامہ ہوا اور حزب اختلاف کی جماعتوں نے حکومت
سے اس پر جواب طلب کیا ہے۔ وزیر دفاع اے کے انٹونی نے لوک سبھا میں پاک
حملے پر بیان دیتے ہوئے کہا کہ حملہ آور پاک فوج کی وردی میں تھے جس پر
کافی لے دے ہوئی اور وزیر دفاع سے معافی کا مطالبہ کیاگیا تھا۔بعد میں وزیر
دفاع کو یہ بیان دینا پڑا کہ یہ حملہ پاکستانی فوج نے کیا تھا۔ وزیر دفاع
کے اس بیان پر بی جے پی لیڈر ارون جیٹلی نے وزیر دفاع کو آڑے ہاتھوں لیتے
ہوئے کہا کہ ان کے اس بیان سے پاکستان بچ سکتا ہے۔ ایسا بیان پاکستان کو
مکرنے کا موقع دے سکتا ہے۔حکومت نے پارلیمنٹ کو یقین دہانی کرائی کہ
پاکستان کی جانب سے بار بار کئے جا نے والی کنٹرول لائن کی خلاف ورزی کو
روکنے کے لئے ملک کی فوج تمام ضروری قدم اٹھانے کے لئے تیار ہے۔ اس سال جنگ
بندی کی خلاف ورزی کے 57 واقعات ہوئے ہیں جو گزشتہ سال کی اس مدت کے خلاف
ورزیوں سے 80 فیصد زیادہ ہیں۔ میں ایوان کو یقین دہانی کرتا ہوں کہ ہماری
فوج کنٹرول لائن کی خلاف ورزی کے خلاف تمام ضروری اقدامات کرنے کو تیار
ہے۔اس سال کشمیر میں سکیورٹی پر مہلک حملوں میں تیزی آ گئی ہے۔ ہندوستانی
فوج نے گزشتہ ماہ تقریبا 25 عسکریت پسندوں کو مار گرایا۔ ہندوستانی سیکورٹی
تجزیہ کار طویل عرصہ سے یہ خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ 2014 میں افغانستان سے
مغربی ممالک کی فوج کے جانے کے بعد عسکریت پسند گروپوں کی توجہ ہندوستان
اور کشمیر کی طرف مرکوز ہوگی اور گزشتہ ہفتہ مشرقی افغانستان کے شہر جلال
اباد میں ہندوستانی کونسلیٹ پر بھی حملہ اسی نظریہ کی عکاسی کرتا
ہے۔پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف نے اقتدار سنبھالتے ہی ہندوستان کو تعلقات
کے معمول پر لانے کے لئے تجویزیں بھیجی تھیں۔گزشتہ ماہ ہی نواز شریف کی
قیادت میں قائم پاکستان کی نئی حکومت نے ہندوستان کے ساتھ بات چیت کے لئے
تاریخوں کی تجویز بھیجی تھی اور ہندوستان ابھی اپنا جواب تیار کر رہا تھا۔
وزیر مملکت برائے داخلہ آر پی این سنگھ کے مطابق اگر پاکستان ہندوستان کے
ساتھ اچھے تعلقات چاہتا ہے تو یہ راستہ صحیح نہیں ہے۔وزیر اعظم نواز شریف
نے اپنے انتخابی مہم میں ہندوستان کے ساتھ بہتر تعلقات کا بھی وعدہ کیا
تھا۔اس سے واضح ہوتا ہے نواز شریف ہندوستان کے ساتھ بہتر تعلقات کے خواہاں
ہیں اور ہندوستان کو یہ موقع اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہئے۔ نواز شریف
جب جب اقتدار میں آئے انہوں نے ہندوستا ن کے ساتھ تعلقات کو بہتر کرنے کی
کوشش کی اور 1999میں سابق وزیر اعظم اٹل بہاری کے ساتھ بات چیت ، دہلی
لاہور بس کی شروعات اور واجپئی جی کا بس میں سفر کرکے لا ہور جانا اس بات
کا ثبوت ہے دونوں ملکوں کی حکومتیں تعلقات کو معمول پر لانا چاہتی ہیں لیکن
معاملہ یہیں آکر معلق ہوجاتاہے کہ کوئی معشوق ہے پردہ ژر نگاری میں۔ دونوں
ملکوں کو اسی معشوق کا پتہ لگاکر اس کا قلعہ قمع کرنا ہوگا۔
آخر کیا وجہ ہے کہ جب دونوں ممالک تعلقات بحال کرنے کی سمت میںآگے بڑھتے
ہیں کوئی نہ کوئی بڑا واقعہ پیش آجاتا ہے۔نواز شریف نے 1999 میں ہندوستان
کے ساتھ ایک بے حد اہم معاہدہ کیا لیکن اس کے بعد ہی دونوں ملکوں کے درمیان
سرحد پر جنگ چھڑ گئی اور اس کے بعد فوج کے بغاوت نے انہیں اقتدار سے باہر
کا راستہ دکھا دیاتھا۔مارچ 2000 کوچھٹی پورہ کا سانحہ پیش آیا جب امریکی
صدر بل کلنٹن ہندوستان کے دورے پر آئے ہوئے تھے ۔ دونوں ممالک کے تعلقات کی
بحالی پر زور دے رہے تھے۔ تب یہ واقعہ پیش آیا۔ اسی طرح جولائی 2001میں
آگرہ سمٹ کے ناکام ہونے کے باوجود دونوں ملک کے تعلقات کی بحالی میں کوئی
سرد رخ سامنے نہیں آیا تھا تو اسی سال کے اخیر میں پارلیمنٹ پر حملہ کا
واقعہ پیش آیا تھا۔ معاملہ پھر وہیں پہنچ گیا جہاں کرگل جنگ کے بعد تھا۔ اس
کے بعد تعلقات بحال ہونے کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پرویز مشرف
کے وزیر خارجہ محمود احمد قصوری اور ہندوستان کے اس وقت کے وزیر خارجہ نٹور
سنگھ نے دونوں ممالک کے تعلقات کو بحال کرنے کی بہت کوشش کی اور سلسلہ کافی
آگے بڑھا بھی تھا لیکن اس کے بعد 2008 میں ممبئی پر حملہ کا واقعہ پیش
آجاتاہے اور تعلقات کی بحالی کی جگہ جنگ کی باتیں کی جانے لگتی ہیں۔ جب بھی
تعلقات بحال کرنے کی بات ہوئی کوئی نہ کوئی ناخوشگوار واقعہ ضرور پیش آگیا
جس کی وجہ سے دونوں ملکوں کے تعلقات سرد مہری کا شکار ہوگئے۔ اس بار بھی
یہی ہوا ہے۔تما م سیاسی جماعتیں جنگ کی باتیں کرتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔
سرحد اور کشمیر میں جتنے بھی واقعات پیش آتے رہے ہیں اس پر شک و شبہات کی
دبیز چادر پڑی رہی اور کبھی بھی اسے دور کرنے کی کوشش کی گئی کہ جس سے یہ
ثابت ہوجائے اس کے پیچھے حقیقتاََ لوگ ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہندوستانی
سیکورٹی ایجنسی یہ دعوی کرتی ہے کہ وہا ں پرندہ بھی پر نہیں مار کرسکتا تو
دہشت گرد یا پاکستانی فوج ہمارے سرحد کے اندر 500میٹر اندر گھس کر قتل کرکے
چلے جاتے ہیں اور ہمارے جوان بے بسی سے اس کا نظارہ کرتے رہتے ہیں۔ کشمیر
میں چھ لاکھ سے زائد فوج ہے ۔ اس کے علاوہ نیم فوجی دستے بھی سی آر پی ایف
بی ایس ایف بھی تعینات ہیں۔ بی ایس ایف کا کام سرحد کی نگہبانی کرنا ہے اس
کے باوجود اس طرح کے افسوسناک واقعات کا ہونا اپنے آپ میں بہت کچھ کہتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں اس طرح کے واقعات بے حد سنگین ہیں اور جذبات کو
برانگیختہ کرتے ہیں لیکن ہمیں انسانی اموات کے معاملے تفریق نہیں کرنا
چاہئے۔ موت چاہے سرحد پر ہو یا کہیں اور وہ اتنے ہی افسوسناک ہیں۔ہمیں اس
خیال پر نظر ثانی کی ضرورت ہے کہ ہندوستان میں سیکڑوں، لاکھوں افراد دیگر
وجوہ سے مرجائیں لیکن ایک بھی کسی ’پاکستانی ‘کی گولی سے نہیں مرنا چاہئے۔
جس طرح ہندوستان میں فسادات کے دوران سیاسی رہنماؤں کے پولیس سے ہتھیار لے
کر فائرنگ کے واقعات سامنے آئے ہیں اسی طرح ہر لیڈر فائرنگ کرنا چاہتا ہے۔
اشتعال انگیزی، جنگ اور نفرت کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔کسی بھی مسئلے کو حل
کرنے کے لئے مذاکرات کی میز پر آنا پڑتا ہے۔ چینی فوجیوں کی دراندازی،
ہندوستانی علاقوں پر قبضہ، وقتا فوقتا دھمکیوں کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں
اس کے باوجود ہندوستان کے وقار کو ٹھیس نہیں پہنچتا اور تعلقات معمول کی
طرح رواں دواں رہتے ہیں۔ہندوستان کے محب وطن عوام کو یہ بھی طے کرنا ہوگا
کہ ہندوستان کو ہندی نیوز چینل چلائے گا یا ہندوستان کے پالیسی ساز ، سیاست
داں اوررہنما چلائیں گے۔ ملک اور قوم کی بھلائی ہندوپاک کے بہتر تعلقات میں
پوشیدہ ہے۔ دونوں ممالک کی باہمی تجارت 2.6 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے اور یہ
مسلسل بڑھ رہا ہے۔ہم آپس میں پڑوسی ہے لہذا ہمارے رشتے بہتر ہونے چاہئے۔ اس
سے معیشت کو مدد ملتی ہے اورجب معیشت بہتر ہوگی، تو تمام چیزیں اپنے آپ
بہتر ہوجائیں گی اور جو تجارت ہمارے تاجر تیسرے ممالک کے ذریعہ پاکستان سے
کرتے ہیں وہ راہ راست کریں گے اور وقت اور پیسہ دونو بچے گا۔ اس لئے
ہندوستان کو پاکستان کے تعلقات استوار نے کی ضرور ہے کیوں کہ اس طرح خدشات
تعلقات کی بحالی سے دور کئے جاسکتے ہیں۔ پاکستان سے گہری دوستی کرکے
افغانستان سے فوجی انخلا کے نتیجے میں ہونے والے نقصان کو ہندوستان کم
کرسکتا ہے۔ ہندوستانی دفاعی تجزیہ کا نفرت کے خول میں بند ہیں اور ایسے میں
کسی بہتر تجویز کی امید نہیں کی جاسکتی۔ سانپ بچھو پر گھنٹوں پروگرام چلانے
والے ہندی نیوز چینل سے کسی بہتری امید نہیں کی جاسکتی۔ اس میں سب سے بڑا
نقصان کشمیریوں کا ہورہاہے جو ’سینڈوچ‘ کی طرح پس رہے ہیں ہر وقت ان پر جنگ
اور بندامنی کا سایہ منڈلاتا رہتا ہے جس کا اثر ان کی روز مرہ کی زندگی پر
پڑ رہا ہے۔وہ نفسیاتی مرض میں مبتلا ہورہے ہیں اس سے جہاں بے روزگاری بڑھ
رہی ہے وہیں تعلیم کا بھی نقصان ہورہاہے۔یہ دور جنگ کا امن ہے اور امن میں
ہی تمام فلاح کا راز مضمر ہے۔ |